خیالی پلاؤ – ننھی پری

آج ایک معصوم بچی کے دل کی گہرائی سے نکلے دو بولوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا ’’تم تو بہت پیارے انتل(انکل) ہو‘‘۔


محمد سعد شاہد October 04, 2014
آج ایک معصوم بچی کے دل کی گہرائی سے نکلے دو بولوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا ’’تم تو بہت پیارے انتل(انکل) ہو‘‘۔ فوٹو فائل

منظر ۱


بجلی کے جھماکے نے ایک لمحے کے لئے ہر چیز پر روشنی بکھیر دی اور پھر گھپ اندھیراچھاگیا۔وہ گھنی جھاڑیوں کے پیچھے چھپا ہواایک عمارت کی دوسری منزل کی کھڑکی پر نظریں جمائے ہوئے تھا،جہاں پردوں سے مدھم روشنی نظر آرہی تھی۔رات کا تیسرا پہرا تھا۔ بارش رک گئی تھی،لیکن ہوا میں لہراتے درخت اب بھی پانی کی بوندیں بکھیر رہے تھے۔ اُس نے کراہتے ہوئے زخمی بازو پر ہاتھ پھیرا،جہاں سے اب بھی خون رس رہا تھا۔اِس مکان کی چار دیواری پھاندتے ہوئے اُس کا بازو نوک دار گرل سے ٹکرا کر بُری طرح زخمی ہوگیا تھا۔ کافی خون بہہ جانے سے اُس پر نقاہت طاری ہونے لگی۔


منظر ۲

خان صاحب!میرا کام کب کروگے؟کب سے ٹلائے جارہے ہو،سفیان نے پوچھا،


اے لالہ!صبر سے کام لو،امارا(ہمارا) جان کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے،ہم پکڑا گیا تو تم تو بھاگ جائے گی،تمھارا کچھ نہیں ہوگا،ڈرائیور نے کہا۔


اچھا!رزاق صاحب کو شادی میں کب جانا ہے،تم نے کہا تھا کہ جب وہ جائیں گے تو میدان صاف ہوگا؟ سفیان نے پوچھا۔


ہاں !اِس جمعرات کو جائیں گے،بیگم صاحبہ اپنا سارا زیور ڈریسنگ روم کی الماری میں رکھتی ہیں۔میں بہانے سے کافی میں نیندآور دوائی ملادونگا،لیکن اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ مجھے میرا حصہ مل جائے گا؟ ڈرائیور نے دریافت کیا۔


یہ آدھی رقم ابھی رکھ لو ،باقی بعد میں مل جائے گی، سفیان نے کہا۔


منظر ۳


چھت سے بالکونی میں اترتے ہوئے اس کا پیر گملے سے ٹکرا گیااور وہ دیوار سے چپک گیا۔ کچھ دیر بعد اُس نے کھڑکی کے کونے سے جھانکا
جہاں سے پردہ تھوڑا سا سرکا ہوا تھا۔یہ رزاق صاحب کے کمرے سے ملا ہوا اُن کی چھ سالہ بیٹی مریم کا کمرا تھا۔ کمرے میں چاروں طرف کھلونے بکھرے ہوئے تھے۔سامنے چھوٹے سے خوب صورت بستر پر مریم گڑیا سے کھیل رہی تھی اور کچھ گنگنا رہی تھی۔ لیمپ کی مدھم روشنی مریم اور گڑیا کے سروں پر پڑرہی تھی۔


بالکونی میں کھڑے کھڑے اس کو بچی پر شدید غصہ آرہا تھا ۔اِس بچی کی وجہ سے اس کے منصوبے کا ستیاناس ہورہا تھا۔ زخم کی ٹیس اُس کے برداشت کے باہر ہورہی تھی ۔اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اِس بچی کا گلا دبا کر جان سے مار دے۔


مریم اپنا پیر ہلاتے ہوئے اپنی گڑیا سے مخاطب تھی ؛ آنکھیں پٹر پٹر کئے جارہی ہو ،بس اب ذیادہ نخرے مت دکھاؤ،میں نے تمھیں انجکشن لگادیا ہے۔اب بخار بھی کم ہے۔آنکھیں بدبند کرلو اب۔کتنی خوب صورت ہو تم ،کیسے چم چم کرتے کپڑے ہیں تمھارے،کتنا اچھا گھر ہے تمہارا۔ دادی کہتی ہیں کہ جب انسان پردکھ یا مصیبت آئے تو ﷲسے مدد مانگنی چاہیئے۔


بچی کی باتیں سنتے سنتے وہ نہ جانے کن خیالوں میں کھوگیا۔اچانک نقاہت کی وجہ سے اُسے ایسا محسوس ہواجیسے ہر شے تیزی سے گھوم رہی ہے اور یکایک وہ دروازے کے قالین پر گرگیا۔


دور کسی مسجد سے آذان کی آواز آرہی تھی،اُس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔بچی الماری میں سے کچھ نکال رہی تھی۔اُس کی گڑیا چادر اوڑھے سوچکی تھی۔لیٹے لیٹے اس نے اپنے زخمی بازو کو ٹٹولا اور کن انکھیوں سے بازو پر بندھے کپڑے کو دیکھا۔اب اُس کے زخم میں درد کم تھا۔ب چی اس کے قریب قالین پر آکر بیٹھ گئی۔ جوس کا ڈبا کھولتے ہوئے بچی نے اُس کے گرد میں اٹے بالوں کو ماتھے سے ہٹاتے ہوئے کہا کہ مجھے پتا ہے تم جاگ رہے ہو۔ بچوں کے دلوں میں آنکھیں ہوتی ہیں۔ میری گڑیا بھی اسکول نہ جانے کے بہانے کرکے اسی طرح آنکھیں بند کرکے سوتی بن جاتی ہے۔اب جلدی سے یہ جوس پی لو، میں نے گرم پانی سے تمھارا بازو صاف کرکے اپنی فراک باندھ دی ہے۔


سفیان نے آنکھیں کھول دی اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔بچی نے اُس کے قریب آکر پوچھا؛ تم کون ہو؟ اتنی رات گئے بارش میں کیوں نکلے؟


سفیان بڑبڑایا:میں ایک بہت بڑا انسان ہوں


نہیں تم تو بہت پیارے سے انتل(انکل)ہو۔


بجلی کے ایک جھماکے کی طرح اُس کے ذہن میں اس کا بچپن اورجوانی کا دور گھوم گیا۔بچپن میں ہی ماں باپ کی موت کے بعد اُس نے جو مصیبتیں اٹھائیں،اُسے یاد آنے لگیں۔آج تک کسی نے اُس کی تعریف نہیں کی۔کسی نے پیار سے سر پر ہاتھ نہیں پھیرا۔ہر قدم پر نفرت،حقارت ،ذلت،جھڑکیاں اور ٹھوکریں کھا کھا کر اُسے خود سے نفرت ہوگئی اوروہ بڑائیوں میں ڈوبٹا چلاگیا۔ آج ایک معصوم بچی کے دل کی گہرائی سے نکلے دو بولوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا ''تم تو بہت پیارے انتل(انکل) ہو''۔


برابر والے کمرے میں مسٹر اور مسز رزاق گہری نیند سورہے تھے۔اُن کے ڈریسنگ روم کا دروازہ بھی نظر آرہا تھا،جہاں سے مطلوبہ رقم اور زیورات آسانی سے چرائے جاسکتے تھے۔


اس نے بچی کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اس کے گلابی گالوں کو پیار سے تھپتھایا۔ بچی کو چادر اڑھا کر بازو پر لپٹی فراک کو چومتا ہوا بالکونی کی طرف بڑھ گیا۔


آہستہ آہستہ صبح کی روشنی پھیلتی جارہی تھی۔


منظر ۴


زندگی کی یہ نئی صبح اس کی اپنی چھوٹی سی فیکٹری قائم کرنے تک کی طویل ہے۔ آج کئی شہروں میں اس کا کاروبار پھیلا ہوا ہے۔ آج تک سفیان کے بریف کیس میں ایک سرخ پھولوں والی فراک تہہ کی ہوئی رکھی رہتی ہے۔


سر !یہ فراک کس کی ہے؟ آج اُس کے ملازم نے ضروری کاغذات بریف کیس میں رکھتے ہوئے پوچھا۔


تھی ایک ننھی پری۔ سفیان دور خلا میں گھورتا ہوا بڑبڑیا۔


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |