سیاست اور داخلی مسائل
یہ کتنا اچھا موقع ہے کہ پی پی پی سندھ میں دیہی علاقوں کی نمائندہ اور ایم کیو ایم شہری علاقوں کی مگر صورتحال۔۔۔
ہمارا وطن پاکستان دنیا میں ایک قابل ذکر مسلم ملک سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی دنیا کا اہم ملک تھا۔ ہماری بدقسمتی تھی کہ جنرل ایوب خان نے 1958 میں پہلا مارشل لاء لگا کر ملک میں صدارتی نظام نافذ کردیا، اس طرح پاکستان جہاں کے صوبے بنگالی، سندھی، بلوچی، پختون کی بنیاد پر پروان چڑھتے رہے، ایوب خان کی آمریت میں ان صوبوں کی اندرونی آزادی بہت متاثر ہوئی، لیکن قومیت کی سیاست زیر زمین پختہ ہوتی رہی۔
پھر وہ وقت آیا کہ جب ایوب خان مردہ باد کے نعرے عوام میں مقبول ہوئے، جس کا آغاز 1967 کے اس انتخابات کے بعد ہوا جس میں جنرل ایوب خان نے 1962 کے اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات کروائے اور ان کے مدمقابل قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا۔ پورے ملک کی اکثریت نے فاطمہ جناح کو پسند کیا۔آمر ایوب خان کا نشان گلاب تھا، جب کہ محترمہ فاطمہ جناح کا نشان لالٹین تھا۔
اس وقت کے کٹر مذہبی رحجان رکھنے والے حضرات اور پختونوں کی اکثریت ایوب خان کو مرد ہونے کی وجہ سے پسند کرتی تھی، مگر اس انتخابات میں بہت دھاندلی ہوئی۔ ابھی ووٹنگ کی گنتی بھی نہ ہوئی تھی کہ ریڈیو سے ایوب خان کے حق میں نتائج کا اعلان ہونے لگا، جس کا پہلا اثر کراچی اور حیدرآباد میں ہوا، سخت عوامی احتجاج ہوا، اس وقت کے کراچی کے بعض طلبا رہنما جس میں علی مختار، رضوی ، شہنشاہ جعفری اور معراج محمد خان شامل تھے ان سمیت سیکڑوں طلبا و طالبات نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔
مگر انھوں نے عوام سے انتقام کے طور پر اپنے 1962 کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دینے کے بجائے جنرل آغا محمد یحییٰ کے سپرد کیا۔ انھوں نے عام انتخابات جو 1971 میں ہوئے جو پاکستان کی تاریخ کے غیر جانبدارانہ انتخابات تھے، کروانے کے لیے مرکز کو توڑ کر صوبوں کو آزاد کیا، وفاقی نظام کو صدارتی نظام سے پارلیمانی بنایا اور صرف الیکشن کے لیے عبوری آئین بنا۔ جیسے ہی صوبائی آزادی بحال ہوئی تمام قومیتوں کے رہنماؤں نے پاکستان کی حب الوطنی کو خیرباد کہا اور پھر ہر ایک نے اپنے اپنے صوبے کو لسانیت کی بنیاد پر علیحدہ ملک بنانے پر جدوجہد کی، جس کا ہوم ورک پہلے سے تھا۔
شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش، خان عبدالولی خان نے پختونستان، عطاء اﷲ مینگل نے گریٹر بلوچستان بنانا چاہا۔ حالات اس وقت کے جنرلوں کے ہاتھ سے نکل گئے ، کیونکہ جو عام انتخابات کا فریم ورک تھا اس کی بنیاد ایک قوم ایک ملک پر نہ تھی، بلکہ ہر صوبہ میں اکثریت پر تھی ۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی، بلوچستان میں بلوچ، سرحد میں پختونوں نے قومیت کی بنیاد پر ووٹ دیا، صرف سندھ میں جی ایم سید سندھودیش کی بنیاد پر ووٹ لینے میں اس لیے ناکام ہوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی سیاست نے انھیں ناکام کردیا۔
سب سے زیادہ اہم کام اہل پنجاب نے کیا کیونکہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے، اس لیے انھوں نے پنجاب میں لسانیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیے بلکہ اہل پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس لیے ووٹ دیا کہ وہ پاکستان کی سیاست کرتا تھا اور کشمیر کو واپس لینے کا اعلان کرچکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار پر جنرلوں نے بٹھایا تاکہ بقیہ پاکستان محفوظ رہے ورنہ عام انتخابات کے نتائج جو صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر تھے، اس میں پاکستان کو توڑنا بہت آسان تھا، جس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، اسی طرح بلوچستان اور پختونستان بھی علیحدہ ہوجاتے ، جس کے پیچھے ہندوستان اور دیگر عالمی قوتیں تھیں ۔
یہ پاک افواج کی عقلمندی تھی کہ انھوں نے مغربی پاکستان کی اس سیاسی جماعت کو اقتدار دیا جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ سے اکثریت حاصل کی اور دنیا نے دیکھا کہ اس وقت کے فوجی جنرلوں کا فیصلہ کتنا درست ثابت ہوا اور مغربی پاکستان ٹکڑے ہونے سے بچ گیا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست اب بھی صوبائی اور لسانی سیاست کے دائرے سے باہر نہیں آئی ۔ اے این پی پختونوںکی، سندھ کی قومی جماعتیں سندھیوں کی ، مسلم لیگ پنجابیوں کی ، ایم کیو ایم مہاجروں کی جماعت کے طور پر مقبول ہے، جب کہ پی پی پی جو وفاقی سیاست کرتی ہے، وہ بھی 2013 کے انتخابات میں اندرون سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ۔ ایک اچھی بات جو آج کل پی ٹی آئی نے کی کہ وہ لسانیت کے دائرے سے باہر رہ کر وفاق کی سیاست کرنا چاہتی ہے حالانکہ خیبر پختونخوا میں اس نے پختونوں اور طالبان کی بنیاد پر ووٹ لیے ہیں، اس لحاظ سے وہ بھی کسی حد تک لسانی صوبائی جماعت ہے ۔
اب پی ٹی آئی ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست کا انداز اختیار کر رہی ہے اور براہ راست عوام سے رابطے میں ہے ۔ پی ٹی آئی جس انتخابی بے ایمانی کا شور مچا رہی ہے وہ شور تو پی پی پی کو پنجاب میں مچانا تھا، سب سے زیادہ سازش کا وہ شکار ہوئی ۔ بڑی حیرت ہے جس پارٹی کے ایک چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ، دوسرے کو شہید کیا گیا، تیسرے آصف زرداری نے طویل جیل کی صعوبتیں برداشت کی ، آج وہ جماعت سمٹ کر سندھ تک محدود رہ گئی۔ صرف ایک وجہ ہے کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے انداز سیاست کو چھوڑ دیا۔ 2013 کے انتخابات میں کسی ایک جماعت کو تمام صوبوں میں حکومت نہ ملی ۔ سندھ میں پی پی پی ، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جب کہ بلوچستان میں آزاد امیدواروں کو اختیار و اقتدار ملا ۔ یہ کتنا اچھا موقع ہے کہ پی پی پی سندھ میں دیہی علاقوں کی نمائندہ اور ایم کیو ایم شہری علاقوں کی۔ مگر صورتحال بے یقینی کا شکار ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہ بیٹھ کر، درجہ دے کر حکومت سندھ میں برابری کی بنیاد پر حکمرانی کریں۔ کیونکہ عوام دیکھ رہے ہیں سندھ کے شہروں کے حالات بدترین ہو رہے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ۔ بجلی، پانی، گیس کی دستیابی نہیں ہے ، سندھ کے شہری تعلیم، صحت، تفریح سے محروم ہیں ۔ پورا شہر کراچی جس کو پیرس بنانے کا دعویٰ تھا وہ ٹنڈو محمد خان بن گیا ہے۔
جس شہر کو نماز فجر سے پہلے خاکروب صاف کردیتے تھے وہ شہر اب شام 4 بجے تک صاف نہیں ہوتا۔ یہاں کے عوام بسوں کے لیے ترس رہے ہیں، کئی کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد گھر پہنچتے ہیں ۔ سب سے بڑی زیادتی اس شہر کے ساتھ بیرون صوبہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کے ساتھ ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، اسکول، صحت کے مراکز کی قلت ہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی تمام صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا سے مالی امداد لے تاکہ ان کے صوبے کے رہنے والوں کی وجہ سے مسائل میں کمی ہو۔ شہر میں امن ہو۔ بھائی چارہ ہو۔
پھر وہ وقت آیا کہ جب ایوب خان مردہ باد کے نعرے عوام میں مقبول ہوئے، جس کا آغاز 1967 کے اس انتخابات کے بعد ہوا جس میں جنرل ایوب خان نے 1962 کے اپنے بنائے ہوئے قانون کے مطابق بنیادی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات کروائے اور ان کے مدمقابل قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا۔ پورے ملک کی اکثریت نے فاطمہ جناح کو پسند کیا۔آمر ایوب خان کا نشان گلاب تھا، جب کہ محترمہ فاطمہ جناح کا نشان لالٹین تھا۔
اس وقت کے کٹر مذہبی رحجان رکھنے والے حضرات اور پختونوں کی اکثریت ایوب خان کو مرد ہونے کی وجہ سے پسند کرتی تھی، مگر اس انتخابات میں بہت دھاندلی ہوئی۔ ابھی ووٹنگ کی گنتی بھی نہ ہوئی تھی کہ ریڈیو سے ایوب خان کے حق میں نتائج کا اعلان ہونے لگا، جس کا پہلا اثر کراچی اور حیدرآباد میں ہوا، سخت عوامی احتجاج ہوا، اس وقت کے کراچی کے بعض طلبا رہنما جس میں علی مختار، رضوی ، شہنشاہ جعفری اور معراج محمد خان شامل تھے ان سمیت سیکڑوں طلبا و طالبات نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج اتنا شدید تھا کہ ایوب خان کو استعفیٰ دینا پڑا۔
مگر انھوں نے عوام سے انتقام کے طور پر اپنے 1962 کے آئین سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دینے کے بجائے جنرل آغا محمد یحییٰ کے سپرد کیا۔ انھوں نے عام انتخابات جو 1971 میں ہوئے جو پاکستان کی تاریخ کے غیر جانبدارانہ انتخابات تھے، کروانے کے لیے مرکز کو توڑ کر صوبوں کو آزاد کیا، وفاقی نظام کو صدارتی نظام سے پارلیمانی بنایا اور صرف الیکشن کے لیے عبوری آئین بنا۔ جیسے ہی صوبائی آزادی بحال ہوئی تمام قومیتوں کے رہنماؤں نے پاکستان کی حب الوطنی کو خیرباد کہا اور پھر ہر ایک نے اپنے اپنے صوبے کو لسانیت کی بنیاد پر علیحدہ ملک بنانے پر جدوجہد کی، جس کا ہوم ورک پہلے سے تھا۔
شیخ مجیب الرحمٰن نے بنگلہ دیش، خان عبدالولی خان نے پختونستان، عطاء اﷲ مینگل نے گریٹر بلوچستان بنانا چاہا۔ حالات اس وقت کے جنرلوں کے ہاتھ سے نکل گئے ، کیونکہ جو عام انتخابات کا فریم ورک تھا اس کی بنیاد ایک قوم ایک ملک پر نہ تھی، بلکہ ہر صوبہ میں اکثریت پر تھی ۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی، بلوچستان میں بلوچ، سرحد میں پختونوں نے قومیت کی بنیاد پر ووٹ دیا، صرف سندھ میں جی ایم سید سندھودیش کی بنیاد پر ووٹ لینے میں اس لیے ناکام ہوئے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی سیاست نے انھیں ناکام کردیا۔
سب سے زیادہ اہم کام اہل پنجاب نے کیا کیونکہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے، اس لیے انھوں نے پنجاب میں لسانیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیے بلکہ اہل پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس لیے ووٹ دیا کہ وہ پاکستان کی سیاست کرتا تھا اور کشمیر کو واپس لینے کا اعلان کرچکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار پر جنرلوں نے بٹھایا تاکہ بقیہ پاکستان محفوظ رہے ورنہ عام انتخابات کے نتائج جو صوبائیت اور لسانیت کی بنیاد پر تھے، اس میں پاکستان کو توڑنا بہت آسان تھا، جس طرح مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا، اسی طرح بلوچستان اور پختونستان بھی علیحدہ ہوجاتے ، جس کے پیچھے ہندوستان اور دیگر عالمی قوتیں تھیں ۔
یہ پاک افواج کی عقلمندی تھی کہ انھوں نے مغربی پاکستان کی اس سیاسی جماعت کو اقتدار دیا جس نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور سندھ سے اکثریت حاصل کی اور دنیا نے دیکھا کہ اس وقت کے فوجی جنرلوں کا فیصلہ کتنا درست ثابت ہوا اور مغربی پاکستان ٹکڑے ہونے سے بچ گیا لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاست اب بھی صوبائی اور لسانی سیاست کے دائرے سے باہر نہیں آئی ۔ اے این پی پختونوںکی، سندھ کی قومی جماعتیں سندھیوں کی ، مسلم لیگ پنجابیوں کی ، ایم کیو ایم مہاجروں کی جماعت کے طور پر مقبول ہے، جب کہ پی پی پی جو وفاقی سیاست کرتی ہے، وہ بھی 2013 کے انتخابات میں اندرون سندھ کی جماعت بن کر رہ گئی ۔ ایک اچھی بات جو آج کل پی ٹی آئی نے کی کہ وہ لسانیت کے دائرے سے باہر رہ کر وفاق کی سیاست کرنا چاہتی ہے حالانکہ خیبر پختونخوا میں اس نے پختونوں اور طالبان کی بنیاد پر ووٹ لیے ہیں، اس لحاظ سے وہ بھی کسی حد تک لسانی صوبائی جماعت ہے ۔
اب پی ٹی آئی ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی سیاست کا انداز اختیار کر رہی ہے اور براہ راست عوام سے رابطے میں ہے ۔ پی ٹی آئی جس انتخابی بے ایمانی کا شور مچا رہی ہے وہ شور تو پی پی پی کو پنجاب میں مچانا تھا، سب سے زیادہ سازش کا وہ شکار ہوئی ۔ بڑی حیرت ہے جس پارٹی کے ایک چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی ، دوسرے کو شہید کیا گیا، تیسرے آصف زرداری نے طویل جیل کی صعوبتیں برداشت کی ، آج وہ جماعت سمٹ کر سندھ تک محدود رہ گئی۔ صرف ایک وجہ ہے کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے انداز سیاست کو چھوڑ دیا۔ 2013 کے انتخابات میں کسی ایک جماعت کو تمام صوبوں میں حکومت نہ ملی ۔ سندھ میں پی پی پی ، پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی جب کہ بلوچستان میں آزاد امیدواروں کو اختیار و اقتدار ملا ۔ یہ کتنا اچھا موقع ہے کہ پی پی پی سندھ میں دیہی علاقوں کی نمائندہ اور ایم کیو ایم شہری علاقوں کی۔ مگر صورتحال بے یقینی کا شکار ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ دونوں جماعتوں کے سربراہ بیٹھ کر، درجہ دے کر حکومت سندھ میں برابری کی بنیاد پر حکمرانی کریں۔ کیونکہ عوام دیکھ رہے ہیں سندھ کے شہروں کے حالات بدترین ہو رہے ہیں، انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ۔ بجلی، پانی، گیس کی دستیابی نہیں ہے ، سندھ کے شہری تعلیم، صحت، تفریح سے محروم ہیں ۔ پورا شہر کراچی جس کو پیرس بنانے کا دعویٰ تھا وہ ٹنڈو محمد خان بن گیا ہے۔
جس شہر کو نماز فجر سے پہلے خاکروب صاف کردیتے تھے وہ شہر اب شام 4 بجے تک صاف نہیں ہوتا۔ یہاں کے عوام بسوں کے لیے ترس رہے ہیں، کئی کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد گھر پہنچتے ہیں ۔ سب سے بڑی زیادتی اس شہر کے ساتھ بیرون صوبہ سے ہجرت کرکے آنے والوں کے ساتھ ہورہی ہے، جس کی وجہ سے پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، اسکول، صحت کے مراکز کی قلت ہے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی تمام صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا سے مالی امداد لے تاکہ ان کے صوبے کے رہنے والوں کی وجہ سے مسائل میں کمی ہو۔ شہر میں امن ہو۔ بھائی چارہ ہو۔