محنت کشوں کی موجودہ صورتحال
پاکستان میں محنت کشوں کے مسائل حل نہ ہونے کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت اس طبقے کے مسائل کو حل کرنے میں۔۔۔
اقبال نے کہا تھا کہ ''ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات''۔ وطن عزیز میں محنت کشوں کے حالات زندگی اس مصرعے کی کھلی تفسیر ہیں۔ پاکستان میں جہاں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران زندگی کے دیگر شعبہ جات میں تنزل آیا ہے، وہیں محنت کشوں کے معاملات زندگی بھی مزید ابتر ہوئے ہیں۔ ایک محتاط تخمینے کے مطابق پاکستان کی آبادی 18 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے۔ اس میں سے 6 کروڑ کے قریب محنت کش (Workforce) افرادی قوت ہے، جو کل آبادی کا ایک تہائی کے قریب ہے۔
ملک کی ایک تہائی آبادی بدترین شب و روز سے دوچار ہے۔ اس کی حالت زار بدلنے کرنے کے دعوے تو بہت کیے جاتے ہیں، مگر عملاً کوئی بھی حکومت (نمایندہ اور غیر نمایندہ دونوں) اقتدار میں آنے کے بعد ان مسائل پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتی۔ محنت کشوں کی مختلف تنظیمیں اور تحقیقی ادارے محنت کشوں کو درپیش مسائل پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے حکمرانوں نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے۔ لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ سماجی تنظیمیں حکمرانوں کے اس رویے سے بددل ہونے کے بجائے اپنے کام کو زیادہ فعالیت اور دلجمعی سے سرانجام دے رہی ہیں۔
اس سلسلے کی ایک اہم کڑی گزشتہ ہفتے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائلر) کی جانب سے منعقد کی جانے والی سہ روزہ سندھ لیبر کانفرنس تھی۔ جس میں سندھ کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے مزدور رہنمائوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمایندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ گو موضوعات کا تنوع تھا، لیکن تمام ہی موضوعات کا مرتکز محنت کشوں کودرپیش مسائل تھے۔ ان میں معیشت اور محنت، مزدور قوانین، غیر رسمی شعبہ کی حالت زار، زراعت اور مزدور حقوق، لیبر ویلفیئر اور ریاستی ادارے، صحت و سلامتی کے مسائل، عالمی/علاقائی تجارت اور محنت کش، نجکاری اور مزدور تحریک کے لیے لائحہ عمل شامل تھے۔
ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوئی لیکن ڈاکٹر قیصر بنگالی نے نجکاری پر، ڈاکٹر حفیظ پاشا نے عالمی/ علاقائی تجارت اور محنت کش اور زینیہ شوکت نے سماجی تحفظ کے موضوع پر انتہائی فکر انگیز مقالے پیش کیے۔ کانفرنس کے آخری روز کے آخری سیشن میں بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ خصوصی طور پر شریک ہوئے اور انھوں نے اکتوبر کے آخری ہفتے میں بلوچستان میں سہ فریقی لیبر کانفرنس کی میزبانی کا اعلان کیا۔
پاکستان میں محنت کشوں اور عوام کے زدپذیر طبقات کے مسائل حل نہ ہونے کی کئی اسباب ہیں۔ لیکن سب سے اہم سبب یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ان طبقات کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پائلر جیسی تنظیمیں جن مسائل و معاملات کی نشاندہی کرتی ہیں، حکومت ان پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ دینے کی کوشش نہیں کرتی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے پرویز مشرف کی ابتدائی کابینہ میں عمر اصغر خان مرحوم وفاقی وزیر محنت تھے، انھوں نے پائلر کی جانب سے پیش کردہ ''سوشل سیکیورٹی سب کے لیے'' کو ریاستی پالیسی بنانے کی سرتوڑ کوشش کی لیکن ان کے وزارت سے الگ ہوتے ہی یہ تجویز سرد خانے کی نذر ہوگئی۔ اس وقت سوشل سیکیورٹی اور EOBI میں صرف 6 لاکھ محنت کش رجسٹر ہیں، جو محنت کش افرادی قوت کا ایک فیصد ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ لیکن کسی بھی سیاسی جماعت کے منشور میں اس اہم مسئلے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اس کانفرنس میں ڈاکٹر پرویز طاہر نے اپنے مقالے میں بتایا کہ حکومتیں یہ تاثر دیتی ہیں کہ نجکاری سے قومی ادارے منفعت بخش ہوجاتے ہیں، جب کہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ اب تک جن صنعتی یونٹوں کی نجکاری ہوئی ہے، وہاں کئی نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اول، مزدوروں کی چھانٹی کی صورت میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ دوئم، بیشتر خریداروں نے ان اداروں کو مزید فروخت کردیا اور ان میں سے بیشتر کی زمینیں رہائشی منصوبوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ ایک مثال کراچی کی سیمنٹ فیکٹریوں کی ہے، جن کی زمین رہائشی منصوبوں کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔
سوئم، حکمرانوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ صنعتیں اور تجارتی ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں ہے، جب کہ ایک سرکاری کمپنی ایک غیر ملک کی سرکاری کمپنی کو فروخت کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر ممالک کی حکومتیں یہ صلاحیت رکھتی ہیں، صرف حکومت پاکستان پبلک سیکٹر ادارے چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ ایک اور مسئلہ جس کی وجہ سے محنت کشوں کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے، وہ ٹیکس کا موجودہ نظام ہے۔ چونکہ براہ راست ٹیکس کا Net بہت مختصر ہے، اس لیے عوام پر Indirect Taxes کا بوجھ بڑھ گیا ہے، خاص طور پر سیلز ٹیکس کی وجہ سے اشیائے صرف عام آدمی کی دسترس سے باہر ہوچکی ہیں۔
زینیہ شوکت نے اپنے مقالے میں بتایا کہ پاکستان کی آبادی 181.7 ملین کے قریب ہے، جب کہ محنت کش افرادی قوت 59.74 ملین ہے۔ اس میں سے صرف 56 ملین باروزگار ہے، جب کہ 3.73 ملین محنت کش بے روزگار ہیں۔ ان کے مقالے کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ پاکستان میں زرعی اور صنعتی شعبے کا GDP میں مجموعی حصہ 42.6 فیصد ہے، جب کہ سروس سیکٹر میں یہ حصہ 57.4 فیصد تک جا پہنچا ہے۔
جہاں تک روزگار کا تعلق ہے تو 43 فیصد افرادی قوت زرعی سیکٹر سے اور 14 فیصد صنعتی شعبے سے وابستہ ہے۔ جس کی وجہ سے بیروزگاری میں تیز رفتار اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی پریزنٹیشن کے مطابق شہری اور نیم شہری افرادی قوت کا 73 فیصد غیر رسمی سیکٹر سے وابستہ ہے، جسے سوشل سیکیورٹی اور بڑھاپے کی پنشن کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو دس برس بعد EOBI کا ادارہ بند ہوسکتا ہے، جو محنت کشوں کی ایک قلیل تعداد کے بڑھاپے کا کسی حد تک سہارا بنا ہوا ہے۔
خواتین کارکنوں کو صنعتی اداروں میں کسی قسم کی سہولیات مہیا نہیں ہیں۔ نہ ان کے لیے علیحدہ بیت الخلا قائم کیے گئے ہیں اور انھیں کسی قسم کی طبی سہولیات تک رسائی حاصل ہے۔ چونکہ بیشتر خواتین ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کرتی ہیں، اس لیے انھیں میٹرنٹی چھٹی کی بھی کوئی سہولت نہیں ہے۔ خواتین کارکنوں کے اوقات کار بھی اکثر صنعتی یونٹوں میں خاصے غیر مناسب ہیں اور وہ رات گئے گھر پہنچتی ہیں، جو ان کے لیے پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی معمول بن چکا ہے۔ جس کی وجہ سے غریب اور نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے معاشی سرگرمیوں میں شرکت ایک بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ حکومت کا بنیادی کام قومی آمدنی میں اضافے کے لیے مختلف پالیسیوں کی تشکیل ہوتا ہے۔ لیکن ہماری حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے سبب زرمبادلہ میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ حکومتوں کا بیرونی امداد اور قرضوں کے علاوہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے Remittence پر زیادہ انحصار ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی کے بحران پر قابو پانے اور صنعتی ترقی کے لیے کوئی تیز رفتار مکینزم بنانے کے بجائے حکومتیں فروعیات میں الجھی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوپا رہی اور روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے اور بے روزگاری اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یوم مئی ہمارے ملک میں مزدور یکجہتی کی علامت بننے کے بجائے ان میں موجود انتشار کو مزید اجاگر کردیتا ہے۔ جب تک محنت کش اپنے جائز حقوق کے لیے منظم نہیں ہوتے، سیاسی جماعتیں ان کے مسائل کو اپنے منشور کا حصہ نہیں بناتیں اور حکومتیں ہر شعبہ میں تنظیم سازی اور اجتماعی سودا کاری کے تصور کو تسلیم نہیںکرتیں، محنت کشوں کے مسائل کے حل کے امکانات معدوم ہی رہیں گے۔
اس کانفرنس کے اختتام پر جو قراردادیں منظور کی گئیں، ان میں سوشل سیکیورٹی کے نظام کو پورے ملک میں متعارف کرانے، بیروزگاری الائونس کا فوری اجرا، مزدور قوانین کی Universalisation اور ان پر عملدرآمد کا میکنزم بنانا، غیر رسمی سیکٹر کے محنت کشوں کو سوشل سیکیورٹی، EOBI جیسے اداروں میں رجسٹر کرنے جیسے مطالبات شامل کیے گئے ہیں۔ اگر ایسی کانفرنسیں ملک کے دیگر صوبوں میں منعقد ہوں اور حکومت پر مسلسل دبائو ڈالا جائے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ملک کے محنت کش، غریب اور زد پذیر طبقات کی زندگیوں میں شاید کچھ بہتری آسکے۔