عید کا دن ہے

کیا اس میں کوئی شک ہے کہ کسی معاشرے میں بھی محبت کا مکتب نہیں ہوتا۔

umerkazi555@yahoo.com

لاہور:
وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ اب تو وہ دن اڑ جانے والی فاختہ بن گئے ہیں۔ مگر یاد آتے ہیں اب بھی وہ دن جب محبت ہاتھوں سے نہیں بلکہ آنکھوں سے کی جاتی تھی۔ اب اگر کوئی نوجوان انڈیا کا یہ گیت سنتا ہے تو اس کو ہنسی آجاتی ہے کہ:

آنکھوں کی گستاخیاں معاف ہوں

اب اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ گائے:

ہاتھوں کی گستاخیاں معاف ہوں

کیوں کہ اب بات آنکھوں سے بڑھ کر ہاتھوں پر پہنچی ہے۔ اگر ستاروں سے آگے اور جہاں ہو سکتے ہیں تو گستاخی کا سفر صرف آنکھوں سے ہاتھوں تک محدود کیوں رہے؟

یہ آزادی کا دور ہے، اس میں کھل کے ہنسنے کی باتیں، دل لگانے کی باتیں عام باتیں ہوچکی ہیں۔ مگر ہم اب تک ٹھنڈی سانس کے ساتھ ان دنوں کو یاد کرتے ہیں جب نوجوان لڑکے خود کو سلمان خان نہیں بلکہ ندیم سمجھا کرتے تھے اور شوخ طبع لڑکی بھی شبنم کی طرح شرمانے کی کوشش کیا کرتی تھی۔

کیا اس میں کوئی شک ہے کہ کسی معاشرے میں بھی محبت کا مکتب نہیں ہوتا۔ یہ عشق کا امتحان انسان کو فلموں کی کاپی کرکے پاس کرتا ہے۔ کیوں کہ ہر نوجوان لڑکا ہیروئن کے خواب دیکھتا ہے اور ہر نوجوان لڑکی ہیرو کے! خواب اب بھی ہیں مگر انھیں دیکھنے کا انداز تبدیل ہوگیا ہے۔ اب ہماری نسل نو کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتی ہے اور ان خوابوں کو وہیں پر تعبیروں میں ڈھالنے پر بضد بن جاتا ہے۔ جب کہ اگلے وقتوں میں انتظار کی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا۔

اِس دور میں تو موبائل فون نے بہت سارے کام آسان کردیے ہیں مگر اُس دور میں کبوتر سے لے کر عشق میں آسانیاں پیدا کرنے والی آنٹی تک نہ معلوم کس کس کے نخرے اٹھانا پڑتے تھے۔ اب تو دیدار یار کا مسئلہ اسمارٹ فون سے حل ہوجاتا ہے۔ ہم تو گھونگھٹ کے پٹ کھلنے کے لیے صبح کو دوپہر میں تبدیل ہوتے دیکھتے تھے۔ اب بات آگے بڑھ گئی ہے۔ مگر کیا یہ آگے بڑھی ہوئی بات بے ذائقہ نہیں ہوگئی؟ یا یہ بات ہم حسد کے احساس کے ساتھ کر رہے ہیں؟

آزادی کا ایک حسن ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی بہت خوبصورت ہوا کرتی ہے اور اگر وہ آزدی عشق کی ہو تو بات ہی کیا ہے! لیکن آزادی میں جنم لینے والے پابندی والے پیار کا مزہ محسوس ہی نہیں کرسکتے۔

آج جب میں ''ایکسپریس'' کے لیے عید کے حوالے سے کالم لکھ رہا ہوں تو مجھے یاد آرہی وہ پاکستانی فلم جس کا یہ گانا بہت مقبول ہوا تھا، اس گانے میں مہدی حسن کے گائے ہوئے گیت پر ہونٹ ہلاتے ہوئے اداکار ندیم فلم اسٹار شبنم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے کہ:

عید کا دن ہے

گلے ہم کو لگا کر ملیے

مگر اس گیت سے قبل ان دونوں میں جو گفتگو ہوتی ہے اس کی ایک جھلک پیش کرنے کو جی کر رہا ہے۔ وہ جھلک جس کو دیکھ اور سن کر ہم جذباتی ہوجاتے تھے مگر اب ہم، ہمارے بچے اس گفتگو کو سن کر اپنی ہنسی نہیں روک پاتے۔ کیوں کہ محبت کا یہ انداز انھیں بہت عجیب لگتا ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ کیا محبت اس طرح ہوتی ہے؟ اب تو محبت کا اعلان لائیو نشریات میں کیا جاتا ہے۔ مگر کل یہ اظہار کمرے میں بھی کانپتے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ کرتے ہوئے نوجوانوں کی جان نکلتی تھی۔

مجھے اب بھی یاد ہیں اداکارہ شبنم کے وہ کانپتے ہوئے ہونٹ جو مزید کانپے تھے اس وقت، جب اداکار ندیم نے آنکھوں کی زبانی ان سے کچھ کہا تھا۔ جی ہاں! وہ اسی طرح کا عید کا دن تھا۔ جب اداکار ندیم شبنم سے ملنے آتے ہیں۔ سفید شیروانی میں ملبوس ہیرو جب ہیروئن کے گھر آتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ہیروئن نے سرخ ساڑھی پہنی ہوئی ہے اور ساڑھی کا پلو اس کے سر پر پڑا ہے۔ ہیرو اپنی ہیروئن کو ایڑی سے چوٹی تک گھور کر دیکھتا ہے تو ہیروئن شرمانے کے ساتھ ساتھ گھبرا بھی جاتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ:

''اس طرح کیا دیکھ رہے ہیں؟''اور پھر سانس لے کر پوچھتی ہے ''کیا اس سے پہلے آپ نے کبھی نہیں دیکھا؟''

اس سوال پر ہیرو جواب دیتا ہے کہ ''دیکھا تھا مگر دلہن بنے ہوئے نہیں'' یہ جواب سن کر ہیروئن کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس کے گالوں پر حیا کی سرخی آجاتی ہے۔ اس کی یہ حالت دیکھ ہیرو فوری طور پر موضوع کو تبدیل کرتے ہوئے ہیروئن سے پوچھتا ہے کہ ''امی کہاں ہیں'' ہیروئن ذرا اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہتی ہے کہ ''عید ملنے گئی ہے'' اور گھر آئے مہمان سے وضع داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتی ہے ''بیٹھیے۔ شیر خورمہ کھائیے'' ہیرو جواب دیتا ہے ''نہیں'' ہیروئن سمجھ جاتی ہے اور مسکرا کر پوچھتی ہے ''کیوں؟'' ہیرو جواب دیتا ہے کہ ''میں یہاں شیر خورمہ کھانے نہیں آیا'' اور پھر ذرا قریب آکر کہتا ہے کہ ''عید ملنے آیا ہوں'' ہیروئن اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہتی کہ ''ذرا ہوش میں رہیے'' ہیرو کو اسی جواب کا انتظار تھا، اس لیے وہ کہتا ہے کہ ''آپ کو اس حال میں دیکھ کر ہوش میں رہنا مشکل ہے'' ہیروئن ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہتی ہے ''دور سے بات کیجیے، دور سے''


ہیرو اپنے آپ کو ذرا بے قابو ظاہر کرتے ہوئے ہیروئن کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ ''ساری دنیا عید مل رہی ہے اور کل تم نے خود ہی تو کہا تھا...'' اور اس کے بعد ہیرو اپنی ہیروئن کا بازو تھامنے کی کوشش کرتا تو ہیروئن لہرا کر دور چلی جاتی ہے اورٹھیک اس وقت وہ گانا شروع ہوجاتا ہے کہ:

عید کا دن ہے

گلے ہم کو لگا کر ملیے

رسم دنیا بھی ہے، موقع بھی ہے

دستور بھی ہے

یہ گیت کبھی ہمارے دل کی دھڑکن ہوا کرتا تھا۔ اس گیت کو ہم عید کے سارے دنوں کے دوران بار بار سنا کرتے تھے اور جب کوئی خوبصورت سا مہمان ہمارے گھر آیا کرتا تھا تو ہم ٹیپ کی آواز بڑھا دیا کرتے اور خوبصورت مہمان کو یہ بول سنایا کرتے تھے کہ:

عید ملنے کے لیے

سامنے آنا ہوگا

شرم کے سارے اصولوں کو

بھلانا ہوگا

پیار کا رکھیے بھرم

دل پہ کیجیے نہ ستم

کم سے کم آج کے دن

آنکھ ملا کر ملیے

اس گیت کے دوران جو ہیروئن اداکاری کرتی ہے وہ کمال کی ہے۔ کیوں کہ اس میں آرزو بھی ہے اور حجاب بھی۔ اس میں دعوت محبت بھی ہے اور دور رہنے کی تلقین بھی۔

محبت کا یہ انداز پرانا ہے۔ اب محبت ایسے نہیں کی جاتی۔ اب ایسی محبت صرف ہنسنے اور ہنسانے کے لیے دکھائی جاتی ہے۔ مگر ہم اپنے دور جوانی میں اس قسم کی محبت کو بہت بڑی بغاوت سمجھا کرتے تھے۔ مگر اب دور تبدیل ہوگیا ہے۔ ہم بھی ندیم اور شبنم کے عشق کو دقیانوسی دور کی علامت سمجھتے ہیں۔ دل میں ایک احساس کسک کی طرح کروٹ لیتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے شرمیلے سے عشق میں جو حسن تھا، جو کشش تھی، وہ اس بے باک دور میں نظر نہیں آتا اور آئے گا بھی نہیں۔ پرانا عاشق پردہ داری کے دور کو یاد کرتے ہوئے ایک عدد ٹھنڈی سانس ضرور بھرے گا۔ عید کے دن۔
Load Next Story