بات کچھ اِدھر اُدھر کی قربانی ایک پیغام
آج اُس قربانی کو سر انجام دیتے ہوئے وہی جوش و جذبہ نمایاں رہنا چاہیے،نمود و نمائش سے ہم قربانی کا سبق بھول جاتے ہیں۔
یہ بچہ ابھی بہت چھوٹا ہی تھا غالباً اُس کی عمر سات سال ہو گی جب اُس کے والد محترم کو خواب میں اپنی سب سے عزیز چیز قر با ن کر نے کا حکم ہوا۔مسلسل نو راتوں کو ایک ہی خواب دیکھنے پر باپ نے اپنے عزیز جان بیٹے کو جب یہ با ت بتا ئی تواس کم عمر، نیک سیرت،بہادر بیٹے کا جذبہ دیکھیے کہ بیٹے نے کہا''ابا جان آپ پریشان نہ کہ آپ مجھے ہر آ زما ئش میں کامیاب پا ئیں گے آپ کو جو حکم ملا ہے وہ کر گزریے''۔
آزمائش شدید تھی ،باپ کو خواب میں حکم ملاتھا کہ اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیجیے۔حکم خداوندی تھا۔سب سے پیاری شے کیا تھی۔۔۔۔ لخت جگر،جان سے عزیز بیٹا لیکن باپ اور بیٹا دونوں ثابت قدم رہے۔ جس وقت بیٹے کی قر با نی کا حکم آ یا اس وقت باپ کی کوئی اور اولاد نہ تھی۔باپ نے دل پر پتھر رکھا،پختہ ارادہ کیا جیسے ہی وقت قریب آیا بیٹے کو لے کر قربا نی کے لیے نکلے تو شیطان نے کئی مر تبہ روکنے کی کو شش کی مگرشیطان کی یہ سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
باپ کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو جوان بیٹے کی قد و قامت،اسکی خوبروئی اور اسکی محبت پر اللہ کی رضا غالب آ گئی۔ اللہ تعالی کو باپ سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔جس طرح نار نمرود ابراہیم علیہ السلام کو جلا نہ سکی اسی طرح اللہ کے حکم سے اس سعادت مند بیٹے کے گلے پر چل رہی چھری اس کے جسم سے لہو کا ایک قطرہ بھی بہا نہ سکی۔ باپ نے بیٹے کو جب منہ کے بل لٹایا اور قربا نی کے لیے ہا تھ بڑ ھا یا تو اسی لمحے حضرت جبر ئیلؑ آسما ن سے خوشخبری لے کر اتر ے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربا نی قبو ل کی۔جنت سے جانور منگوایاگیا جسے حضرت اسماعیل کی جگہ ذبح کرکے خون بہایا گیا۔
جی وہ باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ؑ جبکہ وہ فرمانبردار اور بہادر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ امت مسلمہ ہر سال 10ذی الحجہ کو کسی جانور کی قربانی پیش کرکے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ
یہ پست حوصلہ تیرا کیا ساتھ دیں گے
ادھر آ زندگی تجھے ہم جی لیں گے
آج اتنے سالوں بعد بھی ہم اسی قربانی کی یاد میں،اسی اطاعت الہی کے جذبے کے تحت،اسی پختہ عزم کے ساتھ سنت ابراہیمی ؑ کو زندہ کرنے کے لیے عیدالاضحی پر قربانی کرتے ہیں جس عزم کو لے کرحضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لیے راضی ہو گئے تھے،اس سب کے پیچھے مقصد کیا تھاصرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی۔ تھوڑی دیر کے لیے اس باپ کے بارے میں سوچیے جس کا ایک ہی بیٹا ہے ،کچھ لمحوں کے لیے تصور کیجیے اس باپ کے بارے میں جو اللہ کے حکم پرکچھ سوچے سمجھے بغیر اپنے بیٹے کو قربان کرنے لیے رضا مند ہو جاتا ہے۔
آج اس قربانی کو سر انجام دیتے ہوئے وہی جوش و جذبہ نمایاں رہنا چاہیے،نمود و نمائش ،لوگوں کو خوش کرنے اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے چکر میں ہم آج سے ہزاروں سال پہلے دی گئی قربانی کا سبق بھول جاتے ہیں۔ہر سال یہ سبق پھر سے تازہ کرنے کے لیے عید الاضحی کی گھڑیاں آتی ہیں۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا اس میں پورا ایک فلسفہ پوشیدہ ہے، امت مسلمہ کے لیے ایک نصیحت رکھی گئی ہے۔
عید قربان پر گوشت رشتہ داروں،عزیزوں اور رشتہ داروں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔اس وقت اس پیارے وطن میں سینکڑوں لوگ سیلاب جیسی قدرتی آفات کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف ایک بڑی تعداد آئی ڈی پیز کی ہے ،متاثرین بے گھر ہیں یہ ان کے اور ہمارے لیے آزمائش کی گھڑی ہے۔تو اس عید پر عزم کیجیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ غربا ء اور سیلاب متاثرین کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں گے۔عزم کیجیے کہ اس بار عید پر ملنے والی خوشیوں کو قربان کریں گے اور وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی خوشیوں کے لیے۔۔۔۔!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آزمائش شدید تھی ،باپ کو خواب میں حکم ملاتھا کہ اپنی سب سے عزیز چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کر دیجیے۔حکم خداوندی تھا۔سب سے پیاری شے کیا تھی۔۔۔۔ لخت جگر،جان سے عزیز بیٹا لیکن باپ اور بیٹا دونوں ثابت قدم رہے۔ جس وقت بیٹے کی قر با نی کا حکم آ یا اس وقت باپ کی کوئی اور اولاد نہ تھی۔باپ نے دل پر پتھر رکھا،پختہ ارادہ کیا جیسے ہی وقت قریب آیا بیٹے کو لے کر قربا نی کے لیے نکلے تو شیطان نے کئی مر تبہ روکنے کی کو شش کی مگرشیطان کی یہ سب کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
باپ کو جب اپنے لاڈلے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم ملا تو جوان بیٹے کی قد و قامت،اسکی خوبروئی اور اسکی محبت پر اللہ کی رضا غالب آ گئی۔ اللہ تعالی کو باپ سے امتحان لینا مقصود تھا اور وہ اس میں کامیاب ہو گیا۔جس طرح نار نمرود ابراہیم علیہ السلام کو جلا نہ سکی اسی طرح اللہ کے حکم سے اس سعادت مند بیٹے کے گلے پر چل رہی چھری اس کے جسم سے لہو کا ایک قطرہ بھی بہا نہ سکی۔ باپ نے بیٹے کو جب منہ کے بل لٹایا اور قربا نی کے لیے ہا تھ بڑ ھا یا تو اسی لمحے حضرت جبر ئیلؑ آسما ن سے خوشخبری لے کر اتر ے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربا نی قبو ل کی۔جنت سے جانور منگوایاگیا جسے حضرت اسماعیل کی جگہ ذبح کرکے خون بہایا گیا۔
جی وہ باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام ؑ جبکہ وہ فرمانبردار اور بہادر بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے۔تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ امت مسلمہ ہر سال 10ذی الحجہ کو کسی جانور کی قربانی پیش کرکے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیں کہ
یہ پست حوصلہ تیرا کیا ساتھ دیں گے
ادھر آ زندگی تجھے ہم جی لیں گے
آج اتنے سالوں بعد بھی ہم اسی قربانی کی یاد میں،اسی اطاعت الہی کے جذبے کے تحت،اسی پختہ عزم کے ساتھ سنت ابراہیمی ؑ کو زندہ کرنے کے لیے عیدالاضحی پر قربانی کرتے ہیں جس عزم کو لے کرحضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے لخت جگر کو قربان کرنے کے لیے راضی ہو گئے تھے،اس سب کے پیچھے مقصد کیا تھاصرف اور صرف اللہ تعالی کی خوشنودی۔ تھوڑی دیر کے لیے اس باپ کے بارے میں سوچیے جس کا ایک ہی بیٹا ہے ،کچھ لمحوں کے لیے تصور کیجیے اس باپ کے بارے میں جو اللہ کے حکم پرکچھ سوچے سمجھے بغیر اپنے بیٹے کو قربان کرنے لیے رضا مند ہو جاتا ہے۔
آج اس قربانی کو سر انجام دیتے ہوئے وہی جوش و جذبہ نمایاں رہنا چاہیے،نمود و نمائش ،لوگوں کو خوش کرنے اور اپنی برتری ظاہر کرنے کے چکر میں ہم آج سے ہزاروں سال پہلے دی گئی قربانی کا سبق بھول جاتے ہیں۔ہر سال یہ سبق پھر سے تازہ کرنے کے لیے عید الاضحی کی گھڑیاں آتی ہیں۔یہ صرف ایک واقعہ نہیں تھا اس میں پورا ایک فلسفہ پوشیدہ ہے، امت مسلمہ کے لیے ایک نصیحت رکھی گئی ہے۔
عید قربان پر گوشت رشتہ داروں،عزیزوں اور رشتہ داروں میں بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔اس وقت اس پیارے وطن میں سینکڑوں لوگ سیلاب جیسی قدرتی آفات کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف ایک بڑی تعداد آئی ڈی پیز کی ہے ،متاثرین بے گھر ہیں یہ ان کے اور ہمارے لیے آزمائش کی گھڑی ہے۔تو اس عید پر عزم کیجیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ غربا ء اور سیلاب متاثرین کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کریں گے۔عزم کیجیے کہ اس بار عید پر ملنے والی خوشیوں کو قربان کریں گے اور وہ بھی اپنے مسلمان بھائیوں کی خوشیوں کے لیے۔۔۔۔!
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔