دھرنے والوں کو عید مبارک
بکرے کے مضمون کا سہرا آجکل کے کالم نویسوں کے سر بندھنا چاہیے۔
بقر عید خوب تیوہار ہے۔ اس کی ساری تان بکروں پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ قربانی والے جانور تو اور بھی ہیں۔ مینڈھے' دنبے ہیں' گائے ہے' اونٹ ہے۔ وہ سب اپنی اپنی جگہ خوب اور مرغوب ہیں۔ قربانی کا فریضہ ادا کرنے والے ان کی طرف بھی توجہ کرتے تو ہیں۔ لیکن ہر پھر کر سب بکروں ہی پر آ جاتے ہیں۔ بکرے برحق۔ ان کی قربانی برحق۔ بچوں کی بکروں سے دلچسپی بھی برحق۔ لیجیے بچوں کا حوالہ آ ہی گیا ہے تو یہ سن لیجیے کہ جب بکرے کے سوا کسی دوسرے جانور کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے تو بچے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کے لیے بقر عید کی خوشی صرف بکروں کی حد تک ہوتی ہے۔
بچے اور کالم نگار دونوں کا مرغوب موضوع یہی بکرا ہے۔ سال کے سال ہم دیکھتے ہیں کہ بچے قربانی کے بکرے کو دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور اخباروں کے صفحات میں کالم نگاروں کا قلم بکروں پر کس طرح رواں ہوتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ جب بچے اور کالم نگار بکروں میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں تو شاعروں نے بھی بکروں کے مضمون کو رنگ رنگ سے باندھا ہو گا۔ ہم نے کتنے شاعروں کے دیوان الٹ پلٹ کر دیکھے مگر ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بکرے تو کیا وہ تو بقر عید کو بھی ایسا تیوہار نہیں سمجھتے کہ اس پر خامہ فرسائی کی جائے۔ اور نظیر نے جسے تیوہاروں اور میلوں ٹھیلوں سے بہت دلچسپی ہے اس نے بقر عید کا عجب انداز سے ذکر کیا ہے۔ عید پر لکھتے ہوئے کہا ہے کہ ؎
ایسی نہ شب برات نہ بقرید کی خوشی
جیسی ہر ایک دل میں اس عید کی خوشی
مطلب یہ کہ عیدوں میں عید تو بس میٹھی عید ہے یا کہہ لیجیے کہ عیدالفطر۔ بقر عید کہاں کی ایسی عید ہے۔
ہر پھر کر ایک میرزا سودا ہیں جنہوں نے عید قربان کو بھی عیدوں میں شمار کیا ہے مگر بکرے سے وہ بھی کنی کاٹ کر نکل گئے ہیں۔ اس عید کا بیان انھوں نے اس طرح کیا ہے ؎
جہاں میں شادی عیدالاضحی ہے آج کے روز
خوشی دلوں میں ہے لب ریز قاف سے تاقاف
طواف کعبہ کا ہے فرض اہل ایماں کو
مگر جیسے نہ ہو مقدور تو اسے ہے معاف
سو اس طرح سے مقرر کیا ہے میں کہ لباس
پہن کے وہ جو ہو آلودگی سے پاک اور صاف
کروں عددو کو ترے ذبح شکل قربانی
پھروں میں گرد ترے بس مرا یہی ہے طواف
لیجیے اگلے برس کی عید قرباں کا بیان بھی سن لیجیے؎
خوشی جہاں میں ہے عیدالاضحیٰ کی آج کے روز
رب ہے سینوں میں لبریز' دل میں شاداں شاد
اس سے بڑھ کر اس عید کا بیان یہ ہے؎
جہاں میں زیر فلک آج عید قرباں ہے
ہر ایک خرم و مسرور شادو خنداں ہے
یہ جتنے ہیں کہ ومہ ان کا دہرمیں محسن
زبان و دست قلم سے حسن رضا خاں ہے
ارے یہ تو سب کے سب قصیدے ہیں۔ ہر عید قرباں ممدوح حسن رضا خاں کے حضور قربان جاؤں والی عید قربان ہے۔
ایسے سب قصیدوں پر انشاء اللہ خاں کا بس ایک شعر بھاری ہے ؎
یہ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
یعنی عید قرباں سے اگر کسی شاعر نے واقعی کوئی مضمون نکالا ہے تو وہ انشاء اللہ خاں ہیں مگر عجب ہے کہ بکرے کی طرف انشا کا دھیان ہی نہیں گیا۔ بکرے کے مضمون کا سہرا آجکل کے کالم نویسوں کے سر بندھنا چاہیے۔ خیر بکروں کے لیے تو یہ عید یوم غم ہے۔ عید ان بچوں کے لیے ہے جو دلہا بننے والے بکروں کو دیکھ کر تالیاں بجاتے ہیں۔
بکروں کا معاملہ عجیب ہے۔ ہر برس یہی سننے میں آتا ہے کہ بکروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اہل ایمان آتے ہیں' شوق سے بکروں کو دیکھتے ہیں مگر قیمت سن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور اپنی جیب کو سنبھال کر بکرا بازار سے کھسک جاتے ہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ آخری دن جب قیمتیں اس طرح چڑھی نظر آتی ہیں تو اہل ایمان کو کوئی راہ فرار دکھائی نہیں دیتی۔ کب کب کی کمائی اکٹھی کر کے بکرے پر قربان کر دیتے ہیں اور بہر حال قربانی کے فریضہ سے عہدہ برا ہوتے ہیں۔ اس سال بھی یہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آخر میں تو جیت بکرے والوں ہی کی ہوتی ہے۔ جیب بہر حال قربانی کا فریضہ ادا کرنے والوں کی کٹتی ہے۔ عید بکرا فروشوں کی ہوتی ہے۔
ہاں اس برس عید قرباں ان سرفروشوں کے لیے سچی خوشی لے کر آئی ہے جو اپنی زندگی کی ساری خوشیاں قربان کر کے دھرنے میں شریک ہوئے تھے۔ اوراب جب کہ دھرنوں کا اچھا خاصا دھڑن تختہ ہو چکا ہے وہ بدستور دھرنے کے نام پر بندھے بیٹھے تھے۔ نہ جائے ماند شانہ پائے رفتن۔ دھرنے میں اب کیا دہرا رہ گیا تھا۔ سمجھ لو کہ ع
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
اس کے باوجود رہائی نہیں مل رہی تھی۔ مگر کیسے موقعہ سے عید قرباں آئی۔ اب یاروں کو یاد آیا کہ گھروں سے نکلے ہوئے کتنے دن ہو گئے ہیں۔ عید قرباں سر پر کھڑی ہے۔ عید تو گھر ہی میں بھلی لگتی ہے۔ پہلے تو دھرنے کے منتظمین نے بہت ہچر مچر کی۔ لیکن اللہ میاں نے علامہ طاہر القادری کے دل میں نیکی ڈالی۔ انھوں نے اپنے اسیران دھرنا پر ترس کھایا اور اعلان کیا کہ عید کی خوشی میں دھرنے کی چھٹی ہے۔ اسے میرے دھرنے کے اسیرو' تمہارے جذبہ قربانی پر قربان جاؤں۔ شوق سے گھروں کو جاؤ اورعید مناؤ۔
بس دھرنے والوں کے سوکھے دھانوں پر چھینٹا پڑ گیا اور وہ تازہ دم اٹھ کھڑے ہوئے۔ چلے لپک بھپک اپنے گھروں کی طرف۔
ویسے اس بزرگ کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اگرچہ دیر سے آئی کہ دھرنے میں اب کیا دھرا ہے۔ سو اس کے ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ اب ہم محرم کے بعد جلسہ کریں گے۔ یعنی دھرنے سے جو چھٹی ملی ہے اس کی میعاد عاشورہ محرم تک تو ویسے ہی پہنچ گئی۔ عاشورہ کے بعد واپسی۔ خیر وہ تب کی بات ہے تب دیکھیں گے؎
اب تو جاتے ہیں میکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا