گلی محلوں میں جانور کی قربانی ایک سماجی مسئلہ

گلی، محلوں میں قربانیوں سے ناصرف طبی مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ پرندوں کے طیاروں سے ٹکرانے کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں


Rana Naseem October 05, 2014
گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور محلوں میں ہونے والی انفرادی قربانیوں کی وجہ سے جگہ جگہ جانوروں کا فضلہ اور الائشیں بکھر جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

عیدالاضحیٰ اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی تھی۔اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوں کہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔ اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔

مہنگائی اور سیلاب جیسے مسائل کی وجہ سے پاکستان میں 2012ء سے قبل چند سال عیدالاضحی پر قربانی کی شرح میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال عید قربان کے موقع پر پاکستانیوں نے تقریباً 75 لاکھ جانوروں کی قربانی دی تھی، تاہم امسال ملک میں 78 لاکھ 50 ہزار جانوروں کی قربانی کی جائے گی، جس سے لائیو سٹاک کے شعبہ میں 300 ارب روپے سے زائد کی اقتصادی سرگرمیاں پیدا ہوں گی۔ اقتصادی سروے آف پاکستان 2013-14ء کے مطابق زراعت کے شعبہ میں لائیو سٹاک کے شعبہ کا حصہ 55.91 فیصد تک ہے جبکہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کے شعبہ کا حصہ 21 فیصد ہے۔ اقتصادی ولائیو سٹاک شعبہ کے ماہرین کے مطابق اس بار 63 لاکھ گائے اور 16 لاکھ کی تعداد میں بکروں کی قربانی کی جائے گی۔

وطن عزیز کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں عیدالاضحی جیسا مذہبی تہوار انتہائی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور ہر شہری کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی چادر کے مطابق قربانی کے فریضہ کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ بحیثیت مسلمان یہ جذبہ بلاشبہ ہمارے لئے نہایت خوش آئند اور قابل تحسین ہے، لیکن قربانی جیسے اہم ترین مذہبی فریضہ کی ادائیگی میں ہم سالہا سال سے ایک سماجی مسئلہ سے دوچار ہیں۔

تیزی سے بڑھتی آبادی اور سکڑتے رہائشی علاقوں کی وجہ سے گلی، محلوں میں ہونے والی انفرادی قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف ہم طبی مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں، بلکہ پرندوں کے جہازوں سے ٹکرانے کے باعث جانی اور مالی نقصان بھی ہوتا ہے۔ گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور محلوں میں ہونے والی انفرادی قربانیوں کی وجہ سے جگہ جگہ جانوروں کا فضلہ اور الائشیں بکھر جاتی ہیں، جس کو بروقت اٹھانے کے لئے بڑے شہروں میں تو گزشتہ چند سال سے کچھ بہتری نظر آتی ہے، لیکن مجموعی طور پر ملک بھر میں یہ صورت حال آئیڈیل نہیں۔ گلیوں اور سڑکوں پر پڑا قربانی کے جانوروں کی الائشیں اور بہتا خون نہ صرف راہ گیروں کے لئے شدید پریشانی کا باعث بنتا ہے بلکہ اس غلاظت سے پیدا ہونے والا تعفن مختلف بیماریوں کا بھی سبب ہے۔

پھر جانوروں کی الائشوں پر پرندوں کے غول در غول امڈ آتے ہیں، جو بعدازاں جہازوں سے ٹکرانے کا باعث بنتے ہیں، یہ ٹکراؤ نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتا ہے بلکہ پائلٹ اگر ہوشمندی کا مظاہرہ نہ کرے تو ہمیں قیمتی جانوں کے ضیاع کا نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی طرف سے گندگی کے ڈھیروں کے حوالے سے مہمات چلائی جاتی رہتی ہیں، پھر بھی کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آ جاتا ہے۔

گزشتہ ماہ کے اواخر میں تازہ ترین واقعہ اسلام آباد بے نظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر بھی پیش آیا جہاں جہاز نے ابھی اڑان ہی بھری تھی کہ پرندہ ٹکرا گیا، جس پر پائلٹ نے بڑی کامیابی سے جہاز واپس ایئرپورٹ پر اتار لیا، جس سے 47 مسافروں کی قیمتیں جانیں تو بچ گئیں، لیکن جہاز کو کافی نقصان پہنچا۔ ماضی میں پرندوں کے ٹکرانے کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے باعث کئی جہازوں کو گراؤنڈ بھی کیا جا چکا ہے۔

عید الاضحی کے موقع پر نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی جانوروں کی قربانی کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن ان ممالک اور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ وہاں اپنے شہریوں کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق قربانی کے لئے باقاعدہ مقامات مختص کئے جاتے ہیں، مگر ہمارے ہاں حکومتوں کی عدم توجہی اور سہولیات کے فقدان کے باعث گھروں، گلیوں، سڑکوں، بازاروں اور محلوں میں ہی مذبحہ خانے بنا لئے جاتے ہیں۔

یورپ اور عرب ممالک میں عیدالاضحی کے موقع پر کوئی شخص اپنے گھر یا گلی میں جانور ذبح نہیں کر سکتا بلکہ اسے متعلقہ مخصوص جگہ کا رخ کرنا پڑتا ہے، جہاں ویٹرنری ڈاکٹرز کی موجودگی میں ماہر قصاب جانور ذبح کرتے ہیں۔ عرب ممالک میں عیدالاضحی سے قبل گھر گھر باقاعدہ شعوری مہمات چلائی جاتی ہیں، قربانی کے لئے جگہیں مختص کرنے کے لئے مقامی انتظامیہ حرکت میں آتی ہے، قصابوں کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور قربانی کے جانور کی باقاعدہ منظوری لی جاتی ہے، جس میں فٹنس کے معیار کی چانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

بلاشبہ جانوروں کی قربانی کے محفوظ طریقے استعمال کرکے اپنی جان و مال اور ملکی اثاثہ جات کی حفاظت کا فریضہ شہریوں کو خود ہی سرانجام دینا ہے، لیکن ریاست کو بھی تو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ حکومتیں جب شہریوں کو جانوروں کی قربانی کے لئے ویٹرنری ڈاکٹرز، تربیت یافتہ قصاب اور دیگر سہولیات سے بھرپور مخصوص مقامات فراہم نہیں کریں گی، تو شہری مجبوراً گھروں، گلیوں اور محلوں میں قربانی کرتے رہیں گے۔ ہمارے حکمرانوں کی تو عوامی مسائل سے دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تحصیل سطح پر بھی مذبحہ خانے موجود نہیں۔

چاروں صوبوں میں 398 تحصیلیں ہیں جبکہ سرکاری مذبحہ خانوں کی تعداد صرف 3 سو کے لگ بھگ ہے، جو نہ صرف 18کروڑ عوام کو معیاری گوشت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہیں، بلکہ یہاں سے بین الاقوامی منڈی میں بھی گوشت فروخت کے لئے بھجوایا جاتا ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ نئے مذبحہ خانوں کی تعمیر پر کوئی دھیان دینے کو تیار ہے نہ پہلے سے موجود ان سنٹرز کی مکمل فعالیت کے بارے میں کسی کو فکر ہے۔

لہذا نہ صرف مذبحہ خانوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے بلکہ عیدالاضحی جیسے مذہبی تہوار پر جانوروں کی قربانی کے لئے خصوصی طور پر سرکار کو ہر محلے اور ٹاؤن میں کوئی گراؤنڈ مخصوص کرنا چاہیے تاکہ الائشوں سے بیماری پھیلیں نہ جہازوں سے پرندے ٹکرانے کے واقعات رونما ہوں۔ مگر یہاں یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ پھر اس گراؤنڈ کی بروقت صفائی کو بھی ممکن بنایا جائے کیوں کہ اگر صفائی کا بروقت انتظام نہیں کیا جاتا تو پھر بچے اور نوجوان کھیلنے کی جگہ دستیاب نہ ہونے سے کہیں کسی منفی سرگرمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، کیوں کہ انہوں نے کھیل کا وقت تو گزارنا ہی ہے۔

ریاستی سہولیات نہ ہونے سے شہریوں کو مجبوراً پبلک مقامات پر قربانی کرنا پڑتی ہے: مفتی راغب نعیمی
معروف عالم دین مفتی راغب نعیمی نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حرم شریف اور مساجد کے علاوہ روئے زمین پر ہر جگہ قربانی کی جا سکتی ہے۔ مساجد کے حوالے سے کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ علماء کرام شائد جو اجتماعی قربانیاں کرتے ہیں، وہ مساجد میں ہوتی ہیں، لیکن اجتماعی قربانی مسجد نہیں بلکہ اس کے صحن میں کی جاتی ہے۔

دوسرا گلی محلوں میں ہونے والی قربانی کے بارے میں جو آپ نے پوچھا اس میں ایک بات تو واضح ہے کہ قربانی ہر جگہ ہو سکتی ہے، لیکن عوامی مشکلات کے پیش نظر پبلک مقامات پر قربانی کی صورت میں صفائی اور احتیاطی تدابیر کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔



ہونا تو یہ چاہیے کہ دیگر ممالک کی طرح حکومت ہر ٹاؤن اور محلہ میں قربانی کے لئے باقاعدہ جگہ مختص کرے، لیکن ایسا نہیں ہو رہا تو پھر مجبوراً لوگوں کو گلیوں میں قربانی کرنا پڑتی ہے۔

ہمارے ہاں گلی یا محلے میں شادیوں کا عام رواج ہے، جو درست نہیں تو پھر قربانی جیسے اہم ترین مذہبی فریضہ کو کیوں کر یہاں ادا کیا جائے؟ یہ مجبوری ہی تو ہے جو لوگ گلی، محلوں میں قربانی کرتے ہیں، اگر ریاست انہیں مخصوص مقامات اور سہولیات فراہم کرے تو کسی کو بھی گلی میں قربانی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ تاہم جب تک ایسی مخصوص جگہیں دستیاب نہیں پبلک مقام پر قربانی ہو سکتی ہے، لیکن اس کے بعد صفائی کا خاص خیال رکھا جائے، کیوں کہ گندگی کی صورت میں راہ گیروں کو پہنچنے والی تکلیف کا ذمہ دار متعلقہ شخص ہوگا اور اسلام میں کسی دوسرے شخص کو ایذا یا تکلیف پہنچانے کی سخت مذمت اور ممانعت کی گئی ہے۔

گلی، محلوں میں قربانی پر قانون خاموش، مخصوص مقامات کا تعین ہونا چاہیے: سابق صدر ہائی کورٹ بار عابد ساقی
عیدالاضحی کے موقع پر گلی، محلوں میں جانوروں کی قربانی کے بارے میں پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟ کا جواب دیتے ہوئے سینئرقانون دان و سابق صدر لاہور ہائی کورٹ بار عابد ساقی کا کہنا تھا کہ اس معاملہ میں قانون خاموش ہے۔

ہمارا ہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے، جس کے تحت قربانی کے لئے کوئی خاص جگہ مختص ہو اور لوگ اسی جگہ پر جا کر قربانی کریں، حالاں کہ دیگر ممالک حتٰی کہ غیر مسلم ممالک میں بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی قربانی کے لئے جگہیں مختص کی جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ الحمداللہ ہم ایک مسلم ملک میں رہتے ہیں۔



جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کی کسی جگہ پر بھی ممانعت نہیں، لیکن حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کے لئے ہر محلے یا ٹاؤن میں جگہ مختص کرنی چاہیے، کیوں کہ جانوروں کے فضلہ اور خون سے پیدا ہونے والے تعفن سے بیماریاں جنم لیتی ہیں، جن کا شکار پھر ہم خود ہی بنتے ہیں۔ گلی میں پڑی گندگی اور نالی میں بہتے خون کی وجہ سے راہ گیروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جو اخلاقی و مذہبی کسی طور پر بھی درست نہیں۔ لہذا لوکل گورنمنٹ ایسی حکمت عملی تشکیل دے، جس کے تحت نہ صرف قربانی کے لئے مخصوص مقامات کا تعین بلکہ موثر شعوری مہمات کا بھی اہتمام کیا جائے۔ مذبحہ خانوں کی تعداد میں نہ صرف اضافہ بلکہ پہلے سے موجود مذبحہ خانوں میں تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے علاوہ اگر قربانی کے لئے قانون سازی بھی ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ قانون کسی بھی مہذب ملک اور شہریوں کی آسانی کے لئے ہوتا ہے۔

طبی لحاظ سے مخصوص مقامات پر ہی قربانی ہونی چاہیے:صدر پاکستان پیٹس پریکٹیشنر ایسوسی ایشن ڈاکٹر جمشید طاہر
پاکستان پیٹس پریکٹیشنر ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جمشید طاہر نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ذبح کرتے وقت قربانی کے جانور سے کوئی بیماری نہیں لگتی، لیکن جانور کے خون سے احتیاط برتنا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ بیماریاں پیدا کرنے والے تمام جراثیم اور وائرس جانور کے خون میں ہوتے ہیں، جو اچھی طرح بہہ اور صاف نہ ہونے کے باعث کوئی مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ لہذا یہ انتہائی ضروری ہے کہ جانور کو ذبح اور کھال اتارنے کے بعد ایک سے دوگھنٹے کے لئے اسے لٹکا کر رکھیں تاکہ خون اچھی طرح بہہ جائے، وقت کم ہونے کی وجہ سے قصاب حضرات اور مالکان اس چیز کا خیال نہیں رکھتے تو پھر متاثرہ خون سے بیماری لگ سکتی ہے۔



قربانی کے لئے ہر ٹاؤن یا محلہ میں مخصوص جگہ کے تعین پر اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا ہونا تو چاہیے کیوں کہ اس صورت میں اگر کوئی جانور کسی بیماری سے متاثرہ ہے تو یہ بیماری ایک ہی جگہ مقید رہتی ہے، پھیلتی نہیں، جس کا سدباب کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن جگہ جگہ قربانی کرنے کی صورت میں متاثرہ جانور کی وجہ سے وسیع پیمانے پر منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لہذا قربانی انفرادی ہو یا اجتماعی فضلے اور خون کی صفائی کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ گزشتہ چند سالوں سے مساجد کمیٹیوں کے علاوہ مختلف اداروں کی طرف سے اجتماعی قربانی کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جو طبی لحاظ سے درست ہے، کیوں کہ اجتماعی قربانی والی جگہ پر نہ صرف صفائی کا اچھا نظام ہوتا ہے بلکہ جگہ جگہ گندگی پڑی بھی دکھائی نہیں دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں