افریقا کا بہادر قبیلہ جس کے لوگ مگرمچھ اور دریائی گھوڑے بھی کھاتے ہیں
قبیلے کے بہادر جوان چھوٹی چھوٹی ڈونگیوں میں بیٹھ کر جھیل میں مگرمچھوں سے جنگ کرتے ہیں۔
KARACHI:
El Molo افریقی ملک کینیا میں پایا جانے والا ایک ایسا نسلی گروہ ہے جو اس ملک کے شمال مشرقی صوبے میں آباد ہے۔یہاں کے لوگ جو زبان بولتے ہیں، اسے بھی El Moloہی کہا جاتا ہے۔ اس کو یہ اپنی مادری زبان بھی کہتے تھے، مگر یہ زبان 1974تک بولی گئی، اس کے بعد ختم ہوگئی، مگر اب ان کی یہ قدیم زبان مکمل طور پر مٹ رہی ہے اور اس کی جگہ سواحلی زبان نے لے لی ہے۔
اب تو El Molo قبیلے کے لوگوں نے قرب و جوار کی Nilo-Saharan زبانیں بھی اپنالی ہیں۔ چوں کہ یہاں کے لوگوں نے عیسائی مذہب اپنالیا ہے، اس لیے یہ قدیم اور جدید کے امتزاج کا عجیب سا نمونہ بن گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں کی عورتیں اگر قدیم نیکلس پہنتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے گلے میں کراس بھی ہوتا ہے۔ اب چوں کہ ترکانہ کے کناروں پر تیل بھی دریافت ہوا ہے، اس لیے اس قدیم ترین قبیلے کے سوچنے کا انداز بھی بدل چکا ہے۔
٭ قدیم تاریخ: ایک خیال کے مطابق El Molo نے اصل میں جھیلوں کے اس خطے میں لگ بھگ 1000قبل مسیح میں ہجرت کی تھی اور یہ لوگ ایتھوپیا سے یہاں پہنچے تھے۔ مگر یہاں کی سخت آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، مگر انہیں مجبوراً اس علاقے میں قیام کرنا پڑا، کیوں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے یہاں کھیتی باڑی کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے، کیوں کہ یہاں کی زمین بالکل بنجر تھی اور اس میں کسی فصل کے اگانے کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنی خوراک کے حصول کے لیے جھیل ترکانا کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اس سے مچھلی پکڑ کر اپنی خوراک کا انتظام کیا۔
٭El Molo کے قبرستان:تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد El Molo قبیلے والوں نے سیدھے کھڑے ہوئے مقبروں جیسے ڈھانچے بھی بنائے جن میں یہ اپنے مردوں کو رکھ دیا کرتے تھے۔ اس طرح کے مقبرے انہوں نے پانی کے چشموں اور کنوؤں کے نزدیک تعمیر کیے تھے۔
٭ اکثریت کہاں آباد ہے؟ : آج کے El Moloبنیادی طور پر کینیا کے شمال مشرقی صوبے میں آباد ہیں۔ ان کی زیادہ آبادی ڈسٹرکٹ Marsabit میں ہے جو جھیل ترکانا کا جنوب مشرقی کنارا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ خلیج El Molo پر بھی پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں اس قبیلے کے لوگ شمالی سرحدی ضلع کے مختلف علاقوں میں رہا کرتے تھے۔
2007میں ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس قبیلے کی آبادی کم و بیش 700 افراد پر مشتمل ہے، مگر تاریخ دانوں کا یہ خیال ہے کہ ان میں خالص El Molo چند ہی رہ گئے ہیں اور ان میں اکثر گروپ ممبرز اطراف کے قبیلوں کے ساتھ مکس ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں خالص El Molo نہیں کہا جاسکتا۔ ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ اس وقت یہ لوگ صرف 300رہ گئے ہیں۔ باقی لوگ ایک دوسرے میں خلط ملط ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب El Molo کی اپنی تہذیب و ثقافت بھی باقی نہیں رہی اور ان میں دوسرے قبیلوں کی ثقافت در آئی ہے۔
٭ بہادر اور جرأت مند شکاری: El Molo قبیلے کے بہادر جوان چھوٹی چھوٹی ڈونگیوں میں بیٹھ کر جھیل کے اندر مگرمچھوں سے جنگ کرتے ہیں۔ انہیں اس مہیب جانور سے کبھی ڈر نہیں لگتا۔ انہوں نے تو دریائی گھوڑوں کا بھی شکار کیا ہے اور اس خطرناک جانور کو اس طرح شکار کرلیتے ہیں جیسے وہ کوئی معمولی بکری ہو۔ مگر اس قبیلے کے لوگ نہ تو تن درست ہوتے ہیں اور نہ ہی جان دار، یہ بے چارے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں، اسی لیے بہ مشکل 45سال کی عمر تک جی پاتے ہیں۔
٭محل وقوع: El Molo قبیلے لوگ شمالی کینیا میں جھیل ترکانا کے کناروں پر رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ جھیل ترکانا نمکین پانی کی جھیل ہے جو ہر طرف سے آتش فشانی چٹانوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس مقام پر درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔
٭نمکین پانی، ان کا مقدر ہے: یہاں کے لوگوں کے لیے چوں کہ میٹھے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے یہ لوگ مجبور ہوکر اسی جھیل کا نمکین پانی پیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس جھیل کا پانی کسی بھی لحاظ سے صحت بخش نہیں ہے، مگر چوں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، اس لیے یہ اسی پانی کو پی کر گذارہ کرتے ہیں جس کی بعد میں انہیں مختلف بیماریوں کی صورت میں سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔
آج کل ویسے تو ان کی عام خوراک مچھلی ہے، لیکن یہ مگرمچھ کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اس قبیلے کو ساری دنیا میں بہادر ترین قبیلہ سمجھا جاتا ہے اور کینیا میں تو انہیں دیگر قبائل بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ اپنی خوراک کے لیے یہ نہایت خطرناک دریائی گھوڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان کے طرز زندگی بہت کٹھن ہیں، زندگی ان سے اتنی محنت لے لیتی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ 45کی عمر تک ہی زندہ رہتے ہیں۔
El Molo قبیلہ گوکہ بہت چھوٹا سا قبیلہ ہے، لیکن اپنی بہادری میں اس کے لوگوں کا کوئی جواب نہیں، کیوں کہ یہ بے دھڑک دریائی گھوڑے جیسے بڑے اور خطرناک جانور کا بھی شکار کرتے ہیں اور پانی کے بادشاہ دریائے نیل کے مگرمچھ کو بھی آسانی سے مار لیتے ہیں۔
اس چھوٹے سے قبیلے کی خوراک دنیا کے دو خطرناک ترین جانوروں کا گوشت ہے: دریائی گھوڑا اور مگرمچھ۔ El Molo قبیلے کے لوگ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، صدیوں سے اسی خوراک پر گذارہ کررہے ہیں۔ لیکن اب اس قبیلے کے لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ مچھلی کو اپنی باقاعدہ خوراک بنائیں۔ یہاں کی حکومت نے دریائی گھوڑے اور مگرمچھ دونوں کے شکار پر پابندی لگادی ہے، لیکن یہ لوگ اب بھی جب موقع ملتا ہے، ایک آدھ مگر مچھ یا دریائی گھوڑا مارگراتے ہیں۔
٭امن پسند لوگ: El Molo کے لوگ بڑے امن پسند لوگ ہیں۔ نہ یہ کسی انسان سے جھگڑا کرتے ہیں اور نہ اس پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ مویشیوں پر حملے کرنے اور انہیں مارنے کے بھی سخت خلاف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی آب و ہوا ایسی نہیں ہے کہ یہاں مویشی پالے جائیں اور ان کی افزائش نسل کی جائے، اس لیے یہ لوگ دیگر جانوروں کے بجائے مچھلی کھاتے ہیں اور کبھی کبھار جھیل ترکانا سے مگرمچھوں کا شکار بھی کرلیتے ہیں۔ان کا مچھلی شکار کرنے طریقہ خاصا قدیم ہے۔ یہ لوگ لکڑی کے چھوٹے تختوں یا شہتیروں پر ہارپون سے مسلح ہوکر مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
٭ہیرو کون؟: دریائی گھوڑے کو شکار کرنے والے شکاری کو اس قبیلے میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے کان میں پہننے والی ایک خاص بالی اور ایک نیکلس انعام میں دیا جاتا ہے۔ دریائی گھوڑے کو شکار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، کیوں کہ یہ وحشی جانور افریقا بھر میں ہر سال سب سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر El Molo کے بہادر سورما اس خطرناک جانور کو کسی معمولی جانور کی طرح شکار کرلیتے ہیں۔
El Molo قبیلے کی دیگر خوراکوں میں مگرمچھ کا گوشت بھی شامل ہے جو معزز مہمانوں کے لیے ہی تیار کیا جاتا ہے، حالاں کہ مگرمچھ اور دریائی گھوڑے دونوں کے شکار پر پابندی عائد ہے، لیکن اب بھی El Molo کے لوگ کبھی کبھار ان کا شکار کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد قبیلے میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ قبیلے کے مرد مچھلی اور دریائی گھوڑے یا مگرمچھ کا شکار کرتے ہیں اور ان کی عورتیں کھانا پکانے کا فرض انجام دیتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے دریائی گھوڑے اور مگرمچھ کے شکار پر پابندی لگانے کے بعد El Molo لوگ زیادہ تر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔
٭El Molo کی بیماریاں: اس قبیلے کے لوگ خاص طور سے ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اس کی وجہ بہت زیادہ پروٹین والی خوراک کا استعمال ہے۔ دوسرے یہ کہ اس علاقے میں پھلوں اور سبزیوں کی کمی ہے اور انہیں کاربوہائیڈریٹس بھی نہیں مل پاتے، اس لیے یہاں کے لوگ صحت کے متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ پھر جھیل ترکانا کا نمکین پانی بھی ان کی صحت کو جلد برباد کردیتا ہے۔
El Molo کے لوگ ہڈیوں کی خرابی میں مبتلا ہیں، ان کی ہڈیاں مڑی ہوئی ہوتی ہیں اور خاص طور سے بچوں کی ہڈیاں تو جلد ہی خمیدہ ہوجاتی ہیں۔ بعض بالغ اور جوان بھی چلنے پھرنے معذور ہیں، یا اگر وہ چلتے ہیں تو بڑی تکلیف کے ساتھ۔ یہ صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی خراب ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قبیلے کے لوگ صرف آپس میں ہی شادیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں وہ نسلیں پیدا ہورہی ہیں جو پیدائشی طور پر ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ فلورائیڈ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کے دانتوں کا رنگ خراب ہوچکا ہے۔ شاید یہ ہڈیوں اور دانتوں کی بیماریاں ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ بہ مشکل 40 یا 45 سال کی عمر تک زندہ رہ پاتے ہیں۔ پھر اس قبیلے میں ہر وقت اڑنے والی دھول مٹی بھی ان لوگوں کو گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اکثر لوگ ایک دوسرے کے جسم اور لباس سے ہر وقت دھول جھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
٭مٹتا ہوا کلچر، معدوم ہوتی قوم: اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف El Molo کے لوگ خود بڑے خطرے میں ہے، بلکہ ان کا منفرد کلچر بھی معدومیت کی طرف جارہا ہے۔ یہ لوگ تو یقینی طور پر کبھی نہ کبھی مٹ جائیں گے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کا شان دار اور قدیم کلچر بھی مٹ جائے گا۔ شاید اپنی بقا اور سلامتی کے لیے اس قبیلے کے نوجوانوں نے اپنے روایتی لباس کو چھوڑ دیا ہے اور اس کی جگہ مغربی لباس پہننے شروع کردیے ہیں۔
El Molo قبیلہ اب سمٹ کر اتنا چھوٹا رہ گیا ہے کہ اس وقت یہ صرف دو دیہات پر مشتمل ہے جس میں سے ایک گاؤں کا نام Anderi ہے اور دوسرے کا Illah ہے۔ دونوں دیہات کے گھر آج بھی سکھائے ہوئے سرکنڈوں اور گھاس پھوس سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے ستون پام کے درختوں کے لٹھے ہوتے ہیں۔ یہ خطہ دور دور تک خشک دکھائی دیتا ہے۔ اس ماحول میں نہ تو یہاں زراعت کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی گائیں بھینسیں پالی جاسکتی ہیں۔
٭مذہب: جہاں تک El Moloکا نسلی تعلق ہے تو اس قبیلے میں ایک قدیم مذہب کی پیروکاری کی جاتی تھی۔ ویسے ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ لیکن قدیم لوگوں کی پرستش اور پوجا کا مرکز Waaq یا Wakh ہوتا تھا۔اورومو تہذیب میںWaaq یا Wakh ایک واحد دیوتا تھا اور جس کا تعلق pre-Abrahamicدور سے تھا۔ مگر بعد میں ان لوگوں نے عیسائیت اختیار کرلی اور اب تک اسی پر قائم ہیں۔
El Molo افریقی ملک کینیا میں پایا جانے والا ایک ایسا نسلی گروہ ہے جو اس ملک کے شمال مشرقی صوبے میں آباد ہے۔یہاں کے لوگ جو زبان بولتے ہیں، اسے بھی El Moloہی کہا جاتا ہے۔ اس کو یہ اپنی مادری زبان بھی کہتے تھے، مگر یہ زبان 1974تک بولی گئی، اس کے بعد ختم ہوگئی، مگر اب ان کی یہ قدیم زبان مکمل طور پر مٹ رہی ہے اور اس کی جگہ سواحلی زبان نے لے لی ہے۔
اب تو El Molo قبیلے کے لوگوں نے قرب و جوار کی Nilo-Saharan زبانیں بھی اپنالی ہیں۔ چوں کہ یہاں کے لوگوں نے عیسائی مذہب اپنالیا ہے، اس لیے یہ قدیم اور جدید کے امتزاج کا عجیب سا نمونہ بن گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں کی عورتیں اگر قدیم نیکلس پہنتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے گلے میں کراس بھی ہوتا ہے۔ اب چوں کہ ترکانہ کے کناروں پر تیل بھی دریافت ہوا ہے، اس لیے اس قدیم ترین قبیلے کے سوچنے کا انداز بھی بدل چکا ہے۔
٭ قدیم تاریخ: ایک خیال کے مطابق El Molo نے اصل میں جھیلوں کے اس خطے میں لگ بھگ 1000قبل مسیح میں ہجرت کی تھی اور یہ لوگ ایتھوپیا سے یہاں پہنچے تھے۔ مگر یہاں کی سخت آب و ہوا انہیں راس نہیں آئی، مگر انہیں مجبوراً اس علاقے میں قیام کرنا پڑا، کیوں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے یہاں کھیتی باڑی کرنے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے، کیوں کہ یہاں کی زمین بالکل بنجر تھی اور اس میں کسی فصل کے اگانے کا صرف خواب ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد یہ لوگ اپنی خوراک کے حصول کے لیے جھیل ترکانا کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے اس سے مچھلی پکڑ کر اپنی خوراک کا انتظام کیا۔
٭El Molo کے قبرستان:تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ یہاں پہنچنے کے بعد El Molo قبیلے والوں نے سیدھے کھڑے ہوئے مقبروں جیسے ڈھانچے بھی بنائے جن میں یہ اپنے مردوں کو رکھ دیا کرتے تھے۔ اس طرح کے مقبرے انہوں نے پانی کے چشموں اور کنوؤں کے نزدیک تعمیر کیے تھے۔
٭ اکثریت کہاں آباد ہے؟ : آج کے El Moloبنیادی طور پر کینیا کے شمال مشرقی صوبے میں آباد ہیں۔ ان کی زیادہ آبادی ڈسٹرکٹ Marsabit میں ہے جو جھیل ترکانا کا جنوب مشرقی کنارا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ خلیج El Molo پر بھی پائے جاتے ہیں۔ ماضی میں اس قبیلے کے لوگ شمالی سرحدی ضلع کے مختلف علاقوں میں رہا کرتے تھے۔
2007میں ایک اندازہ لگایا گیا تھا کہ اس قبیلے کی آبادی کم و بیش 700 افراد پر مشتمل ہے، مگر تاریخ دانوں کا یہ خیال ہے کہ ان میں خالص El Molo چند ہی رہ گئے ہیں اور ان میں اکثر گروپ ممبرز اطراف کے قبیلوں کے ساتھ مکس ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں خالص El Molo نہیں کہا جاسکتا۔ ایک دوسرا خیال یہ ہے کہ اس وقت یہ لوگ صرف 300رہ گئے ہیں۔ باقی لوگ ایک دوسرے میں خلط ملط ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب El Molo کی اپنی تہذیب و ثقافت بھی باقی نہیں رہی اور ان میں دوسرے قبیلوں کی ثقافت در آئی ہے۔
٭ بہادر اور جرأت مند شکاری: El Molo قبیلے کے بہادر جوان چھوٹی چھوٹی ڈونگیوں میں بیٹھ کر جھیل کے اندر مگرمچھوں سے جنگ کرتے ہیں۔ انہیں اس مہیب جانور سے کبھی ڈر نہیں لگتا۔ انہوں نے تو دریائی گھوڑوں کا بھی شکار کیا ہے اور اس خطرناک جانور کو اس طرح شکار کرلیتے ہیں جیسے وہ کوئی معمولی بکری ہو۔ مگر اس قبیلے کے لوگ نہ تو تن درست ہوتے ہیں اور نہ ہی جان دار، یہ بے چارے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں، اسی لیے بہ مشکل 45سال کی عمر تک جی پاتے ہیں۔
٭محل وقوع: El Molo قبیلے لوگ شمالی کینیا میں جھیل ترکانا کے کناروں پر رہتے ہیں۔ واضح رہے کہ جھیل ترکانا نمکین پانی کی جھیل ہے جو ہر طرف سے آتش فشانی چٹانوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس مقام پر درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔
٭نمکین پانی، ان کا مقدر ہے: یہاں کے لوگوں کے لیے چوں کہ میٹھے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے، اس لیے یہ لوگ مجبور ہوکر اسی جھیل کا نمکین پانی پیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس جھیل کا پانی کسی بھی لحاظ سے صحت بخش نہیں ہے، مگر چوں کہ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، اس لیے یہ اسی پانی کو پی کر گذارہ کرتے ہیں جس کی بعد میں انہیں مختلف بیماریوں کی صورت میں سزا بھی بھگتنی پڑتی ہے۔
آج کل ویسے تو ان کی عام خوراک مچھلی ہے، لیکن یہ مگرمچھ کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اس قبیلے کو ساری دنیا میں بہادر ترین قبیلہ سمجھا جاتا ہے اور کینیا میں تو انہیں دیگر قبائل بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، کیوں کہ اپنی خوراک کے لیے یہ نہایت خطرناک دریائی گھوڑوں کا شکار کرتے ہیں۔ ان کے طرز زندگی بہت کٹھن ہیں، زندگی ان سے اتنی محنت لے لیتی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ 45کی عمر تک ہی زندہ رہتے ہیں۔
El Molo قبیلہ گوکہ بہت چھوٹا سا قبیلہ ہے، لیکن اپنی بہادری میں اس کے لوگوں کا کوئی جواب نہیں، کیوں کہ یہ بے دھڑک دریائی گھوڑے جیسے بڑے اور خطرناک جانور کا بھی شکار کرتے ہیں اور پانی کے بادشاہ دریائے نیل کے مگرمچھ کو بھی آسانی سے مار لیتے ہیں۔
اس چھوٹے سے قبیلے کی خوراک دنیا کے دو خطرناک ترین جانوروں کا گوشت ہے: دریائی گھوڑا اور مگرمچھ۔ El Molo قبیلے کے لوگ جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں، صدیوں سے اسی خوراک پر گذارہ کررہے ہیں۔ لیکن اب اس قبیلے کے لوگوں کو مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ مچھلی کو اپنی باقاعدہ خوراک بنائیں۔ یہاں کی حکومت نے دریائی گھوڑے اور مگرمچھ دونوں کے شکار پر پابندی لگادی ہے، لیکن یہ لوگ اب بھی جب موقع ملتا ہے، ایک آدھ مگر مچھ یا دریائی گھوڑا مارگراتے ہیں۔
٭امن پسند لوگ: El Molo کے لوگ بڑے امن پسند لوگ ہیں۔ نہ یہ کسی انسان سے جھگڑا کرتے ہیں اور نہ اس پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ مویشیوں پر حملے کرنے اور انہیں مارنے کے بھی سخت خلاف ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی آب و ہوا ایسی نہیں ہے کہ یہاں مویشی پالے جائیں اور ان کی افزائش نسل کی جائے، اس لیے یہ لوگ دیگر جانوروں کے بجائے مچھلی کھاتے ہیں اور کبھی کبھار جھیل ترکانا سے مگرمچھوں کا شکار بھی کرلیتے ہیں۔ان کا مچھلی شکار کرنے طریقہ خاصا قدیم ہے۔ یہ لوگ لکڑی کے چھوٹے تختوں یا شہتیروں پر ہارپون سے مسلح ہوکر مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
٭ہیرو کون؟: دریائی گھوڑے کو شکار کرنے والے شکاری کو اس قبیلے میں ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے اور اسے کان میں پہننے والی ایک خاص بالی اور ایک نیکلس انعام میں دیا جاتا ہے۔ دریائی گھوڑے کو شکار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، کیوں کہ یہ وحشی جانور افریقا بھر میں ہر سال سب سے زیادہ انسانوں کو ہلاک کرتا ہے۔ مگر El Molo کے بہادر سورما اس خطرناک جانور کو کسی معمولی جانور کی طرح شکار کرلیتے ہیں۔
El Molo قبیلے کی دیگر خوراکوں میں مگرمچھ کا گوشت بھی شامل ہے جو معزز مہمانوں کے لیے ہی تیار کیا جاتا ہے، حالاں کہ مگرمچھ اور دریائی گھوڑے دونوں کے شکار پر پابندی عائد ہے، لیکن اب بھی El Molo کے لوگ کبھی کبھار ان کا شکار کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد قبیلے میں جشن کا سماں ہوتا ہے۔ قبیلے کے مرد مچھلی اور دریائی گھوڑے یا مگرمچھ کا شکار کرتے ہیں اور ان کی عورتیں کھانا پکانے کا فرض انجام دیتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے دریائی گھوڑے اور مگرمچھ کے شکار پر پابندی لگانے کے بعد El Molo لوگ زیادہ تر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔
٭El Molo کی بیماریاں: اس قبیلے کے لوگ خاص طور سے ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، اس کی وجہ بہت زیادہ پروٹین والی خوراک کا استعمال ہے۔ دوسرے یہ کہ اس علاقے میں پھلوں اور سبزیوں کی کمی ہے اور انہیں کاربوہائیڈریٹس بھی نہیں مل پاتے، اس لیے یہاں کے لوگ صحت کے متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ پھر جھیل ترکانا کا نمکین پانی بھی ان کی صحت کو جلد برباد کردیتا ہے۔
El Molo کے لوگ ہڈیوں کی خرابی میں مبتلا ہیں، ان کی ہڈیاں مڑی ہوئی ہوتی ہیں اور خاص طور سے بچوں کی ہڈیاں تو جلد ہی خمیدہ ہوجاتی ہیں۔ بعض بالغ اور جوان بھی چلنے پھرنے معذور ہیں، یا اگر وہ چلتے ہیں تو بڑی تکلیف کے ساتھ۔ یہ صورت حال وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی خراب ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قبیلے کے لوگ صرف آپس میں ہی شادیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں وہ نسلیں پیدا ہورہی ہیں جو پیدائشی طور پر ہڈیوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ فلورائیڈ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ان کے دانتوں کا رنگ خراب ہوچکا ہے۔ شاید یہ ہڈیوں اور دانتوں کی بیماریاں ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ لوگ بہ مشکل 40 یا 45 سال کی عمر تک زندہ رہ پاتے ہیں۔ پھر اس قبیلے میں ہر وقت اڑنے والی دھول مٹی بھی ان لوگوں کو گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اکثر لوگ ایک دوسرے کے جسم اور لباس سے ہر وقت دھول جھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
٭مٹتا ہوا کلچر، معدوم ہوتی قوم: اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نہ صرف El Molo کے لوگ خود بڑے خطرے میں ہے، بلکہ ان کا منفرد کلچر بھی معدومیت کی طرف جارہا ہے۔ یہ لوگ تو یقینی طور پر کبھی نہ کبھی مٹ جائیں گے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کا شان دار اور قدیم کلچر بھی مٹ جائے گا۔ شاید اپنی بقا اور سلامتی کے لیے اس قبیلے کے نوجوانوں نے اپنے روایتی لباس کو چھوڑ دیا ہے اور اس کی جگہ مغربی لباس پہننے شروع کردیے ہیں۔
El Molo قبیلہ اب سمٹ کر اتنا چھوٹا رہ گیا ہے کہ اس وقت یہ صرف دو دیہات پر مشتمل ہے جس میں سے ایک گاؤں کا نام Anderi ہے اور دوسرے کا Illah ہے۔ دونوں دیہات کے گھر آج بھی سکھائے ہوئے سرکنڈوں اور گھاس پھوس سے بنائے جاتے ہیں۔ ان کے ستون پام کے درختوں کے لٹھے ہوتے ہیں۔ یہ خطہ دور دور تک خشک دکھائی دیتا ہے۔ اس ماحول میں نہ تو یہاں زراعت کا تصور کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی گائیں بھینسیں پالی جاسکتی ہیں۔
٭مذہب: جہاں تک El Moloکا نسلی تعلق ہے تو اس قبیلے میں ایک قدیم مذہب کی پیروکاری کی جاتی تھی۔ ویسے ان میں سے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو کسی مذہب کو نہیں مانتے تھے۔ لیکن قدیم لوگوں کی پرستش اور پوجا کا مرکز Waaq یا Wakh ہوتا تھا۔اورومو تہذیب میںWaaq یا Wakh ایک واحد دیوتا تھا اور جس کا تعلق pre-Abrahamicدور سے تھا۔ مگر بعد میں ان لوگوں نے عیسائیت اختیار کرلی اور اب تک اسی پر قائم ہیں۔