صوبے کا بٹوارا
سندھی اپنے صوبے کی تقسیم کے خلاف کیوں ہیں؟ اس لیے کہ کراچی میں سندھی بولنے والوں کی اکثریت نہیں۔
سندھ کو تقسیم ہونا چاہیے یا نہیں؟ انتظامی یونٹ کا مطلب صوبے کا بٹوارا ہے؟ پنجاب کو تین حصوں میں بانٹنے کی قرارداد اور ہزارہ صوبے کی مانگ کو کیا سمجھا جائے؟ بلوچستان میں دو زبان بولنے والے ایک حل پر بڑی حد تک متفق ہیں۔ سب سے نازک معاملہ سندھ کا ہے۔
الطاف حسین نے صوبے کو یکجا رکھ کر جنوبی و شمالی اور مشرقی و غربی سندھ کی بات کی ہے۔ جب الگ ہونے کی بات کردی جائے اور ذہنوں میں تقسیم کا خاکہ آجائے تو بٹوارے کا خطرہ ہر دم رہتا ہے۔ اس معاملے کو دانشمندی سے نمٹانے کے لیے لازمی ہے کہ پرانے سندھیوں کی جذباتی کیفیت کو سمجھا جائے، دوسرے مرحلے پر کراچی کے رہنے والوں کے مسئلے کو جانا جائے۔ کیفیت اور مسئلے کی تہہ تک پہنچ کر ہی ہم حل کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔
1947 میں پنجاب و بنگال کا بٹوارا ہوا تو یہ صوبے دونوں ملکوں کو ملے۔ بلوچستان ہمارا یونٹ ہے تو ایران کے پاس بھی بلوچ علاقہ ہے۔ خیبرپختونخوا ہمارا ایک صوبہ ہے تو ان کی ہی زبان بولنے والا افغانستان ایک ملک ہے۔ تقسیم کے وقت سندھ میں چالیس فیصد کے لگ بھگ ہندو تھے۔ بھارت کی سرحد کے قریب بڑی تعداد میں نہ ہونے کے سبب یہ صوبہ تقسیم سے بچ گیا۔ اس صورتحال نے سندھ کی سرحدوں کو تقدیس کی سی کیفیت عطا کردی۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ بھی ہے۔
سندھی اپنے صوبے کی تقسیم کے خلاف کیوں ہیں؟ اس لیے کہ کراچی میں سندھی بولنے والوں کی اکثریت نہیں۔ یہ شہر پاکستان کو ستر اور صوبے کو نوے فیصد سے زیادہ کما کر دیتا ہے۔ سندھ کی تقسیم کا مطلب پرانے سندھیوں کا معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر سو سال پیچھے چلے جانا ہے۔ کراچی سے دست برداری وہ نازک معاملہ ہے جس کے لیے سندھی تیار نہیں۔ یہ کیفیت دیگر صوبوں میں نہیں۔ آئیے ایک ایک کرکے تینوں صوبوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
پنجاب کا دارالخلافہ لاہور ایک اہم اور تاریخی شہر ہے۔ اہم شہر تو راولپنڈی بھی ہے اور تاریخی حیثیت تو ملتان کی بھی ہے۔ لاہور میں بڑی صنعتیں ہیں تو فیصل آباد کیا کسی سے کم ہے؟ رحیم یار خان، ساہیوال، سیالکوٹ اور گوجرانوالہ بھی ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ کراچی اتنا بڑا بین الاقوامی شہر اور پورٹ سٹی ہے کہ اگر اس سے باقی سندھ کو جدا کردیا جائے تو صوبہ صرف دیہی علاقے پر مشتمل قرار پاتا ہے۔
صوبے کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد بھی کراچی سے بہت پیچھے ہے۔ پشاور بڑا شہر ہے تو ایبٹ آباد اور سوات بھی کم اہم نہیں۔ مقابلے میں بلوچستان کے دوسرے شہروں میں زمین و آسمان کے فرق کی بات نہیں کی جاسکتی۔ یہ ہے بڑا مسئلہ جو سندھ کی انتظامی تقسیم کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس طرح پاکستان میں مزید صوبے بنانے کی تحریک یہاں پہنچ کر دم توڑ دیتی ہے۔
کراچی کی آبادی قیام پاکستان کے وقت چار چھ لاکھ تھی۔ سن ستر میں پچاس لاکھ اور صدی کے اختتام سے پہلے ہی کروڑوں میں ہوگئی۔ ہر کوئی کراچی کا دعوے دار بنتا ہے اور ٹھیک ہی بنتا ہے۔ اردو بولنے والوں کے علاوہ میمن، گجراتی و بوہری ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے یہاں آئے۔ پنجابی آباد کار اور ہنرمند سندھ میں بسنے کی تاریخ ایک صدی قبل کی بیان کرتے ہیں۔ کئی ملین پنجابی شہر کراچی کے باسی ہیں۔ پشاور اور کابل سے زیادہ پختون شہر قائد میں آباد ہیں۔
یہ دنیا بھر میں پٹھانوں کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اسلامی تنظیمیں اسے عالم اسلام کا سب سے بڑا شہر قرار دیتی ہیں۔ سندھی بولنے والے اپنے آپ کو صدیوں سے نہیں بلکہ ہزاروں برسوں سے تہذیب کا وارث قرار دیتے ہیں۔ سندھ کی تقسیم یا انتظامی یونٹ میں بانٹنے کا مسئلہ کراچی کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے۔ سندھی بولنے والے اس شہر کے اکثریتی کبھی نہیں رہے۔ ہندوؤں کی یہاں سے روانگی کے بدلے میں بھارت کے مختلف علاقوں سے لاکھوں لوگ ہجرت کرکے اس شہر کے باسی بن گئے۔
بہتر معاش کی خاطر پختون و پنجابی بھی یہاں آئے۔ ان کے اپنے صوبے ہیں اور وہ سندھ کے بٹوارے کے خلاف ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ کو یکجا رکھ کر صوبے کو انتظامی یونٹس میں تقسیم کی بات کرتی ہے۔ سندھی اسے بھی صوبے کے بٹوارے کی جانب ایک قدم سمجھتے ہیں۔ وہ اسے کراچی سے محرومی سے تعبیر کرتے ہیں۔ پرانے سندھیوں کی جذباتی کیفیت سمجھنے کے بعد ہم کراچی کے مستقل رہائشیوں کے مسئلے کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم حل نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔
لیاقت علی خان اور فاطمہ جناح کے بعد پروفیسر غفور احمد اور شاہ احمد نورانی اس شہر کے قائدین رہے۔ پچھلی ربع صدی سے الطاف حسین کے نمایندے اسمبلیوں میں نمایندگی کا ریکارڈ لیے ہوئے ہیں۔ صوبے کے دارالخلافے میں مقبولیت کے باوجود سندھ کے ''فرزند زمین'' ہونے کا سوال نصف صدی تک گونجتا رہا۔ اردو بولنے والے سندھی کا اب تک وزیراعلیٰ نہ بن سکنا بڑا سوال ہے۔ قیام پاکستان کے وقت سندھ سے ہندوؤں کے چلے جانے اور مسلمانوں کے آجانے سے عجیب سماں پیدا ہوگیا۔ صوبے میں مذہب کی کشمکش ختم ہوئی تو قومیت و زبان کی کشمکش پیدا ہوگئی۔
کراچی مچھیروں کی بستی سے بین الاقوامی شہر کا روپ اختیار کرگیا۔ سندھیوں کو محسوس ہوا کہ شہر تو ان کا ہے لیکن بلدیہ میں اس کی نمایندگی وہ نہیں کرتے۔ شہری و دیہی کی تقسیم تو تھی لیکن بھٹو نے کوٹہ سسٹم نافذ کرکے اسے مزید گہرا کردیا۔ یہ دیکھ کر شہر قائد کے باسیوں نے اپنا قائد اور اپنی پارٹی بنالی۔ اس صورتحال نے پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان رورل اور اربن کی تقسیم کو مزید گہرا کردیا۔ فوجی آمروں نے بلدیاتی انتخاب کروائے جب کہ عوامی نمایندوں نے اس سے گریز کیا۔ یوں تعلقات میں دراڑ سی محسوس ہوئی۔
جنرل ضیا کے تین بلدیاتی انتخابات نے کراچی کو عبدالستار افغانی اور ڈاکٹر فاروق ستار جیسے میئرز عطا کیے۔ جنرل مشرف کے دو انتخابات کے سبب نعمت اللہ ایڈووکیٹ اور مصطفیٰ کمال جیسے ناظمین سامنے آئے۔ ان نمایندوں نے کراچی کو آن بان اور شان عطا کی۔ چاروں کے پاس کراچی کا ڈومیسائل تھا۔ لاہور کے مستقل رہائشی شہباز شریف اور عامر محمود نے زندہ دلوں کے شہر کو چمکا دیا ہے۔ یوں اہل کراچی کو محسوس ہوا کہ اگر صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ دو ڈھائی کروڑ کے شہر کی سڑکوں، بجلی، پانی، صفائی اور امن عامہ اگر تتر بتر ہوں تو تلخی کو بڑھنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ یہ ہے کراچی اور اس کے باسیوں کا مسئلہ۔ اب سوال ہے کہ ہونا کیا چاہیے اور کس کو کیا سمجھنا چاہیے؟
الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کو سمجھنا چاہیے کہ سندھی بولنے والے سندھیوں کو کراچی سے محروم کردینے کا مطلب انھیں سو سال پیچھے کردیتا ہے۔ وہ اس کے لیے کیسے تیار ہوں گے؟ ''مرسوں مرسوں سندھ نا ڈیسوں'' کا نعرہ لگانے والے بلاول کو کیا سمجھنا چاہیے کہ کراچی کے معاملات اب سندھ اسمبلی کے ریموٹ کنٹرول سے نہیں چل سکیں گے۔ بلدیاتی انتخابات نہ کروانے اور اختیارات نچلی سطح تک نہ دینے کے بہانے کب تک چل سکیں گے؟ شہر قائد کے پانی کے معاملات اس شہر کا ڈومیسائل رکھنے والے کے حوالے کرنا ہوں گے۔
صفائی اور ٹریفک کے معاملات اس کے سپرد کرنا ہوں گے جو اس شہر میں عید مناتا ہے۔ شہر قائد کے امن وامان کا معاملہ اس کے حوالے کرنا ہوگا جسے قائد کی طرح اس شہر کی مٹی میں آسودہ خاک ہونا ہے۔ اس موضوع پر نصف درجن سے زیادہ تحریریں آپ کی نگاہوں سے گزری ہوں گی۔ معاملات جوں کے توں نہیں رہ سکتے۔ اختیارات نچلی سطح تک نہ دینے سے گھروں، شہروں، صوبوں اور ملکوں کا بٹوارا ہوتا ہے۔ کراچی کے شہروں کو بروقت حق دے کر روکا جاسکتا ہے صوبے کا بٹوارا۔