پیپلز پارٹی اور اس کا مزاحمتی کردار

2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں ایک خاموش مفاہمت نظر آئی ہے۔


Latif Chaudhry October 05, 2014
[email protected]

آصف زرداری صاحب سندھی ٹوپی پہن کر لاہور تشریف لے آئے ہیں۔ انھوں نے آتے ہی منصورہ کا رخ کیا جہاں وہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے ملے۔ اس سے قبل جب وہ لاہور آئے تھے تب بھی انھوں نے میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد سراج الحق سے ملاقات کی تھی، اس کے بعد وہ چوہدری برادران سے ملے تھے۔ ان کا پہلا دورہ لاہور عمران خان اور طاہر القادری کے اسلام آباد دھرنوں کے خلاف میاں صاحب سے اظہار یکجہتی تھا۔

ان کا حالیہ دورہ موجودہ سیاسی بحران میں کوئی کردار ادا کرنے کے حوالے سے ہے یا وہ پیپلزپارٹی کو پنجاب میں متحرک کرنے کے لیے آئے ہیں، اس کا پتہ آنے والے دنوں میں چل جائے گا۔ موجودہ سیاسی بحران میں اب تک جناب آصف زرداری نے جو کردار ادا کیا ہے وہ صرف اتنا ہی نظر آتا ہے کہ ڈائیلاگ' ڈائیلاگ اور بس ڈائیلاگ۔ اس کے سوا انھوں نے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کیا البتہ خورشید شاہ نے پارلیمنٹ میں خوب دھواں دار تقریریں کیں۔

ادھر سیاسی منظرنامے میں عمران خان جس انداز میں آگے بڑھے ہیں انھوں نے اپوزیشن کے میدان میں موجود خلاء کو پر کر دیا ہے۔ پاکستان کے عوام کا ایک قابل لحاظ حصہ سمجھتا ہے کہ اس وقت اگر ملک میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی کوئی اپوزیشن ہے تو وہ عمران خان ہے یا پھر طاہر القادری ہیں۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہو گیا ہے کہ وہ موجودہ بحران میں میاں نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے اور اس کا الگ سے کوئی اسٹینڈ نہیں ہے۔ یوں بطور اپوزیشن پیپلزپارٹی اپنی شناخت قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور اسے مسلم لیگ ن کی اتحادی سمجھا جارہا ہے۔

پنجاب کی سیاست میں پیپلزپارٹی کی شناخت ضیاء الحق اور بعد میں میاں نواز شریف کی مزاحمت رہی ہے۔ اسی مزاحمت کے باعث پنجاب میں پیپلزپارٹی تمام تر مشکلات کے باوجود ایک مضبوط سیاسی قوت رہی تاہم پیپلزپارٹی نے پچھلے 7 سال میں اپنے اس کردار کو خاصی حد تک ترک کر دیا ہے۔اس وجہ سے پنجاب کی سیاست میں ایک بڑا خلاء پیدا ہو گیا۔ اس خلاء کو کسی نہ کسی نے پر کرنا تھا۔ یہ خلاء اس وقت پر ہو سکتا تھا جب کوئی جماعت یا اس کا لیڈر اینٹی نواز شریف جذبات کی تسکین کرے۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب میں جو پوزیشن ہے، شاید اس میں ابھی تک کوئی فرق نہیں آیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک کسی حد تک آج بھی محفوظ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پورا پنجاب مسلم لیگ (ن) کا ووٹر نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں رہا ہے۔ پنجاب کی مڈل کلاس' لوئر مڈل کلاس، چھوٹے زمیندار اور غریب عوام ہمیشہ سے مسلم لیگ (ن) کے مخالف چلے آ رہے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں خصوصاً محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی پر آصف علی زرداری کی سوچ و فکر کا غلبہ ہوا جس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کے مزاحمتی کردار میں کمی آئی ہے۔

اس خلاء کو عمران خان نے میاں صاحبان کے خلاف سخت اسٹینڈ لے کر پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان کے پاس پیپلزپارٹی کی طرح سوشلزم کا کارڈ ہے نہ پسے ہوئے عوام کے لیے روٹی' کپڑا اور مکان جیسا انقلابی نعرہ لیکن اس کے باوجود اگر وہ پنجاب میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے مزاحمتی کردار سے ہٹ گئی۔ پیپلز پارٹی پنجاب کی سطح پر بے چینی اس کا ثبوت ہے۔

2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں ایک خاموش مفاہمت نظر آئی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے جو غیرمعمولی کامیابی حاصل کی، اس کے بارے میں زرداری صاحب نے خود کہا تھا کہ آر اوز نے پیپلز پارٹی کو 20 سے 25 نشستوں پر شکست دلائی ہے لیکن حیران کن طور پر اس سارے معاملے پر خاموشی اختیار کر لی گئی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ سندھ میں پیپلزپارٹی اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی کہ تنہا صوبائی حکومت بنانے کے قابل ہو گئی۔ ایک اور غیرمعمولی تبدیلی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے طرز سیاست میں آئی۔

میاں نواز شریف نے سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور اپنے اتحادیوں کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ سوچنے والی بات ہے، اگر دھاندلی پنجاب میں ہوئی تھی تو سندھ میں بھی ایسی ہی دھاندلی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن اس پر میاں صاحبان اس لیے خاموش رہے کہ انھیں پنجاب میں اقتدار واپس مل گیا اور مرکز میں بھی ان کی حکومت قائم ہو گئی۔ پنجاب میں انھیں دو تہائی اکثریت والا اقتدار ملا۔ بلوچستان میں بھی انھوں نے مسلم لیگ (ن) کو پس منظر میں دھکیل کر عبدالمالک بلوچ اور محمود اچکزئی کو آگے کر دیا۔ صرف خیبرپختونخوا ایسا صوبہ تھا جہاں تحریک انصاف کو فری ہینڈ دیا گیا حالانکہ اے این پی اور جے یو آئی یہاں بھی دھاندلی کا شور مچاتے ہیں لیکن ان بیچاروں کی کسی نہیں سنی۔ یوں دیکھا جائے تو بڑا دلچسپ منظرسامنے آتا ہے۔ ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے حصے پر قناعت کر لی۔ یہ حصہ پاکستانی سیاست کا تقریباً 90 فیصد بنتا ہے۔چھوٹی جماعتیں باقی دس فیصد پر جمہوریت کے ساتھ ہوگئیں۔

اقتدار کے 90 فیصد حصے پر قابض ہونے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ اب کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اقتدار کے میکنزم میں کئی اور طاقتور گروپ بھی موجود تھے۔ ان گروپوں کے پاس بظاہر کوئی سیاسی قوت موجود نہیں رہی تھی جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکتی کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی بانھوں میں بانھیں ڈال چکی تھیں۔ جے یو آئی' اے این پی، ایم کیو ایم اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی ان کی چھتری کے سائے میں تھیں۔ ایسی صورت میں خطرہ کہیں سے نہیں تھا لیکن ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ایک تو طاقتور فیکٹر کو نظرانداز کیا، دوسرے عوام میں پلنے والے احساس محرومی کو اہمیت نہیں دی خصوصاً پنجاب جو طاقت کا مرکز ہے یہاں گزشتہ 35 سال سے میاں صاحبان اور ان کے ساتھیوں کا کسی نہ کسی رنگ میں اقتدار چلا آ رہا ہے۔

اس اقتدار کی سب سے بڑی مزاحمت پیپلزپارٹی کرتی آئی ہے لیکن حالیہ تبدیلیوں نے اس مزاحمت کا خاتمہ کر دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تب وہ پنجاب میں (ن) لیگ کی اتحادی تھی۔ اس وقت عمران خان جب نواز شریف پر تنقید کرتے تو پیپلزپارٹی والے خوش ہوتے تھے۔ عمران خان آصف زرداری پر برستے تو مسلم لیگ (ن) والے بغلیں بجاتے تھے، اب (ن) لیگ کو پیپلزپارٹی اچھی لگتی ہے۔پچھلے دور حکومت میں لاہور میں ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدوار کے جلسوں میں پیپلزپارٹی کے کارکن جاتے تھے' آج اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ناراض ارکان سے معافی مانگنی پڑی ہے۔

اب اقتدار کے طاقتور کھلاڑیوں کی اگلی یلغار سندھ ہے۔ عمران خان کو بڑی تیاری کے ساتھ سندھ کے میدان میں اتارا جا رہا ہے۔ یہی وہ فیکٹر ہے جس نے آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کی صفوں میں پریشانی پیدا کی ہے۔ حالیہ بحران نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے تضادات کو واضح کیا ہے۔ سندھ میں مخدوم امین فہیم کے لب و لہجے میں بھی بہت کچھ چھپا نظر آ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو باقاعدہ اتحاد کر کے عمران خان اور اس کے پس پردہ قوتوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس وقت یہ دونوں مل کر بھی اپنے اہداف حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں، کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ایک خطرہ بہرحال موجود ہے کہ کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ ان دونوں کو مل کر کسی نئے سیٹ اپ کی اپوزیشن کا کردار ادا نہ کرنا پڑجائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں