انتخابی اصلاحات کیوں اور کیسے
اس کے علاوہ متحرک، فعال اور بااختیار عدلیہ اور قومی تقاضوں، مزاج اور جمہوری اقدار کا فہم ۔۔۔
دنیا بھر میں انتخابی عمل، جمہوریت اور جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے جزو لاینفک یا ایک سیڑھی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جو عوام کو آئینی اور قانونی طریقے سے اپنے حکمران منتخب کرنے اور اپنے نمایندے قانون ساز اداروں میں بھیجنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لیے اچھی حکمرانی اور جمہوری عمل کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ انتخابی عمل شفاف، غیر جانبدارانہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ انتخابی عمل کو شفاف اورغیر جانبدار بنانے میں انتخابات کا طریقہ کار، انتظام اور بندوبست کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ جو ایک مکمل طور پر غیر جانبدار، آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل، واضح انتخابی قوانین اور ان کے نفاذ کے میکنزم سے مشروط ہے۔
اس کے علاوہ متحرک، فعال اور بااختیار عدلیہ اور قومی تقاضوں، مزاج اور جمہوری اقدار کا فہم و ادراک رکھنے والی سیاسی جماعتوں کا بھی انتخابات کو شفاف بنانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ اس لیے کسی معاشرے میں جمہوری نظم حکمرانی کا مطالعہ کرتے وقت وہاں مروج انتخابی طریقہ کار کا مشاہدہ پورے نظام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت جو ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے، اس کا سبب مئی 2013 کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی دھاندلیوں کے الزامات ہیں۔ وطن عزیز میں جاری انتخابی عمل کے حوالے سے اس وقت تین پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اول، انتخابی نظام میں مجموعی طور پر کیا خامیاں اور نقائص پائے جاتے ہیں؟ دوئم، گزشتہ پارلیمان نے جو اصلاحات کیں، ان کے انتخابی عمل پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ سوئم، مزید کیا تبدیلیاں اور اصلاحات ضروری ہیں، تاکہ انتخابی عمل کو شفاف، غیرجانبدارانہ اور غیر متنازعہ بنایا جاسکے، جہاں تک موجودہ انتخابی عمل کا تعلق ہے، تو اس میں اتنے نقائص اور خامیاں ہیں کہ ہر سطح پر دھاندلیوں کے وسیع امکانات موجود رہتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل سے انتخابی فہرستوں کی تیاری، انتخابات کے انعقاد اور پھر اس کے بعد کے تمام مراحل انتہائی ناقص، فرسودہ اور غیر ذمے دارانہ چلے آرہے ہیں۔ سابقہ پارلیمان نے اس نظام میں بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے، جو آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ جن میں صرف چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کو قائد حزب اقتدار اور قائد حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے مشروط کردیا گیا تھا۔
دوسرے گورننس اور انتخابی عمل پر کام کرنے والی مختلف تنظیموں کی سفارشات پر نادرا کے Database سے تصدیق شدہ انتخابی فہرستیں استعمال کی گئیں۔لیکن ان اقدامات کے باوجود مئی 2013 میں ہونے والے انتخابات پر شاید ہی کوئی ایسی جماعت ہو جس نے دھاندلی کے الزامات عائد نہ کیے ہوں۔ جب کہ تحریک انصاف گزشتہ 50 روز سے وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دیے بیٹھی ہے۔ علامہ طاہرالقادری تو ملک میں جاری انتخابی عمل ہی نہیں بلکہ طرز حکمرانی کو بھی ناقص اور فرسودہ قرار دیتے ہوئے ایک نئے انقلاب کی نوید دے رہے ہیں۔ حالیہ دھرنوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ پچھلی پارلیمان نے انتخابی عمل میں بہتری لانے کے لیے جو اقدامات کیے وہ خاصی حد تک ناکافی تھے۔ لہٰذا ان میں مزید تبدیلیاں اور اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں۔
اس لیے پورے انتخابی نظام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انتخابی انتظام یعنی (Election Management)، انتخابی قوانین اور طریقہ کار میں مناسب ردوبدل کی جائے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمان کو ڈی چوک پہ جنم لینے والے طوفان کا ادراک کرتے ہوئے، انتخابی عمل میں بعض کلیدی نوعیت کی تبدیلیوں کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا۔ انتخابی انتظام میں بہتری کے لیے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو، اس کی انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت ہے۔ ساتھ ہی انتظامیہ کے انتخابات کے حوالے سے کردار کا ازسرنو تعین ہے۔ ملک میں اعلیٰ سطح کی تقرریوں جن میں چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمیشن کے دیگر اراکین، صوبائی الیکشن کمشنر، نادرا کے چیئرمین سمیت خودمختار اور نیم خودمختار کارپوریشنوں اور اداروں کے سربراہوں کی تقرری کے لیے پارلیمان کا ایک کمیشن تشکیل دیا جائے، جس میں پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی نمایندگی ہو۔
چیف الیکشن کمشنر اور نادرا کا چیئرمین وزیراعظم کے بجائے پارلیمان کو جوابدہ ہوں۔ چونکہ آیندہ انتخابات نادرا کی فہرستوں پر منعقد ہونا ہیں، اس لیے اس کے چیئرمین کی پارلیمان کے ذریعے تقرری ضروری ہے۔ تاکہ حکومت میں موجود سیاسی جماعت نادرا کے Database پر اثر انداز نہ ہوسکے ۔ ضروری نہیں کہ چیف الیکشن کمشنر عدلیہ ہی سے لیا جائے،بلکہ سول سروس کے اچھی شہرت رکھنے والے بیوروکریٹس کو بھی یہ ذمے داری سونپی جاسکتی ہے۔
اسی طرح دیگر اراکین اور صوبائی الیکشن کمشنر کی تقرری میں بھی یہی کلیہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر (DROs)، ریٹرننگ آفیسرز (ROs) اس وقت بالترتیب ڈسٹرکٹ سیشن جج اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج (ADJs) ہوتے ہیں۔ یہ ذمے داریاں بھی انتظامی نوعیت کی ہیں، اس لیے ضروری نہیں کہ ان عہدوں پر جج ہی فائز ہوں۔ بلکہ سول سرونٹ سمیت ٹیکنوکریٹس کی بھی تقرری ممکن ہے۔ اس مقصد کے لیے الیکشن کمیشن ایڈورٹائزمنٹ کے ذریعے ایک سال کے لیے اہل افراد کا چھ ماہ کے لیے میرٹ پر تقرر کرے یا کسی دوسرے محکمے سے خدمات مستعار لے۔ لیکن سب سے اہم کام یہ ہے کہ ان ذمے داریوں کے لیے منتخب کردہ افراد کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ کیونکہ گزشتہ انتخابات میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا انتہائی مضحکہ خیز استعمال کیا گیا۔
امیدواروں سے ٹیکس ریٹرن، یوٹیلٹی بلز کے بجائے بیویوں کی تعداد جیسے سوالات کرکے اس پورے عمل کو غیر سنجیدہ بنا دیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ انتخابی عملے کی ہر سطح پر تربیت کی جائے تاکہ انتخابات میں کسی قسم کی کجی یا نقص نہ رہنے پائے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن مختلف نوعیت کے تربیتی ماڈیولز (Modules) تیار کرے، جن میں ایک DROs اور ROs کی تربیت کے لیے ہو۔ دوسرا پولنگ اسٹاف (پریزئیڈانگ، اسسٹنٹ پریزئیڈانگ اور پولنگ افسران) کی تربیت کے لیے ہو۔ پہلے مرحلے میں الیکشن کمیشن DROs اور ROs کی تربیت کرے۔ اس کے بعد متعلقہ ROs اپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات کیے جانے والے پولنگ عملے کی تربیت کرے۔ پورے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کے انعقاد کی منطق بھی ناقابل فہم ہے۔ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 272جب کہ صوبائی اسمبلی کی کل 577 نشستیں ہیں۔
قومی اسمبلی کے ایک حلقے کے لیے کم و بیش 200 پولنگ اسٹیشن ہوتے ہیں، جب کہ ہر پولنگ اسٹیشن میں اوسطاً 4 بوتھ ہوتے ہیں۔ اس طرح ہر پولنگ اسٹیشن پر ایک پریزئیڈنگ افسر ) (PrO کے ساتھ ہر بوتھ کے لیے ایک APO اور دو POs ہوتے ہیں۔ یوں ایک پولنگ اسٹیشن پر اوسطاً 13 افراد تعینات ہوتے ہیں۔ چنانچہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کرانے کی صورت میں اوسطاً 54400 پولنگ اسٹیشن اور 707,200 افراد پر مشتمل عملے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ پولیس اور دیگر انتظامی اہلکار اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسا انتظام ہے، جس میں نقائص اور کمزوریوں کا باقی رہ جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔
اس لیے بھارت کی طرح اگر ہمارے یہاں بھی مختلف صوبوں میں مختلف تاریخوں میں انتخابات کرائے جائیں اور ایک صوبے کا عملہ دوسرے صوبے میں تعینات کیا جائے، تو الیکشن کمیشن پر دباؤ میں کمی لانے کے ساتھ یکمشت بہت بڑی تعداد میں عملے کی تقرری کی زحمت سے بچا جاسکتا ہے۔ ساتھ ہی انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
ایک دوسرا مسئلہ پوسٹل بیلٹ اور بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا ہے۔ جدید دنیا میں جب ٹیکنالوجی تک ہر فرد کی رسائی آسان ہوگئی ہے، تو وہ لاکھوں پاکستانی ووٹ کے حق سے کیوں محروم رہیں، جو روزگار کے حصول کے لیے بیرون ملک مقیم ہیں اور وطن عزیز کو کروڑوں ڈالر کے Remittences بھیجتے ہیں۔ ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں نمایندوں کے چناؤ اور حکومت کی تشکیل میں حصہ لیں۔ تاکہ ان کی بھیجی ہوئی رقوم کا صحیح استعمال ہوسکے۔
اس لیے الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ ان کی متعلقہ سفارت خانے میں ووٹنگ کا بندوبست کرے۔ دوسرا مسئلہ پوسٹل بیلٹ کا ہے، جس کا انتظام تو موجود ہے، مگر صحیح نظام نہ ہونے کی وجہ سے انتخابی ڈیوٹیوں پر مامور ووٹروں کی اکثریت حق رائے دہی سے محروم رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ذمے داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں اپنے حلقہ انتخاب سے باہر ووٹر بھی ووٹ نہیں دے پاتے۔ اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا پارلیمان اور اراکین اسمبلی لمبی لمبی تقاریر کے بجائے انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لیے قانون سازی پر توجہ مرکوز کریں، تو بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔