ماہر تعلیم انیتا غلام علی کی کہانی آخری حصہ
تعلیم میں شاندار کامیابی یعنی ایم ایس میں فرسٹ پوزیشن کے بعد دادا کی خواہش پر تعلیم و تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا۔
LONDON:
یہی حالات رہے ہوں گے جبھی انیتا آپا کے مطابق ''انٹر'' دو Attempts میں پاس کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ''ہمارے ساتھ کالج میں ڈاکٹر ادیب رضوی بھی تھے، جن کے ساتھ ہم بیٹھتے تھے۔ وہ سارے تجربے کرتے تھے اور ہم ٹیبل پر آرام کرتے رہتے۔ ہمارے بیگ میں کتابوں کے بجائے ٹینس شوز ہوتے تھے۔'' ان ساری باتوں کے باوجود انیتا آپا نے بتایا کہ ان کا گھرانا بہت سپورٹیو Supportive تھا۔ ''انٹر میں ہمارے گریڈ اتنے اچھے نہیں تھے کہ میڈیکل میں داخلہ مل سکے۔
لہٰذا مائیکرو بیالوجی کا انتخاب کیا۔ جب تعلیم ایک مخصوص مضمون میں ہو گئی تو ہم نے اس میں دلچسپی لینی شروع کی، ویسے بھی یہ مضمون میڈیسن سے قریب تھا۔ جس کی وجہ سے تعلیم میں دلچسپی بڑھنے لگی لہٰذا ماسٹرز میں ہم نے ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل لیا۔ جب ہم اپنے اسکول اور کالج کے ٹیچروں سے ملتے تو وہ یہ سن کر ہمیشہ حیران ہوتے کہ ہم نے گولڈ میڈل لیا ہے۔'' بچپن سے آخری عمر تک ان میں خداداد لیڈرشپ صلاحیت تھی۔ جو ان کی تعلیم کے زمانے میں دیکھی گئی۔ کہتی ہیں: ''ہم نے بی ایس سی میں ایک فارما سوٹیکل میں انٹرن شپ (تربیتی کورس) کی جہاں جلد ہی ہم فلنگ سیکشن کے انچارج بنا دیے گئے۔ انٹرن شپ میں ہماری لیڈر شپ ظاہر ہو رہی تھی۔ اسی زمانے میں ہم نے لیاری کے علاقے میں ریڈکراس کے لیے رضاکارانہ کام بھی کیا۔''
تعلیم میں شاندار کامیابی یعنی ایم ایس میں فرسٹ پوزیشن کے بعد دادا کی خواہش پر تعلیم و تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا۔ اس کے متعلق کہتی ہیں۔ ''ابھی ماسٹرز کیا ہی تھا کہ بیچلر کی سطح کے طلبا کو (1961) میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ ایس ایم سائنس کالج تھا جو چھوٹا سا اور کوئی زیادہ مشہور بھی نہ تھا۔ یہاں عموماً کم آمدنی والے گھرانوں کے لڑکے آتے تھے۔ جن میں سے کچھ تو ہم سے بھی بڑی عمروں کے ہوتے تھے۔ جو کام بھی کرتے تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ یہ طلبا عموماً لانڈھی، ملیر، لیاری جیسے علاقوں سے آتے تھے رات میں فیکٹری میں کام کرتے اور صبح کو کالج میں ہوتے لہٰذا ان کے بارے میں اکثر معاملات میں حساس ہونا پڑتا تھا کیونکہ وہ مختلف مسائل کا شکار رہتے تھے۔''
ایک نوجوان استاد ہونے کی حیثیت سے اس قسم کے طلبا اکثر جو عمر میں بھی بڑے ہوتے تھے سے نپٹنا مشکل ہو سکتا تھا لیکن انیتا آپا کی کھیلوں سے دلچسپی اور لیڈرشپ نے اس ملازمت کو آسان کر دیا۔ بچپن سے اسپورٹس میں دلچسپی کے متعلق انھوں نے بتایا:''شریر طالب علم ہونے کے علاوہ ہم ایک بہت اچھے اسپورٹس پرسن تھے۔ یونیورسٹی میں طلبا یونین کے صدر تھے۔ بیڈمنٹن، نیٹ بال اور ٹیبل ٹینس ٹیم کے چیمپئن تھے۔ ان کھیلوں نے ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اسپورٹس پرسن ہونے کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں مختلف صورتحال سے بہتر طور پر نپٹنا آیا۔ اپنے طلبا سے بھی نپٹنے میں مشکل نہ ہوئی۔
ہم کبھی کبھی ان کو دوستانہ انداز میں تھپڑ بھی لگا دیا کرتے اور کبھی کبھار ان کی جیبیں بھی پھاڑ دیتے لیکن بالعموم ہم ان کے ساتھ نرم رویہ ہی رکھتے تھے ہمیں پتہ تھا کہ اگر ان سے عزت لینی ہے تو ان کو اپنا بہترین وقت دینا بھی ہے۔ ہماری کلاس (طلبا) انرجی سے بھرپور ہوتی تھی۔ جن کو کبھی فریش کرنے کے لیے ہم چائے کا کپ بھی پلا دیتے۔ اگر اہم کرکٹ میچ ریڈیو پر آرہا ہوتا تو ہم کلاس منسوخ کر کے ان کے ساتھ ٹرانسسٹر پر میچ بھی سنتے۔'' انیتا آپا نے اپنے طلبا کی حوالات میں ضمانتیں بھی دیں اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھا اس کا نتیجہ ہی تھا کہ ان کے بیان کے مطابق:''طلبا ہمیں بہت تحفظ دیتے تھے۔
ایک دن جب یونی فارم پہنے ایک پولیس اہلکار کالج میں اپنے ذاتی کام سے آیا اور چونکہ ہم اس وقت کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدر تھے اور مظاہرے جلسے کر رہے تھے طلبا یہ سمجھے کہ وہ ہمیں گرفتار کرنے آیا ہے۔ ایک طالب علم ہمیں بتانے آیا اور یقین دلایا کہ اگر اس پولیس والے نے ہمیں چھونے کی بھی ہمت کی تو ''ہم اس کا بھرکس نکال دیں گے'' جب بے چارا پولیس والا تیسری منزل تک پہنچا جہاں ہم بیٹھا کرتے تھے تو وہ کانپ رہا تھا خوف سے۔'' ایس ایم کالج میں 1961-65ء تک کام کیا اس دوران انیتا آپا نے کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدارت سنبھالتے ہوئے نجی کالجوں کو قومی تحویل میں دینے کی تحریک کا تاریخی کام کیا۔ جس میں پولیس کے لاٹھی چارج کو سہا مگر 1972ء تک نجی ادارے قانوناً قومی تحویل میں دیدیے گئے۔
جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز کاسٹر 1950ء کی دہائی میں کام شروع کیا جو دو دہائیوں تک جاری رہا۔ تعلیم کا سلسلہ مگر کبھی نہیں ٹوٹا۔ ''1985ء سے ہم نے منیجنگ ڈائریکٹر (سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن) کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے تحت 1990ء میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔ ''انیتا غلام علی دو دفعہ سندھ کی وزیر تعلیم بھی رہی ہیں۔ لیکن کالج کی استادی (ٹیچنگ) انھیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ کہتی ہیں:''سب سے زیادہ طاقت ایک استاد کو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ کلاس میں ہوتا ہے یہ وہ طاقت ہے جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں چھو سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ''سپرمین'' ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں بہت کچھ ہوتا ہے اور یہ منسٹر ونسٹر۔۔۔۔یہ تو ایسے ہی کچرا (نوکری) ہے۔ اس کے ہاتھ میں کیا طاقت ہوتی ہے جو استاد کے پاس ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم نے پڑھ لیا ہوتا تو منسٹر نہ ہوتے ڈاکٹر ادیب رضوی ہوتے۔''
برداشت و تحمل:انیتا آپا میں دوسروں کے نقطہ نظر کو تحمل سے سننے اور برداشت کی عادت تھی جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے افراد سے رشتہ استوار کر سکتی تھیں۔ اس کی ایک ممکن وجہ ان کے مطابق یہ ہے۔''ہمارے ابا جج تھے جس کی وجہ سے ان کی ہر دو سال بعد مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہوتی تھی مثلاً سیہون، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر وغیرہ جہاں جاتے ہماری اماں وہاں کے مقامی اسکولوں میں داخل کروا دیتیں ہم نے سندھی میڈیم میں بھی پڑھا ہے۔ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے نفسیات خراب ہوتی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
ہمارے اس تجربے کی وجہ سے بعد کی زندگی میں جب ہم بھوٹان، مالدیپ اور چین جیسے ممالک میں گئے تو ہمیں دوسرے لوگوں سے رابطہ اور میل جول میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ ہم نے نئے دوست بنائے نئی زبان سیکھی کیونکہ یہ ہم میں احساس کمتری تھا نہ برتری اور نہ ہی دوسرے کے خلاف بغض تھا۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کس طرح ایک دوسرے کے مذہب کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اگر ہم نے ایک دوسرے کی بات سننے اور انھیں نہ بدلنے کی عادت ڈال لی ہوتی اور اس کے بجائے محض اپنا نقطہ نظر بنانے کی کوشش کی ہوتی تو نفرتیں اس قدر نہ بڑھتیں۔''
اپنے دو دفعہ کے وزارت تعلیم کے تجربے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ:''تعلیم کی تباہی کا اصل سبب طبقاتی نظام ہے۔ ایک طبقے کا بچہ موبائل، گاڑی اور گائیڈ لیے پھر رہا ہے جب کہ اسی (80) فیصد بچے محرومی کا شکار ہیں۔ انھوں نے پوری زندگی ایک عام اور غریب بچے کی تعلیم کی بہتری کے لیے وقف کر دی۔ اور زندگی کے آخری سالوں تک کام اور صرف کام ہی کیا۔ جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ:''ہمیں سب سے زیادہ لطف ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے میں آتا تھا خاص کر نوجوانوں کی باتیں ہمیں تازگی دیتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب میں اسفنج کی طرح جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ مشاہدہ کرنا، اسے جذب کرنا اور اسے اپنے تجربے میں لانا۔''
کاش ہم انیتا آپا کی سالگرہ کے موقع پر برداشت، رواداری اور ہر روز کچھ سیکھنے کی عادت کے عہد کا انمول تحفہ دنیا کو دے سکیں۔
یہی حالات رہے ہوں گے جبھی انیتا آپا کے مطابق ''انٹر'' دو Attempts میں پاس کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ''ہمارے ساتھ کالج میں ڈاکٹر ادیب رضوی بھی تھے، جن کے ساتھ ہم بیٹھتے تھے۔ وہ سارے تجربے کرتے تھے اور ہم ٹیبل پر آرام کرتے رہتے۔ ہمارے بیگ میں کتابوں کے بجائے ٹینس شوز ہوتے تھے۔'' ان ساری باتوں کے باوجود انیتا آپا نے بتایا کہ ان کا گھرانا بہت سپورٹیو Supportive تھا۔ ''انٹر میں ہمارے گریڈ اتنے اچھے نہیں تھے کہ میڈیکل میں داخلہ مل سکے۔
لہٰذا مائیکرو بیالوجی کا انتخاب کیا۔ جب تعلیم ایک مخصوص مضمون میں ہو گئی تو ہم نے اس میں دلچسپی لینی شروع کی، ویسے بھی یہ مضمون میڈیسن سے قریب تھا۔ جس کی وجہ سے تعلیم میں دلچسپی بڑھنے لگی لہٰذا ماسٹرز میں ہم نے ٹاپ کیا اور گولڈ میڈل لیا۔ جب ہم اپنے اسکول اور کالج کے ٹیچروں سے ملتے تو وہ یہ سن کر ہمیشہ حیران ہوتے کہ ہم نے گولڈ میڈل لیا ہے۔'' بچپن سے آخری عمر تک ان میں خداداد لیڈرشپ صلاحیت تھی۔ جو ان کی تعلیم کے زمانے میں دیکھی گئی۔ کہتی ہیں: ''ہم نے بی ایس سی میں ایک فارما سوٹیکل میں انٹرن شپ (تربیتی کورس) کی جہاں جلد ہی ہم فلنگ سیکشن کے انچارج بنا دیے گئے۔ انٹرن شپ میں ہماری لیڈر شپ ظاہر ہو رہی تھی۔ اسی زمانے میں ہم نے لیاری کے علاقے میں ریڈکراس کے لیے رضاکارانہ کام بھی کیا۔''
تعلیم میں شاندار کامیابی یعنی ایم ایس میں فرسٹ پوزیشن کے بعد دادا کی خواہش پر تعلیم و تدریس کے شعبے کا انتخاب کیا۔ اس کے متعلق کہتی ہیں۔ ''ابھی ماسٹرز کیا ہی تھا کہ بیچلر کی سطح کے طلبا کو (1961) میں پڑھانا شروع کر دیا۔ یہ ایس ایم سائنس کالج تھا جو چھوٹا سا اور کوئی زیادہ مشہور بھی نہ تھا۔ یہاں عموماً کم آمدنی والے گھرانوں کے لڑکے آتے تھے۔ جن میں سے کچھ تو ہم سے بھی بڑی عمروں کے ہوتے تھے۔ جو کام بھی کرتے تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ یہ طلبا عموماً لانڈھی، ملیر، لیاری جیسے علاقوں سے آتے تھے رات میں فیکٹری میں کام کرتے اور صبح کو کالج میں ہوتے لہٰذا ان کے بارے میں اکثر معاملات میں حساس ہونا پڑتا تھا کیونکہ وہ مختلف مسائل کا شکار رہتے تھے۔''
ایک نوجوان استاد ہونے کی حیثیت سے اس قسم کے طلبا اکثر جو عمر میں بھی بڑے ہوتے تھے سے نپٹنا مشکل ہو سکتا تھا لیکن انیتا آپا کی کھیلوں سے دلچسپی اور لیڈرشپ نے اس ملازمت کو آسان کر دیا۔ بچپن سے اسپورٹس میں دلچسپی کے متعلق انھوں نے بتایا:''شریر طالب علم ہونے کے علاوہ ہم ایک بہت اچھے اسپورٹس پرسن تھے۔ یونیورسٹی میں طلبا یونین کے صدر تھے۔ بیڈمنٹن، نیٹ بال اور ٹیبل ٹینس ٹیم کے چیمپئن تھے۔ ان کھیلوں نے ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اسپورٹس پرسن ہونے کی وجہ سے ہمیں مستقبل میں مختلف صورتحال سے بہتر طور پر نپٹنا آیا۔ اپنے طلبا سے بھی نپٹنے میں مشکل نہ ہوئی۔
ہم کبھی کبھی ان کو دوستانہ انداز میں تھپڑ بھی لگا دیا کرتے اور کبھی کبھار ان کی جیبیں بھی پھاڑ دیتے لیکن بالعموم ہم ان کے ساتھ نرم رویہ ہی رکھتے تھے ہمیں پتہ تھا کہ اگر ان سے عزت لینی ہے تو ان کو اپنا بہترین وقت دینا بھی ہے۔ ہماری کلاس (طلبا) انرجی سے بھرپور ہوتی تھی۔ جن کو کبھی فریش کرنے کے لیے ہم چائے کا کپ بھی پلا دیتے۔ اگر اہم کرکٹ میچ ریڈیو پر آرہا ہوتا تو ہم کلاس منسوخ کر کے ان کے ساتھ ٹرانسسٹر پر میچ بھی سنتے۔'' انیتا آپا نے اپنے طلبا کی حوالات میں ضمانتیں بھی دیں اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھا اس کا نتیجہ ہی تھا کہ ان کے بیان کے مطابق:''طلبا ہمیں بہت تحفظ دیتے تھے۔
ایک دن جب یونی فارم پہنے ایک پولیس اہلکار کالج میں اپنے ذاتی کام سے آیا اور چونکہ ہم اس وقت کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدر تھے اور مظاہرے جلسے کر رہے تھے طلبا یہ سمجھے کہ وہ ہمیں گرفتار کرنے آیا ہے۔ ایک طالب علم ہمیں بتانے آیا اور یقین دلایا کہ اگر اس پولیس والے نے ہمیں چھونے کی بھی ہمت کی تو ''ہم اس کا بھرکس نکال دیں گے'' جب بے چارا پولیس والا تیسری منزل تک پہنچا جہاں ہم بیٹھا کرتے تھے تو وہ کانپ رہا تھا خوف سے۔'' ایس ایم کالج میں 1961-65ء تک کام کیا اس دوران انیتا آپا نے کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی صدارت سنبھالتے ہوئے نجی کالجوں کو قومی تحویل میں دینے کی تحریک کا تاریخی کام کیا۔ جس میں پولیس کے لاٹھی چارج کو سہا مگر 1972ء تک نجی ادارے قانوناً قومی تحویل میں دیدیے گئے۔
جو ایک بڑی کامیابی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز کاسٹر 1950ء کی دہائی میں کام شروع کیا جو دو دہائیوں تک جاری رہا۔ تعلیم کا سلسلہ مگر کبھی نہیں ٹوٹا۔ ''1985ء سے ہم نے منیجنگ ڈائریکٹر (سندھ ٹیچرز فاؤنڈیشن) کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے تحت 1990ء میں سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر بن گئے۔ ''انیتا غلام علی دو دفعہ سندھ کی وزیر تعلیم بھی رہی ہیں۔ لیکن کالج کی استادی (ٹیچنگ) انھیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ وہ کہتی ہیں:''سب سے زیادہ طاقت ایک استاد کو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب وہ کلاس میں ہوتا ہے یہ وہ طاقت ہے جسے ہم محسوس کر سکتے ہیں چھو سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ ''سپرمین'' ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں بہت کچھ ہوتا ہے اور یہ منسٹر ونسٹر۔۔۔۔یہ تو ایسے ہی کچرا (نوکری) ہے۔ اس کے ہاتھ میں کیا طاقت ہوتی ہے جو استاد کے پاس ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم نے پڑھ لیا ہوتا تو منسٹر نہ ہوتے ڈاکٹر ادیب رضوی ہوتے۔''
برداشت و تحمل:انیتا آپا میں دوسروں کے نقطہ نظر کو تحمل سے سننے اور برداشت کی عادت تھی جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے افراد سے رشتہ استوار کر سکتی تھیں۔ اس کی ایک ممکن وجہ ان کے مطابق یہ ہے۔''ہمارے ابا جج تھے جس کی وجہ سے ان کی ہر دو سال بعد مختلف شہروں میں پوسٹنگ ہوتی تھی مثلاً سیہون، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر وغیرہ جہاں جاتے ہماری اماں وہاں کے مقامی اسکولوں میں داخل کروا دیتیں ہم نے سندھی میڈیم میں بھی پڑھا ہے۔ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے نفسیات خراب ہوتی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
ہمارے اس تجربے کی وجہ سے بعد کی زندگی میں جب ہم بھوٹان، مالدیپ اور چین جیسے ممالک میں گئے تو ہمیں دوسرے لوگوں سے رابطہ اور میل جول میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ ہم نے نئے دوست بنائے نئی زبان سیکھی کیونکہ یہ ہم میں احساس کمتری تھا نہ برتری اور نہ ہی دوسرے کے خلاف بغض تھا۔ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ لوگ کس طرح ایک دوسرے کے مذہب کے خلاف بات کرتے ہیں۔ اگر ہم نے ایک دوسرے کی بات سننے اور انھیں نہ بدلنے کی عادت ڈال لی ہوتی اور اس کے بجائے محض اپنا نقطہ نظر بنانے کی کوشش کی ہوتی تو نفرتیں اس قدر نہ بڑھتیں۔''
اپنے دو دفعہ کے وزارت تعلیم کے تجربے کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ:''تعلیم کی تباہی کا اصل سبب طبقاتی نظام ہے۔ ایک طبقے کا بچہ موبائل، گاڑی اور گائیڈ لیے پھر رہا ہے جب کہ اسی (80) فیصد بچے محرومی کا شکار ہیں۔ انھوں نے پوری زندگی ایک عام اور غریب بچے کی تعلیم کی بہتری کے لیے وقف کر دی۔ اور زندگی کے آخری سالوں تک کام اور صرف کام ہی کیا۔ جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ:''ہمیں سب سے زیادہ لطف ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے میں آتا تھا خاص کر نوجوانوں کی باتیں ہمیں تازگی دیتی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سب میں اسفنج کی طرح جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ مشاہدہ کرنا، اسے جذب کرنا اور اسے اپنے تجربے میں لانا۔''
کاش ہم انیتا آپا کی سالگرہ کے موقع پر برداشت، رواداری اور ہر روز کچھ سیکھنے کی عادت کے عہد کا انمول تحفہ دنیا کو دے سکیں۔