نواز شریف نے کشمیر پر اصولی موقف اپنا کر مسئلہ عالمی فورم پر دوبارہ اجاگر کیا ایکسپریس سروے

وزیراعظم دھرنوں سے دباؤ میں ہیں،سول ملٹری تعلقات میں توازن لانا ہوگا ، طلعت مسعود

اسلام آباد: ایاز وزیر، طلعت مسعود، اکرم ذکی اور شاہد لطیف ایکسپریس فورم میں گفتگو کررہے ہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

خارجہ و دفاعی امور کے ماہرین نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لئے وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکا پر ملے جُلے ردعمل کا اظہار کیاہے تاہم ان کے خطاب کو سراہا ہے۔

ایکسپریس فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے سابق وزیرمملکت برائے خارجہ امور ایم اکرمذکی نے کہا وزیراعظم نوازشریف کی جنرل اسبملی میں تقریر سے کشمیریوں کی مایوسی میںکمی ہوئی اور مسئلہ کشمیرکو ایک بار پھر اقوام متحدہ کے فورم پر اجاگر کیا گیا ۔ اکرم زکی نے کہاکہ مشرف دورمیں مسئلہ کشمیر دب کر رہ گیا تھا جس کو وزیراعظم نے ایک بار پھر اس کی اصل حیثیت کے مطابق اجاگرکیا ۔ اکرم ذکی نے کہا کہ کشمیر علاقائی نہیں ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، بھارت نے خود اپنے آئین میں کشمیر کو صوبہ قرار دینے کے بجائے اسے خصوصی حیثیت دے رکھی ہے، اب سننے میں آرہاہے کہ بھارت اس خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

اکرم زکی نے کہاکہ وزیراعظم کی حالیہ تقریر سے پاک بھارت تعلقات میںکوئی رکاوٹ نہیں آئے گی، آئندہ ماہ نومبر میں نیپال میں سارک سربراہی کانفرنس ہو رہی ہے ۔ امیدہے وہاں دونوں وزراء اعظم کے مابین ملاقات ہوگی اور انھیں اس پلیٹ فارم کی سائیڈ لائن پر ملاقات کرکے تعلقات بحال کرنے چاہئیں۔

معروف تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے کہاہے کہ وزیر اعظم نوازشریف کو اقوام متحدہ کے دورے پر ضرور جانا چاہیے تھا، یہ موقع سال میں ایک دفعہ ہی ملتا ہے، اس موقع پر دنیا بھر سے رہنما ایک چھت کے نیچے موجود ہوتے ہیں، جو لوگ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نے وہاں کیا باتیں کیں تو پاکستان کے اندرونی حالات ایسے تھے کہ وزیر اعظم کیلیے بڑا مشکل تھا کہ وہاں پر کھل کر بات کرتے، اس کی مختلف وجوہات تھیں، انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ایسے بیانات دیئے کہ وہ کشمر کا الحاق کرنا چاہتے ہیں۔


دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے ایشو پر پیش رفت نہیں ہورہی تو وزیر اعظم نواز شریف نے مناسب سمجھا کہ وہ اپنے خطاب میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے بات کریں اور پاکستان کی پوزیشن واضح کریں۔ انھوں نے کہاکہ اس وقت نواز شریف اور ان کی پارٹی عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں کی وجہ سے دبائو میں ہیں ، فوج کیساتھ تعلقات میں بھی تنائو ہے ، انہوں نے سمجھا کہ ایسی بات کروں کہ اسٹیبلشمنٹ یہ نہ سمجھے کہ میں انڈیا کی طرف پیش رفت کر رہا ہوں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں توازن لانا ہوگا ،جب تک توازن نہیں آئیگا خارجہ پالیسی میں خامیاں رہیں گی، حکومت کا اندرونی حالات پر جب تک کنٹرول نہ ہوگا اس کے اثرات خارجہ پالیسی پر بھی مرتب ہوں گے ، اس وقت ملک کے اندرونی حالات حکومت کے کنٹرول میں نہیں ، اس سے جنوبی پنجاب اور سندھ میں موجود تنظیمیں ناجائز فائدہ اٹھاسکتی ہیں۔

سابق سفیر اور معروف تجزیہ نگار ایاز وزیر نے کہا کہ ملک میں جو حالات درپیش ہیں ، اس میں وزیر اعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، پالیسی بیان کوئی بھی حکومتی نمائندہ جا کر پڑھ سکتا تھا ، ملک کے اندرونی حالات سنگین ہیں ، ان پر توجہ دینی چاہیے تاہم وزیر اعظم کا خطاب اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنا ایک اہم بات تھی، مسئلہ کشمیر پر وزیراعظم کا موقف پوری قوم کی ترجمانی ہے۔

وزیر اعظم کو اندازہ تھا کہ بھارت سخت موقف اپنائیگا، اگر بھارت میں ایک ہندو پرست وزیر اعظم برسراقتدار آیا ہے تو یہاں بھی جو جماعت ہے وہ پاکستانیت اور اسلام پسندی کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے ، وزیراعظم نے جانے سے پہلے فوج سے بھی مشورہ کیا ہوگا اور تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے لی ہوگی، مجھے امید ہے پاکستان اور بھارت بات چیت کی طرف آئیں گے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ معروف تجزیہ نگار و دفاعی و خارجہ امور کے ماہر ایئروائس مارشل (ر) شاہد لطیف نے کہا سیلاب اور دیگر حالات کی وجہ سے وزرائے اعظم کے دورے ملتوی نہیں ہواکرتے البتہ ملک میں اس وقت جو سیاسی حالات ہیں، یہ وزیراعظم کی اتھارٹی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

ملک بھر میں احتجاج جاری ہے، اس لئے وزیراعظم کو جنرل اسمبلی سے خطاب کیلیے نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ ان کی پوزیشن کمزور ہے جس کا عکس دورہ امریکہ میں بھی دکھائی دیا ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ نے ملاقات کا وقت نہیں دیا ، اس سے بڑھ کر یہ کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تک نے ملاقات نہیں کی ۔ شاہد لطیف نے کہا وزیراعظم نوازشریف کا کشمیر کے حوالے سے موقف درست تھا ، یہ پوری قوم کا موقف ہے ، البتہ دو معاملات پر کمزوری دکھائی، پانی کے مسئلے اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا ایشو بھی اٹھانا چاہیے تھا۔
Load Next Story