اسلام و دیگر ادیان میں قربانی کا تصور…

قربانی سے مومن روح کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، نفسانی خواہشات اور جبلتوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔


صفورا نثار October 06, 2014

لاہور: قربانی کسی جبر کا نام نہیں، نہ ہی یہ زبردستی کا عمل ہے بلکہ رضاکارانہ طور پر ادا کی جانے والی رسم کا نام قربانی ٹھہرا ہے۔ اسلام رضاکارانہ قربانی کی ہدایت کرتا ہے، اس لیے کہا گیا ہے جو صاحب حیثیت ہے وہی قربانی کرے، جس کی حیثیت نہ ہو اس پر قربانی لازم نہیں۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کچھ قربان کردے، اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ذوالحجہ کی دس تاریخ کو اجتماعی قربانی کرنے کا حکم دیا ہے، تاکہ عالم کو پیغام ربانی پہنچے اور اجتماعی عمل کے فوائد سمیٹے جا سکیں اور عالم کفر پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے۔

قربانی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قربانی سے مومن روح کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، نفسانی خواہشات اور جبلتوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو ہمیں روزمرہ زندگی میں بھی بہت سی قربانیاں نظر آئیں گی۔ وہ قربانیاں بہت سی صورتوں میں ہوتی ہیں۔ ان قربانیوں سے کوئی خوش ہوتا ہے تو کسی کی زندگی سنور جاتی ہے تو کسی کی زندگی اجڑ جاتی ہے۔

لیکن راہ خدا میں فداکاری کی یاد کا نام عیدالاضحیٰ ہے، ذوالحجہ کی دس تاریخ کو کی جانے والی یہ قربانی ان سب سے الگ اور خاص ہے۔ یہ قربانی خالصتاً اللہ کے نام پر سچے جذبے، خلوصِ نیت سے ایسے جانور کو ذبح کرنے کا نام ہے جو ہر عیب سے پاک ہو۔ یہ شرط بھی اس لیے ہے کہیں لوگ اپنے نقص والے جانور نہ ذبح کریں جو کسی اور کام کے نہ ہوں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو کسی کے گوشت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی جانور کے خون کی، بلکہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل اور تقویٰ کو دیکھتا ہے اور اس پر انھیں اجر عطا کرتا ہے۔

اچھی سے اچھی قربانی کا مقصد بھی یہی ہے، دیکھا جائے کون اللہ تعالیٰ کے لیے کتنے خلوص دل سے قربانی کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے اچھے جانور کو اللہ کے حضور پیش کرنا سعادت ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دیگر مذاہب میں اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کو موقع بھی نہیں ملتا کہ مسلمان اپنے خدا کے حضور یہ کس قسم کے جانور ذبح کر رہے ہیں۔

اسی لیے قربانی میں ذبح ہونے والے جانور سے متعلق اسلام نے کچھ اصول متعین کیے ہیں۔ قربانی کے جانور کی عمر کی حد بھی مقرر کی گئی اور ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی کہ چھری کو تیز کرکے وہ شحص ذبح کرے جو اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور ذبح کرنے کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہوجائے، مطلب اس کے تمام اعضاء سے روح نہ نکل جائے اس وقت تک ہاتھ پاؤں نہ کاٹیں اور نہ چمڑا اتاریں۔

اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس میں ہر چیز کے انفرادی اور اجتمائی فوائد موجود ہیں، چاہے وہ اسلام کے ارکان ہوں، سنتِ رسول ہوں، حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ ہوں۔ قربانی بھی اسی طرح اپنے اندر کئی فوائد لیے ہوئے ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سنت ابراہیمی ؑ کی اس پیروی کا مطلب محض جانور قربان کرنا نہیں بلکہ اس کے بھی بہت سے فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس دن وہ غرباء اور مساکین جن کو سارا سال گوشت میسر نہیں آتا وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ قربانی کے گوشت سے ایک حصہ خاص طور پر ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے رفاہی اداروں کو سالانہ فنڈز مل جاتے ہیں اور قربانی سے انسان کے اندر جذبہ جہاد پیدا ہوتا ہے۔ اگر ان سب کاموں میں دکھاوا اور ریاکاری نہ ہو تو یہ سب اسی قربانی سے وابستہ کام ہیں اور ان کا اجر اﷲ کے ہاں مسلم ہے۔

اسلام کے علاوہ کچھ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا تصور موجود ہے جب کہ کچھ مذاہب اس کی تردید کرتے ہیں، جیسا کہ ''بدھ مت اور جین مت''، وہ کسی جانور کا گوشت تک نہیں کھاتے، جب کہ ''جین مت'' کے پیروکار منہ پر کپڑا وغیرہ باندھ کر رکھتے ہیں کہ منہ میں غلطی سے بھی کوئی مچھر اور مکھی اچانک بھی نہ جائے، اسی طرح ''سکھ مت'' میں بھی قربانیوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا، اس مذہب میں ہولا کے تہوار میں بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے۔ یہ قربانی جھچے دار ایک ہی جھٹکے میں کرتا ہے۔ قربانی کا خون اکٹھا کرکے نہنگ گروہ کے سردار کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، اس طرح سکھ برادری اپنے مذہب کے لیے قربانی کے جذبے کا اظہار کرتی ہے۔

اگر بات ''یہودیت'' کی، کی جائے تو عید فصیح یہودیوں کا اہم تہوار ہے جو سات دن تک منایا جاتا ہے، اس موقع پر ایک سالہ بھیڑ کے بچے کی قربانی دی جاتی ہے اور اس کا بھنا ہوا گوشت سب تبرک کے طور پر کھاتے ہیں۔ غیر یہودی کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ عید فصیح کے بعد پچاسویں دن یومَ خمس منایا جاتا ہے اس میں سات بھیڑیں یا بیل اور دو دنبے ذبح کیے جاتے ہیں اور غریب غرباء کو دعوت دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی مذاہب میں دیوی، دیوتاؤں کی خوشی اور رضامندی کی خاطر بھی قربانیاں دی جاتی ہیں۔ ہندو مت میں سب سے زیادہ بلی دینے کا رجحان پایا جاتا ہے، بعض لوگ دیوتاؤں کی نوحہ اور منتوں کی تکمیل کے لیے بھی اولاد یا انسانی جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ عموماً انسانی جانوں کی بلی کو منظرِعام پر نہیں لایا جاتا۔ یہ پوشیدہ قربانیاں ہوتی ہیں جو خصوصی مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں۔

اسلام سے پہلے بھی عرب کے لوگوں میں قربانیوں کا رواج تھا، یہ قربانی سنتِ ابراہیمی کے مطابق جانوروں یعنی اونٹ، بھیڑ، بکریوں وغیرہ کی، کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عرب میں خصوصی منتیں مان کر بھی اپنی اولاد کو قربان کرنے کا رواج تھا، جیسا کہ آپﷺ کے والد حضرت عبداللہ کی قربانی کا واقعہ ہے۔ ''جب حضرت عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہوچکا تھا اسے الہام الٰہی سے نشاندہی ملنے کے بعد کھودنے لگے تو انھیں دشواری ہوئی تو انھوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انھوں نے قرعہ اندازی کی جس میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا جو کہ ان کے چہیتے بیٹے تھے۔

حضرت عبدالمطلب انھیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر حضرت عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا مگر نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلا، پھر اونٹوں کی تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام حضرت عبداللہ کا ہی نکلتا، آخرکار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا، اس کے بعد حضرت عبداللہ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔'' (طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام جلد اول)

اس کے علاوہ قربانی کی ایک قسم ''انصاب'' تھی جس کا ذکر ''سورہ مائدہ'' میں ہوا ہے، ''عرب کے لوگ کوئی ایک نشانی بنا لیتے تھے، کوئی لکڑی وغیرہ زمین میں دبا کر اس کے قریب جانوروں کی قربانی کرتے تھے''۔ یہ قربانیاں بھی بتوں کی خوشنودی کے لیے کی جاتی تھیں۔ دین ابراہیمیؑ پر ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اصل قربانی کے طریقے سے منحرف تھے، وہ لوگ قربانی کرنے کے بعد قربانی کا گوشت خانہ کعبہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی آمد کے بعد سورہ براۃ میں اﷲ تعالیٰ نے حج اور قربانی کے تمام سابقہ طریقوں کو منسوخ کیا، ان کی تصحیح کرکے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائی۔

قربانی ایک عظیم عبادت ہے، جو تمام ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے، تاہم اسلام نے جس مقصد کے لیے قربانی کے اس عظیم فریضے کو ہمارے لیے باقی رکھا ہے اگر اس مقصد اور طریقہ کار کے مطابق قربانی نہ کی گئی تو شاید دیگر ادیان کی طرح ہماری یہ قربانی بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ ہمیں قربانی کرتے وقت سنت ابراہیمیؑ کو ادا کرتے ہوئے اسلامی طور طریقوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، تب کہیں جا کر ہم اس قربانی کی حقیقت کو پا سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں