فلسفۂ قربانی

ایام قربانی میں قربانی ایسی نیکی ہے جس کا کوئی اور بدل نہیں ہے

ایام قربانی میں قربانی ایسی نیکی ہے جس کا کوئی اور بدل نہیں ہے۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

KARACHI:
قربانی سے مراد ہر وہ عمل ہے، جسے اﷲ تعالیٰ کی رضا، حصول اجروثواب اور اس کی بارگاہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے انجام دیا جائے۔ امت مسلمہ ہر سال جو قربانی کرتی ہے، یہ حضرت ابراہیم و حضرت اسمعیل علیھم السلام کی یادگار ہے۔

ایام قربانی میں قربانی ایسی نیکی ہے جس کا کوئی اور بدل نہیں ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:''ایّام قربانی (10 تا 12 ذی الحجہ) میں انسان کا کوئی بھی عمل اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کے جانور کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے، اور قیامت کے روز قربانی کا یہ جانور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت حاضر ہوگا، اور بلاشبہہ قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مرتبۂ قبولیت کو پالیتا ہے، تو (اے مومنو!) خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔''

٭قربانی کی شرائط:

قربانی ہر صاحب نصاب بالغ مرد اور عورت پر واجب ہے، زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کم از کم نصاب پر پورا قمری سال گزرنا شرط ہے، جب کہ قربانی اور فطرے کے وجوب کے لیے محض نصاب کا مالک ہونا کافی ہے، سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ قربانی کے لیے اونٹ پانچ سال، گائے، بیل اور بھینس دو سال، دنبہ، بکرا اور بکری ایک سال کے ہونے چاہییں، اس سے کم عمر کے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے البتہ بھیڑ اور دنبہ اتنے فربہ ہوں کہ دیکھنے میں ایک سال کے نظر آئیں تو ان کی قربانی جائز ہے۔

قربانی کے جانوروں کی عمر پورے ہونے کی ظاہری علامت دو دانت کا ہونا ہے، لہٰذا کھیرا جانور جس کے سامنے کے دو دانت ابھی نہیں گرے یا دودھ کے دانت گرنے کے بعد نئے دانت ابھی نہیں نکلے، اسے قربانی کے لیے نہیں خریدنا چاہیے، البتہ اگر جانور گھر کا پلا ہوا ہے اور اس کی عمر ایک سال پوری ہوگئی ہے تو اس کی قربانی شرعاً جائز ہے، خواہ سامنے کے دو دانت ابھی نہ گرے ہوں۔

٭قربانی کا جانور:

یہ جانور تمام عیوب فاحشہ سے سلامت ہونا چاہیے۔ جو جانور اندھا، کانا یا لنگڑا ہو یا بہت بیمار اور لاغر ہو یا جس کا کوئی کان، دم یا چکتی تہائی سے زیادہ کٹے ہوئے ہوں یا پیدائشی کان نہ ہوں یا ناک کٹی ہو یا دانت نہ ہوں یا بکری کا ایک تھن یا گائے بھینس کے دو تھن خشک ہوں، ان سب جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ جس جانور کے پیدائشی سینگ نہ ہوں یا سینگ اوپر سے ٹوٹا ہوا ہو، کان، چکتی یا دم ایک تہائی یا اس سے کم کٹے ہوئے ہوں تو ایسے جانوروں کی قربانی جائز ہے۔

صاحب نصاب نے عیب دار جانور خریدا یا خریدتے وقت بے عیب تھا، بعد میں عیب دار ہوگیا تو ان دونوں صورتوں میں اس کے لئے ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں، دوسرا بے عیب جانور خریدے اور قربانی کرے اور اگر خدا نخواستہ ایسا شخص صاحبِ نصاب نہیں ہے تو دونوں صورتوں میں اس جانور کی قربانی کرسکتا ہے۔ اگر گائے کے ساتویں حصے کی قیمت بکری سے زیادہ ہوتو وہ افضل ہے اور اگر قیمتیں برابر ہوں تو بکری کی قربانی افضل ہے کیوںکہ بکری کا گوشت زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔

٭قربانی کے حصے:

بکرا، بکری، بھیڑ اور دنبے کی قربانی صرف ایک فرد کی طرف سے ہوسکتی ہے، اونٹ، گائے وغیرہ میں زیادہ سے زیادہ سات افراد شریک ہوسکتے ہیں، شرط یہ ہے کہ سب کی نیت تقرب یعنی عبادت اور حصول اجروثواب کی ہو۔ سات سے کم افراد بھی ایک گائے کی قربانی میں برابر کے حصے دار ہوسکتے ہیں، مثلاً :چھ یا پانچ یا چار یا تین یا دو، حتیٰ کہ ایک آدمی بھی پوری گائے کی قربانی کرسکتا ہے، سات حصے داروں کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ سات افراد نے مل کر قربانی کا جانور خریدا، بعدازاں قربانی سے پہلے ایک حصے دار کا انتقال ہوگیا۔

اگر مرحوم کے سب ورثاء باہمی رضا مندی سے یا کوئی ایک وارث یا چند، اپنے حصۂ وراثت میں سے اجازت دے دیں تو استحساناً اس کی قربانی ہوجائے گی۔ مرحوم والدین اور قرابت داروں کے لیے ایصالِ ثواب کی نیت سے قربانی کی جاسکتی ہے۔ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ توفیق دے تو رسول کریمﷺ کی ذات اقدس کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کرنا افضل ہے، کرنے والے کو بھی ثواب ملے گا اور حضور ﷺکی نسبت سے اس کی قبولیت کا بھی یقین ہے۔

٭مشترکہ خاندان اور قربانی:


شریعت کی رو سے ہر عاقل و بالغ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے عمل کے لیے جواب دہ ہے لہٰذا ایک مشترکہ خاندان میں اگر ایک سے زیادہ افراد صاحب نصاب ہیں تو سب پر فرداً فرداً نصاب واجب ہے، محض ایک قربانی سب کے لیے کافی نہیں ہوگی بلکہ تعین کے بغیر ادا ہی نہیں ہوگی۔

٭قربانی اور عقیقہ:

قربانی کی گائے میں عقیقہ کا حصہ ڈال سکتے ہیں، بہتر یہ ہے کہ لڑکے کے لیے دو حصے ہوں اور لڑکی کے لیے ایک حصہ، اگر دو حصوں کی استطاعت نہ ہو تو لڑکے کے لیے ایک حصہ بھی ڈالا جاسکتا ہے۔

٭قربانی کا گوشت: افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ ذاتی استعمال کے لیے، ایک حصہ اعزا و اقربا اور احباب کے لیے اور ایک حصہ فقرا اور ناداروں پر صرف کیا جائے۔ سارا گوشت رضائے الٰہی کے لیے مستحقین کو دے دینا اعلیٰ درجے کی نیکی ہے اور اگر خود زیادہ ضرورت مند ہے تو کل یا اکثر گوشت ذاتی استعمال میں لانے کی رخصت و اجازت ہے، لیکن یہ قربانی کی روح کے منافی ہے۔

٭قربانی کا وقت:

قربانی کا وقت 10ذی الحجہ کی صبح صادق سے لے کر12ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، گیارھویں اور بارھویں شب میں بھی قربانی ہوسکتی ہے، مگر رات کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔ ایسے شہر اور قصبات جہاں عید کی نماز پڑھی جاتی ہے، وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں ہے۔

٭ذبح کا طریقہ:

ذبح کرتے وقت جانور کو بائیں پہلو پر قبلہ رو لٹائیں اور خود ذبح کریں یا کسی سے ذبح کرائیں، چھری تیز ہو اور کم ازکم تین رگیں کاٹنی چاہییں۔

٭قربانی کی کھال:

قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں بھی لایا جاسکتا ہے مثلاً اس سے جائے نماز، موزے اور مشکیزہ وغیرہ بناسکتے ہیں، جب کہ قربانی کی کھال بیچ کراس کی رقم اپنے استعمال میں نہیں لاسکتے، بلکہ اس کل رقم کو صدقہ کردینا واجب ہے۔ اسی طرح قربانی کے جانور کی کھال یا گوشت قسائی کو اجرت کے طور پر دینا جائز نہیں ہے۔ قربانی کی کھالیں کسی نادار و مفلس غریب اور مستحق کو بھی دے سکتے ہیں البتہ دینی اداروں اور مدارس کو دینا افضل ہے۔

٭تکبیراتِ تشریق:

9 ذی الحجہ کی نماز فجر سے 13 ذی الحجہ کی نماز عصر تک ہر باجماعت نماز کے بعد ایک مرتبہ بلند آواز سے یہ تکبیر پڑھنا واجب ہے اور تین مرتبہ پڑھنا افضل و مستحب ہے۔ عیدگاہ آتے جاتے بھی با آواز ِبلند یہ تکبیر پڑھنی چاہیے:

اَﷲُ اَکْبَرْ اَﷲُ اَکْبَرُ لَااِلٰہَ اِلَّااﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرْ ،اَﷲُ اَکْبَرْ وَﷲِ الْحَمْدُ0
Load Next Story