عدم تشدد اور باچا خان بابا

عدم تشدد کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر بھارتی مہاتما گاندھی سے زیادہ باچا خان بابا عدم تشدد کے پیروکار تھے

LONDON:
دو اکتوبر کے دن کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں جنگ اور 'عدم تشدد 'کا دن قرار دیا گیا۔ یہ دن منانے کامقصد دنیا میں نفرتوں اور جنگ و جدل کو ختم کرکے محبت کو بڑھانا ہے، عالمی یوم امن کے موقعے پر عالمی برادری توقع کرتی ہے کہ طاقتور ممالک اپنی جابرانہ اور جنگی پالسیوںکو ختم کرکے دنیا میں امن پھیلانے کے لیے اقدامات کریں گے۔اقوام متحدہ کی اس قرارداد کو 143 رکن ممالک کی حمایت حاصل تھی ۔

اس موقعے پر برصغیر کی عظیم شخصیت خان عبد الغفارخان المعروف باچا خان بابا کی شخصیت کا احاطہ کرنا ہے کیونکہ عدم تشدد کے ذریعے قیام امن کے لیے یہ اس پختون قوم کے نمایندے تھے ، جن کی خُو میں قوت ، جبر اور تشدد کے ذریعے اپنی طاقت کا لوہا منوانا صدیوں کی ایک عظیم تاریخ رکھتی ہے۔جیسے پختون قوم کی تاریخ میں بچے کے پیدا ہونے پر فضا میں فائرنگ کی گونج اور سیکڑوں سال چلنے والی دشمنیاں بھی ایک ضرب المثل بن چکی ہیں کہ پختون اپنا بدلہ کبھی نہیں چھوڑتا، غرض اس قوم میں ایک ایسی شخصیت کی پیدائش اور اس پر ان کی جانب سے عدم تشدد کا نظریہ ایسا ہی تھا جیسے سوئی کے ناکے میں سے' ہاتھی' کو باہر نکالنا۔باچا خان بابا کی شخصیت کسی بھی سیاسی یا غیر سیاسی طالب علم ، دانش ور اور تاریخ دان کے لیے اجنبی نہیں ہے۔

دیکھنا ہوگا کہ عدم تشدد کے اس عالمی موقعے کے دن پر کیا مغرب، مشرق وسطی سمیت امریکی اور دیگر طاقت ور ممالک عمل پیرا بھی ہیں کہ نہیں ؟ ہمیں بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ برداشت کا تعلق جہاں گفتگو سے ہو یا طاقت کے استعمال سے ، اس میں تشدد کا عنصر بہ اتم پایا جاتا ہے ، جب کہ باچا خان بابا نے بر صغیر کی آزادی کے لیے لاکھوں خدائی خدمت گاروں کی موجودگی کے باوجود کبھی اپنے بیانات سے ، کبھی اپنے عمل میں اور کبھی کسی لالچ کے تحت اپنے اصولوں سے روگردانی نہیں کی۔

انھوں نے سب سے پہلے پختون قوم کو تشدد کی راہ اپنانے سے روکنے کے لیے تحریک اصلاح افغانیہ کے نام سے ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی اور پختون قوم کے بچوں کو تعلیم سے روشناس کرانے کے لیے اصلاحی مدارس کی بنیاد رکھی اور خالصتا اس کا مقصد قوم کو تعلیم کی روشنی سے آراستہ کرنا تھا۔ لیکن جہاں ایک طرف مذہبی پیشوائیت ان کے خلاف ہوئی تو دوسری جانب جارح انگریز حکومت بھی ان کی شدید مخالف ہوگئی ۔انگریز جانتا تھا کہ اگر تلوار کے ماہر قلم کے شیدائی بن گئے تو پھر انھیں زیر کرنا ناممکن ہوجائے گا۔

انگریز ڈپٹی کمشنر سر ہملٹن گرانٹ نے باچا خان کے قائم مدارس (اسکولوں) کے خلاف کارروائی کے لیے اپنے ایجنٹ دلاور خان کو اسسٹنٹ کمشنر بنا کر بھیجا جس نے تحریک خلافت کو کچلنے کے باعث شہرت پائی تھی لیکن یہاں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ باچا خان کے ان مدرسوں(اسکولوں) نے بیرون صوبوں میں کافی شہرت پالی تھی لہذا ہندوستان کے کونے کونے سے اور خاص طور بلوچستان سے آپ کو مدعو کیا جانے لگا ۔جس پر انگریز سرکار نے چراغ پا ہو کر ان اسکولوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرڈالا اور باچا خان کے مدارس(اسکولوں) کے خلاف بھر پور کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے جگہ جگہ اساتذہ کو گرفتار کیے جانے لگا۔


دیر کے علاقے میں قائم اخواند زادوں اور پراچوں کے تعاون سے قائم ایک بڑے مدرسے(اسکول) جس میں 450 طالب علم زیر تعلیم تھے، ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ مسٹر کیب نے انگریز حکومت کے کہنے پر دیر کے نواب کو مدرسہ(اسکول) تباہ کرنے کا حکم دیا جس پر دیر کے نواب نے وہ مدرسہ(اسکول) نذر آتش کرڈالا، گو کہ بعد میں معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ انگریز حکومت کے احکامات کی وجہ سے مجبور تھا۔انگریز نے مرکزی مدرسے(اسکول) کے خلاف کارروائی کے لیے پولیس کپتان حافظ زین العابدین، جس کا تعلق امرتسر سے تھا۔

باچا خان کو گرفتار کرنے کے لیے بھیجا لیکن انھیں گرفتار کرنے کے بجائے اُس کپتان نے بتایا کہ آپ کی تعلیمی تحریک سے متاثر ہوکر امرتسر میں بھی مدرسے(اسکول) قائم کروائے ہیں اور قربانی کی کھالوں کے ذریعے سے ان کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔گو کہ باچا خان کو گرفتار تو نہیں کیا لیکن مدرسہ (اسکول) بند کرا دیا گیا ، یہی وہ زمانہ تھا کہ باچا خان تعلیمی جدوجہد میں انگریز حکومت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہتے اور انگریز حکومت انھیں غدار سمجھ کر گرفتار اور مدارس (اسکول) بند کرانے کی تگ ودو میں لگے رہتے ، اور بالآخر خوشحال خان خٹک بابا کی طرح انھوں نے بھی انگریزوں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا اور مجبورا میدان سیاست میں آگئے۔

سیاست میں آنے کے بعد بھی انھوں نے عدم تشدد کی تعلیمات کو اپنایا، انگریزوں کے آگے پختون روایات کے مطابق تشدد کا جواب تشدد سے دینے کے بجائے عدم تشدد سے دیا ۔مختلف سانحات ہوتے رہے لیکن خدائی خدمت گارنے کبھی تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔جب کانگریس نے بٹوارہ ہندوستان کا فیصلہ قبول کرلیا تو آپ نے کہا کہ مجھے کانگریس نے دھوکا دیا ، لیکن اس کے باوجود خدائی خدمت گار تحریک میں تشدد کو آنے نہیں دیا ، قیام پاکستان کے بعدصوبہ سرحد میں خدائی خدمت گار کی حکومت ہونے کے باوجود ، سندھ حکومت کی طرح ایوان سے رائے لینے کے باوجود ریفرنڈم میں ، عوام سے استصواب رائے کے فیصلے پر دو کے بجائے تین آپشن رکھے نہ جانے پر ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا لیکن پھر بھی تشدد وعلیحدگی کی راہ اختیار نہیں کی ۔پاکستان کو دل و جان سے تسلیم کیا ، صوبائی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی ، انگریزوں کے دیے گئے نام پر پاکستان سے جمہوری مطالبہ کرتے رہے کہ شمال مغربی سرحدی کو دیگر صوبوں کی طرح پہچان دی جائے لیکن 1893 ڈیورڈ لائن کے بعد2011 تک صوبائی شناخت نہ ملنے کے باوجود تشدد کا سہارا نہیں لیا گیا۔

افغانستان سے فطری محبت اور بھارت میں اثر ورسوخ کے باوجود کبھی بھی پاکستان کے مفادات کو ضرب پہنچانے کے لیے ملک دشمن عناصر سے ملکر تشدد کی راہ اختیار نہیں کی ، بھارت کی جانب سے صدارت کے عہدے کو پاکستان کی حب الوطنی کی وجہ سے یکسر مسترد کیا، پاکستان کی جانب سے امن کے نوبل ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوئی ۔پاک وبھارت میں مجموعی طور پر39سال سے زیادہ قید کاٹی لیکن اپنی رہائی کے لیے ان پر جان نچاور کرنے والے خدائی خدمت گاروں کو تشدد کا راستہ اپنانے کی تلقین نہیں کی ، اپنا کام خود کیا ، جلسے جلوس میں عوام کی مشکلات کو پہلے مد نظر رکھا اور کوئی بھی ثابت نہیں کرسکتا کہ باچا خان بابا نے تشدد کی راہ اپنائی ہو۔ جب کہ ہم صرف پاکستان کے حالات کاجائزہ لیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آجاتا ہے کہ موجودہ سیاست دانوں کی تقاریر اور بیانات میں سوائے متشدد رویے کے کوئی دوسرا رجحان نہیں پایا جاتا ۔

عدم تشدد کی اعلیٰ ترین مثال کے طور پر بھارتی مہاتما گاندھی سے زیادہ باچا خان بابا عدم تشدد کے پیروکار تھے، کیونکہ مہاتما گاندھی بٹوارہ ہندوستان میں پھر بھی تشدد نہ روک سکے اور ایک متشدد کارکن نے ان کی جان لے لی ۔ جب کہ باچا خان کا تعلق اس قوم سے تھا ، جنھوں نے اپنی تمام زندگی جنگجوؤں کی طرز پر بسر کی تھی اور انھیں یہ درس دینا کہ ہتھیار رکھ دو اور اپنی جانیں قربان کرنے کے باوجود اس کا جواب نہ دو ، لاتعداد ایسے واقعات ہیں کہ جب خدائی خدمت گاروں پر براہ راست فائرنگ کرکے شہید کیا گیا لیکن باچا خان نے امن کے نام پر بدلے کی سیاست کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر ثابت کیا کہ جو طاقت عدم برداشت میں ہے ، وہ طاقت کے بے جا استعمال میں نہیں ہے ۔ ورنہ بابڑا ، قصہ خوانی اور لیاقت باغ جیسے واقعات ایسے تھے کہ کسی بھی انسان کی قوت برداشت جواب دے جاتی ہے۔پاکستان کی سیاسی اور عالمی استعماری قوتوں کو باچا خان بابا کے اس فلسفے کو اپنانا ہوگا کہ خدمت میں اختلاف نہیں ، اختلاف خود غرضی سے پیدا ہوتا ہے۔یہی وہ عدم تشدد کا فلسفہ ہے جس پر ساری زندگی گامزن اور اپنے پیرکاروں کو اس پر کاربند ہونے کی تلقین کرتے رہے اور اس پر عمل کرنے والے ہی خدائی خدمتگار ہیں۔
Load Next Story