جیوری کا فیصلہ آخری حصہ

کچھ دیر بعد ممبران جیوری اپنے انکلوژر کی طرف واپس آئے، نظریں جھکائے ہوئے۔۔۔

tishna.brelvi@yahoo.com

ہال کی روشنیاں مدہم کر دی گئیں اور دیوار پر لگی بڑی اسکرین تصویروں اور منظروں سے بھر گئی۔ دل دہلا دینے والی تصویروں اور بھیانک مناظر کی نہ ختم ہونے والی قطار۔ مردوں کی ایذا پرستی اور عورت دشمنی کے نمونے۔ وحشیانہ سلوک کے مرقعے، معصوم بچیوں پر ڈھائے جانے والے ناقابلِ یقین مظالم کے شاہکار۔ گلا گھونٹنے، خنجر یا کلہاڑی سے ٹکڑے ٹکڑے کرنے، زندہ دفن کرنے، جلانے، سنگسار کرنے، کتوں کے آگے چھوڑنے، معمولی بات پر ناک کان کاٹنے، تیزاب سے چہرہ جھلسانے، رشتہ سے انکار پر موت کے گھاٹ اتارنے، بازار میں ننگا گھمانے، عصمت دری کا شکار ہونے والیوں پر کوڑوں کی بارش۔ بچیوں، عورتوں اور بوڑھیوں پر مظالم کی انتہا۔

پورے ہال میں کہرام مچ گیا، گریہ وزاری، آہیں، سسکیاں، چیخیں۔ الامان و الحفیظ!

''معزز ممبران جیوری'' جسٹس نے قدرے بھرائی ہوئی آواز میں بولنا شروع کیا۔ ''جب کوئی جج مسند انصاف پر بیٹھتا ہے یا بیٹھتی ہے تو عدالت کے جذبات و احساسات خود بخود اس کے شعور میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسا ہی میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بہرحال یہ میرا فرضِ اولیں ہے کہ تمام حقائق و نظائر آپ کے سامنے رکھوں، اس لیے کہ فیصلہ تو جیوری کو ہی کرنا ہے۔''

ممبران جیوری اپنی نشستوں سے اٹھے اور فرداً فرداً ایک مخصوص کمرے میں غور و خوض کے لیے داخل ہو گئے۔

کچھ دیر بعد ممبران جیوری اپنے انکلوژر کی طرف واپس آئے، نظریں جھکائے ہوئے۔ قتل کے مقدمے میں جیوری جب بھی سزائے موت کا فیصلہ کرتی ہے تو وہ ملزم کی طرف دیکھنے سے گریز کرتی ہے۔ فیصلہ سنایا گیا۔

''جیوری متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم کا جرم ثابت ہو چکا ہے اور سفارش کرتی ہے کہ مجرم کو پھانسی پر لٹکایا جائے تا دمِ مرگ۔''

یہ کوئی خواب تھا، کوئی واہمہ یا تصور کی شعبدہ بازی؟ یقیناً یہ ایک خواب ہی تھا۔ لیکن ایک بہت خاص اور اہم خواب، ایک خفیہ پیغام، ایک انتباہ، ایک غیبی اشارہ جس نے میرے ہوش و حواس ٹھکانے لگا دیے۔

ایسا کیوں ہے کہ میں اپنی بیٹی سے محبت نہیں کرتا اور لڑکی کی پیدائش پر غضبناک ہوجاتا ہوں۔ میں غور کرتا ہوں اور جواب کی تلاش میں اپنی روح میں جھانکتا ہوں۔

''سن او حقیر بندے!'' میرے قلب کی گہرائیوں سے سرگوشی کے انداز میں ایک صدا بلند ہوتی ہے۔ ''تو اپنی بیٹی سے محبت نہیں کرتا اس لیے کہ تو ایک بزدل، کمزور اور ذلیل انسان ہے۔ تجھ میں ہمت نہیں کہ اپنے معاشرے کا سامنا کر سکے۔ اپنے خود ساختہ روحانی پیشواؤں اور اپنے خاندان کے غصیلے بزرگوں کا مقابلہ کر سکے۔

حقیقت تو یہ ہے اے چھچھورے انسان، تو لالچ کا ایک قابل نفرت مجسمہ ہے۔ شیکسپیئر کے شائی لک کی طرح دولت کا پجاری۔ تو ایک سیٹھ، ایک بنیے کی طرح اپنے بچوں سے بھی سود در سود ادائیگی کا منتظر رہتا ہے۔ تجھے اپنے بیٹوں سے بھی محبت نہیں ہے۔ تو اپنے ''فائدے'' کی وجہ سے انھیں قبول کرتا ہے، زیادہ ''منافع'' کی امید میں۔ اور تو بہی کھاتہ لیے اکاؤنٹنٹ کی طرح ہر وقت نفع و نقصان اور لین دین کے چکر میں رہتا ہے۔

دوسری طرف نظر ڈال تو تجھے بچوں کی ماں بالکل مختلف نظر آئے گی۔ وہ اپنے جگر گوشوں، بچوں اور بچیوں پر ہر وقت جاں نثار کرنے اور تکالیف برداشت کرنے کے لیے تیار رہتی ہے، کسی قسم کے معاوضے یا بدلے کے بغیر۔ یاد رکھ تیرا یہ نظام، یہ ''مرد معاشرہ'' صرف اور صرف عورت کی وجہ سے چل رہا ہے اور تیرا یہ تہذیب و تمدن کا قلعہ بھی اسی کی قربانیوں اور خدمتوں کی بنیاد پر استوار ہے، مگر کب تک؟ تاریخ انسانیت اب تنگ آ کر کروٹ بدلنے والی ہے اور عین ممکن ہے کہ یہ بظاہر شاندار محل، یہ قصر پرغرور ایک عبرتناک کھنڈر میں تبدیل ہو جائے یعنی:


دیکھا تھا پچھلے موڑ پر جو قصرِ پُرغرور

ہے سرنِگوں وہ بن کے کھنڈر اگلے موڑ پر

نیند کے مزے لے اے مری بچی، اے ننھے فرشتے اور آرام کر اے باوفا خاتون۔ میں یہاں بیٹھا ہوں سکڑا ہوا، سر جھکائے ہوئے ایک سزا یافتہ کی طرح اپنی خطاؤں کے بوجھ سے دبا ہوا۔ اعتراف جرم سے لبریز میرے یہ دہکتے اور سلگتے آنسو میرے قصور وار ہونے کا ثبوت ہیں۔ میری حماقتوں اور زیادتیوں کا اظہار۔ شرمندگی کے سمندر میں ڈوبا ہوا میں اپنے ''حاکمانہ'' اور ظالمانہ طرزِ عمل کو یاد کر رہا ہوں جو میں نے باپ اور شوہر کی حیثیت سے روا رکھا۔

رات بہت تاریک ہے، لیکن میں تاریکیوں سے نکل کر کرنوں بھرے گلستان میں آ رہا ہوں۔ میں خوشبو بکھیرتی اس صبح کو ''خوش آمدید'' کہتا ہوں۔ مسرت کی ایک فرحت بخش لہر اب میرے جسم و جاں میں دوڑ رہی ہے۔ اب میں آزاد ہو چکا ہوں۔ اوہام اور جہالت کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں۔ اب میں ایک نئے جذبے، نئے ولولے سے آگے بڑھوں گا اور ایسے مردوں کی صف میں شامل ہو جاؤں گا جو واقعی اپنی بیٹیوں (اور بیٹوں) سے محبت کرتے ہیں، انھیں بہتر انسان اور بہتر شہری بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہایت گرم جوشی سے اپنی شریک حیات کا بازو تھام کر مجروح کا یہ مصرعہ گنگناتے ہیں:

ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا تو چراغ راہ میں جل گئے

اب کوئی احمق عورت کو ''کمزوری'' نہیں سمجھے گا، اس لیے کہ عورت تو ''شہزوری'' اور ''استقامت'' (FORTITUDE) ہے۔

مرد معاشرے نے عورت کے خلاف زبردست سازش کی ہے لیکن وہ تو ہمت کی بہترین مثال ہے۔ یقیناً عورت یہ کہہ سکتی ہے:

خدا کا شکر ہے دل کی بڑی ہوں

ازل سے آسماں تھامے کھڑی ہوں

واقعی اے عورت تو آسمان تھامے کھڑی ہے، مگر تیری عظمت و قوت کو خود پرست مرد نہیں سمجھ سکتا۔ اب میری آنکھیں کھل گئی ہیں۔ میرے دل کے تمام دریچے وَا ہو چکے ہیں۔ میں ایک منحوس حصار سے باہر آ چکا ہوں۔ اب میں دیکھوں گا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان کون آتا ہے۔ کون خاندانوں کو تباہ کرتا ہے۔ بچوں سے خوشیاں چھینتا ہے۔ اگر لڑکی کا باپ یا عورت کا خاوند عقل و ہوش سے کام لے کر دلیری دکھائے تو کوئی دیور، کوئی چاچا، کوئی جرگہ یہ ہمت نہیں کر سکتا کہ کسی عورت یا لڑکی کو ظلم کا نشانہ بنائے، یا اسے اپنے انسانیت سوز قوانین کے تحت ''سزا'' دے۔

مجھے یقین ہے کہ یہ خواب، یہ روح پرور تجربہ صرف مجھ ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے بے وقوف اور بزدل مرد (باپ اور شوہر) اس میں شامل ہو رہے ہوں گے۔ ہمارے اجڑے ہوئے کرۂ ارض کو جنت نظیر بنانے کے لیے۔
Load Next Story