ڈاکٹر شکیل اوج کا قتل اور نیویارک ٹائمز
انگریزی کے ایک اخبار نے گولیوں کی تعداد تین لکھی ہے جس سے دو گولیاں ڈاکٹر شکیل اوج کو لگنے کا ذکر ہے
یہ 18 ستمبر کی صبح تھی جب میں رئیس کلیہ معارف اسلامیہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کے پاس پہنچا، ان کے کمرے میں صدر شعبہ ابلاغ عامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود سمیت دیگر افراد بھی تشریف رکھتے تھے۔ ہم سب افراد خانہ فرہنگ ایران (کلفٹن) جارہے تھے۔ دس بجے کے قریب تمام لوگ اور ڈاکٹر شکیل باہر پارکنگ میں آئے جہاں سے ہمیں گاڑی میں بیٹھ کر خانہ فرہنگ ایران جانا تھا۔
ڈاکٹر شکیل اوج نے پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین، مجھے اور شعبہ کے ایک اور استاد شاکر صاحب کو اپنی ذاتی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا جس کو ان کا ڈرائیور چلارہا تھا۔ وہ خود اپنے ایک دوست کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بھتیجی، ڈاکٹر طاہر مسعود اور ان کی شاگرد (معلمہ) ڈاکٹر آمنہ بھی بیٹھ گئیں، بقیہ دیگر افراد اپنی کاروں میں جانے کے لیے نکلے۔
ہم سب اس تقریب میں شرکت کے لیے جارہے تھے جو ڈاکٹر شکیل اوج کے اعزاز میں انھیں ڈی لیٹ کی ڈگری اور تمغہ امتیاز ملنے کے سلسلے میں ایرانی سفارت خانے کی جانب سے منعقد کی جارہی تھی۔ ڈاکٹر شکیل اوج جامعہ کراچی سے وفاقی اردو یونیورسٹی روڈ کے راستے جارہے تھے کیوں کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو وفاقی اردو یونیورسٹی سے اپنے ساتھ تقریب میں لے جانا تھا۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کے بقول (جوکہ ڈاکٹر شکیل کے ساتھ ہی برابر میں بیٹھے تھے) جب گاڑی اردو یونیورسٹی کے پل پر جارہی تھی تو کچھ ہی لمحے بعد انھوں نے ایسی آواز سنی جو کسی گاڑی کے ٹائر پھٹنے کی معلوم ہوتی تھی، انھوں نے پیچھے کی جانب دیکھا تو گاڑی کی پچھلی اسکرین پر دو گولیوں کے نشانات تھے چنانچہ انھوں نے فوراً ڈرائیور کو گاڑی تیز بھگانے کا کہا اور خود نیچے جھک گئے۔ اس کے بعد انھیں ڈاکٹر شکیل اوج کی بھتیجی کی آہ و پکار کی آوازیں سنائی دیں تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شکیل اوج گولی لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔ چنانچہ گاڑی کو فوراً اسپتال لے جایاگیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
اس مختصر روداد لکھنے کا مقصد قارئین کو دوبارہ اس واقعے کی طرف متوجہ کرنا نہیں بلکہ اس اہم بات کی طرف متوجہ کرنا ہے (خصوصاً میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو) کہ اگلے روز اس واقعے کی خبر کس غلط اور لاپرواہی کے انداز میں شایع ہوئی اور اس عمل سے ہمارا مفاد اور قومی تشخص کس طرح مجروح ہوا۔
اس واقعے کے حقائق کو 19 ستمبر کے اخبارات پڑھ کر معلوم ہوا کہ خود اخبارات میں بیان کردہ حقائق ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ بعض اخبارات نے فوراً ہی اپنے تئیں جس طرح اس قتل کی وجوہات بیان کرنے کی کوشش کیں اس سے ہمارے قومی وقار اور مقاصد کو بھی سخت دھچکا پہنچا، جب کہ بیرون ملک کے میڈیا نے بھی اس کو ہماری ساکھ مزید خراب کرنے کے لیے استعمال کیا حالانکہ اس واقعے کے فوراً بعد محتاط رپورٹنگ کی ضرورت تھی جس میں صحافیانہ نقطہ نظر سے معروضیت کا ہونا بے حد ضروری تھا۔
پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے اپنی خبر کی تفصیلات میں ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں ان کی مذہبی افکار کے باعث ٹارگٹ کیا گیا۔
ایک اور دوسرے بڑے انگریزی اخبار نے ان کے خلاف ماضی میں دیے گئے توہین رسالت کے خصوصی اور متنازعہ مذہبی تقریر کو نمایاں کرکے ذکر کیا کہ جیسے بس یہی ان کے قتل کی وجہ ہو۔
ایک اور تیسرے بڑے انگریزی اخبار نے تو اپنی خبر کی سرخی میں ہی یہ لکھ دیا کہ لبرل پروفیسر کراچی میں قتل کردیے گئے۔
ایسی صورتحال میں بیرونی میڈیا بھلا کیوں پیچھے رہتا؟ چنانچہ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ توہین رسالت کے الزام رکھنے والے پاکستانی اسکالر کو گولی مار دی گئی۔ اسی طرح ایک اور اخبار انڈیپنڈنٹ نے لکھا کہ اپنے لبرل ویوز کی بنا پر اسلامک اسکالر ڈاکٹر شکیل اوج کو پاکستان میں قتل کردیا گیا۔
پاکستانی اخبارات نے جس طرح ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کو غلط طریقے سے بیان کیا وہ بھی قابل غور اور لمحہ فکریہ ہے۔ ایک اور اخبار اس واقعے کی تفصیل لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل اوج کو نیپا چورنگی کے فلائی اوور پر 9 ایم ایم کی چھ گولیاں گردن اور سینے پر ماری گئیں، مذکورہ اخبار نے یہ خبر پولیس اور ایک نیوز ایجنسی کو ذریعہ بناتے ہوئے دی ہے۔
انگریزی کے ایک اخبار نے گولیوں کی تعداد تین لکھی ہے جس سے دو گولیاں ڈاکٹر شکیل اوج کو لگنے کا ذکر ہے۔ راقم نے اس خبر کی رپورٹنگ کے حوالے سے اور بھی بہت سے اخبارات کا مطالعہ کیا جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، یہاں مختصراً ذکر کرنے کا مقصد قارئین خصوصاً میڈیا میں کام کرنے والوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ جناب سب سے پہلے خبر دینے اور ذہنی دباؤ میں کام کرنے کا مسئلہ اپنی جگہ مگر کم از کم حساس خبروں کے معاملے میں تو ہمیں خصوصی توجہ دینی چاہیے اور حقائق کے ساتھ قومی وقار اور مفاد کو تو ہر قیمت پر اپنی ترجیح میں شامل رکھنا چاہیے کہ ''بریکنگ نیوز'' یا بڑی خبر تو دیگر عام واقعات سے بھی بن سکتی ہے۔
مگر اس قسم کی خبر (جس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے قومی اور اسلامی تشخص کے لیے نہایت حساس ہوں) بہت سوچ سمجھ کر رپورٹ کرنی چاہیے، کسی سیاست دان کے بیان اور اس قسم کی اہم خبروں میں فرق کو لازماً ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ سیاست دان تو بعد میں اپنے بیان کی تردید بھی کرسکتا ہے لیکن اس قسم کی خبروں سے جو تاثر بنتا ہے اس کو کون دور کرے گا؟
جب اپنا ہی میڈیا ڈاکٹر شکیل اوج کو لگنے والی ایک گولی کے بجائے چھ گولیاں لکھے یا یہ لکھے کہ امریکا ڈاکٹر شکیل اوج کو ان کے مذہبی افکار یا لبرل سوچ کے باعث قتل کیا گیا ہے تو بھلا نیویارک ٹائمز یہ سرخی کیوں نہ لگائے گا کہ توہین رسالت کا الزام رکھنے والے پاکستانی اسکالر کو گولی ماردی گئی۔
ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی خبر کا نیویارک ٹائمز تک کا یہ سفر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہاہے، آیئے غور کریں۔
ڈاکٹر شکیل اوج نے پروفیسر ڈاکٹر ناصر الدین، مجھے اور شعبہ کے ایک اور استاد شاکر صاحب کو اپنی ذاتی گاڑی میں بیٹھنے کا کہا جس کو ان کا ڈرائیور چلارہا تھا۔ وہ خود اپنے ایک دوست کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ ان کی چھوٹی بھتیجی، ڈاکٹر طاہر مسعود اور ان کی شاگرد (معلمہ) ڈاکٹر آمنہ بھی بیٹھ گئیں، بقیہ دیگر افراد اپنی کاروں میں جانے کے لیے نکلے۔
ہم سب اس تقریب میں شرکت کے لیے جارہے تھے جو ڈاکٹر شکیل اوج کے اعزاز میں انھیں ڈی لیٹ کی ڈگری اور تمغہ امتیاز ملنے کے سلسلے میں ایرانی سفارت خانے کی جانب سے منعقد کی جارہی تھی۔ ڈاکٹر شکیل اوج جامعہ کراچی سے وفاقی اردو یونیورسٹی روڈ کے راستے جارہے تھے کیوں کہ انھوں نے اپنے ایک دوست کو وفاقی اردو یونیورسٹی سے اپنے ساتھ تقریب میں لے جانا تھا۔
ڈاکٹر طاہر مسعود کے بقول (جوکہ ڈاکٹر شکیل کے ساتھ ہی برابر میں بیٹھے تھے) جب گاڑی اردو یونیورسٹی کے پل پر جارہی تھی تو کچھ ہی لمحے بعد انھوں نے ایسی آواز سنی جو کسی گاڑی کے ٹائر پھٹنے کی معلوم ہوتی تھی، انھوں نے پیچھے کی جانب دیکھا تو گاڑی کی پچھلی اسکرین پر دو گولیوں کے نشانات تھے چنانچہ انھوں نے فوراً ڈرائیور کو گاڑی تیز بھگانے کا کہا اور خود نیچے جھک گئے۔ اس کے بعد انھیں ڈاکٹر شکیل اوج کی بھتیجی کی آہ و پکار کی آوازیں سنائی دیں تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر شکیل اوج گولی لگنے سے زخمی ہوگئے ہیں۔ چنانچہ گاڑی کو فوراً اسپتال لے جایاگیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کردی۔
اس مختصر روداد لکھنے کا مقصد قارئین کو دوبارہ اس واقعے کی طرف متوجہ کرنا نہیں بلکہ اس اہم بات کی طرف متوجہ کرنا ہے (خصوصاً میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو) کہ اگلے روز اس واقعے کی خبر کس غلط اور لاپرواہی کے انداز میں شایع ہوئی اور اس عمل سے ہمارا مفاد اور قومی تشخص کس طرح مجروح ہوا۔
اس واقعے کے حقائق کو 19 ستمبر کے اخبارات پڑھ کر معلوم ہوا کہ خود اخبارات میں بیان کردہ حقائق ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ بعض اخبارات نے فوراً ہی اپنے تئیں جس طرح اس قتل کی وجوہات بیان کرنے کی کوشش کیں اس سے ہمارے قومی وقار اور مقاصد کو بھی سخت دھچکا پہنچا، جب کہ بیرون ملک کے میڈیا نے بھی اس کو ہماری ساکھ مزید خراب کرنے کے لیے استعمال کیا حالانکہ اس واقعے کے فوراً بعد محتاط رپورٹنگ کی ضرورت تھی جس میں صحافیانہ نقطہ نظر سے معروضیت کا ہونا بے حد ضروری تھا۔
پاکستان کے ایک بڑے انگریزی اخبار نے اپنی خبر کی تفصیلات میں ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ انھیں ان کی مذہبی افکار کے باعث ٹارگٹ کیا گیا۔
ایک اور دوسرے بڑے انگریزی اخبار نے ان کے خلاف ماضی میں دیے گئے توہین رسالت کے خصوصی اور متنازعہ مذہبی تقریر کو نمایاں کرکے ذکر کیا کہ جیسے بس یہی ان کے قتل کی وجہ ہو۔
ایک اور تیسرے بڑے انگریزی اخبار نے تو اپنی خبر کی سرخی میں ہی یہ لکھ دیا کہ لبرل پروفیسر کراچی میں قتل کردیے گئے۔
ایسی صورتحال میں بیرونی میڈیا بھلا کیوں پیچھے رہتا؟ چنانچہ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ توہین رسالت کے الزام رکھنے والے پاکستانی اسکالر کو گولی مار دی گئی۔ اسی طرح ایک اور اخبار انڈیپنڈنٹ نے لکھا کہ اپنے لبرل ویوز کی بنا پر اسلامک اسکالر ڈاکٹر شکیل اوج کو پاکستان میں قتل کردیا گیا۔
پاکستانی اخبارات نے جس طرح ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی رپورٹنگ کرتے ہوئے حقائق کو غلط طریقے سے بیان کیا وہ بھی قابل غور اور لمحہ فکریہ ہے۔ ایک اور اخبار اس واقعے کی تفصیل لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ڈاکٹر شکیل اوج کو نیپا چورنگی کے فلائی اوور پر 9 ایم ایم کی چھ گولیاں گردن اور سینے پر ماری گئیں، مذکورہ اخبار نے یہ خبر پولیس اور ایک نیوز ایجنسی کو ذریعہ بناتے ہوئے دی ہے۔
انگریزی کے ایک اخبار نے گولیوں کی تعداد تین لکھی ہے جس سے دو گولیاں ڈاکٹر شکیل اوج کو لگنے کا ذکر ہے۔ راقم نے اس خبر کی رپورٹنگ کے حوالے سے اور بھی بہت سے اخبارات کا مطالعہ کیا جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں، یہاں مختصراً ذکر کرنے کا مقصد قارئین خصوصاً میڈیا میں کام کرنے والوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ جناب سب سے پہلے خبر دینے اور ذہنی دباؤ میں کام کرنے کا مسئلہ اپنی جگہ مگر کم از کم حساس خبروں کے معاملے میں تو ہمیں خصوصی توجہ دینی چاہیے اور حقائق کے ساتھ قومی وقار اور مفاد کو تو ہر قیمت پر اپنی ترجیح میں شامل رکھنا چاہیے کہ ''بریکنگ نیوز'' یا بڑی خبر تو دیگر عام واقعات سے بھی بن سکتی ہے۔
مگر اس قسم کی خبر (جس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے قومی اور اسلامی تشخص کے لیے نہایت حساس ہوں) بہت سوچ سمجھ کر رپورٹ کرنی چاہیے، کسی سیاست دان کے بیان اور اس قسم کی اہم خبروں میں فرق کو لازماً ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ سیاست دان تو بعد میں اپنے بیان کی تردید بھی کرسکتا ہے لیکن اس قسم کی خبروں سے جو تاثر بنتا ہے اس کو کون دور کرے گا؟
جب اپنا ہی میڈیا ڈاکٹر شکیل اوج کو لگنے والی ایک گولی کے بجائے چھ گولیاں لکھے یا یہ لکھے کہ امریکا ڈاکٹر شکیل اوج کو ان کے مذہبی افکار یا لبرل سوچ کے باعث قتل کیا گیا ہے تو بھلا نیویارک ٹائمز یہ سرخی کیوں نہ لگائے گا کہ توہین رسالت کا الزام رکھنے والے پاکستانی اسکالر کو گولی ماردی گئی۔
ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کی خبر کا نیویارک ٹائمز تک کا یہ سفر ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہاہے، آیئے غور کریں۔