بیورو کریسی یا سدا بہار حکمران
ہماری بیورو کریسی آرمی کے بعد سب سے بڑی قوت تسلیم کی جاتی ہے۔ ۔۔۔
ساری دنیا میں فلاحی ریاستیں چاہے وہ کوئی بھی نظام سیاست رکھتی ہوں وہاں حقیقی طور پر بیورو کریسی عوام کی خادم ہوتی ہے، اس کے برعکس ہماری بیورو کریسی اور عوام میں آقا اور غلام کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آزادی سے پہلے انگریزوں نے اپنا انتظامی ڈھانچہ تیار کیا تھا جس کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی تھی کہ عوام کو غلام کیسے رکھا جائے۔ انھوں نے اسی نقطہ نظر سے ایسا نظام انتظام تشکیل دیا جو ان کے سیاسی مقاصد کو پورا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے یہ نظام انگریزوں کے جانے کے بعد بھی ہمارے یہاں آج بھی جاری ہے۔
ہماری بیورو کریسی آرمی کے بعد سب سے بڑی قوت تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ عوامی نمایندوں کے مقابلے میں زیادہ منظم، با صلاحیت اور تجربہ کار ہوتی ہے۔ اپنے عہدے کے تسلسل کی وجہ سے انھیں اپنے کام میں اچھی طرح مہارت حاصل ہوتی ہے، حکومت کے وسائل اور معلومات کے ذخائر تک ان کی رسائی ہوتی ہے، اس لیے یہ عوامی نمایندوں سے زیادہ باہر اور باخبر ہوتی ہے۔
سیاست دانوں کا کسی شعبے میں علم و تجربہ خاصا محدود ہوتا ہے، دوسرے وزرا بھی انتظامی امور سے کم ہی واقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لامحالہ سیاسی جماعتوں کو اپنا اقدار قائم رکھنے کے لیے بیورو کریسی پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یوں بیورو کریسی حکومت میں اصل طاقت کا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ یوں بیورو کریٹس اپنی ذہانت اور انتظامی تجربے کے بل پر حکومت کرتے ہیں اور سدا بہار حکمران بن جاتے ہیں اور وزراء کی حیثیت نمائشی بن کر رہ جاتی ہے۔
حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی میں ان کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ کیوں کہ سیاست دانوں کی طرح عوام کو جواب دہ نہیں ہوتے اس لیے عوامی مفادات کے بجائے ذاتی مفادات کو اولیت دیتے ہیں جب عوامی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو غلط اعداد و شمار اور گمراہ کن جائزوں کے ذریعے وزرا کو الجھا دیتے ہیں اور جب مسائل بحران کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو کاغذی گھوڑے دوڑانے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان کیونکہ فرنٹ لائن پر ہوتے ہیں انھیں مفت میں بدنامی حاصل ہو جاتی ہے۔
افسر شاہی کا عام آدمی کی زندگی سے کوئی رابطہ یا تعلق نہیں ہوتا وہ عموماً انتظامی امور کے فیصلے دفتری نقطہ نظر سے کرتے ہیں جس میں عموماً عوام کی مشکلات اور الجھنوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال بیشتر محکموں کی جانب سے جاری کردہ سرکاری دستاویزات، سرکاری ضابطے اور طریقہ کار میں ان کا نظام ایسا پیچیدہ رکھا گیا ہے جو عام آدمی کی سمجھ اور فہم سے ہی بالاتر ہے۔ حالانکہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب کچھ عوام الناس کے لیے ہے۔
ملک میں سیاسی حکمران کو جب بھی موقع ملا انھوں نے بیورو کریسی کا قبلہ درست کرنے کی بہت کوشش کیں لیکن ناکام ہوئے بیورو کریسی سیاست دانوں بالخصوص حکمرانوں کو قابو کرنے کے لیے ان کی دلچسپیوں، مشاغل اور نفسیات کو سامنے رکھ کر ان کو اپنی گرفت میں لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی سیاست دان بیورو کریسی کی گرفت سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں لیکن بیورو کریسی کی اصلاح کے حوالے سے کوئی بات نہیں کرتے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ سول بیورو کریسی کے ساتھ ملٹری بیورو کریسی کو پاکستان کے سیاسی نظام میں مستقل ستون کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق الیکشن میں بیشتر سیاست دان وہی اقتدار میں آتے ہیں جن کو ملٹری اور سول بیورو کریسی کی حمایت حاصل ہوتی ہے ان قوتوں کی نگاہ کرم جن پر اور جتنی دیر تک رہتی ہے وہ اقتدار میں رہتا ہے اور نگاہ کرم ہٹتے ہی اقتدار سے باہر کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس کی بڑی وجہ ہمارے یہاں سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کا مضبوط نہ ہونا ہے۔ بار بار کے مارشل لاء اور غیر جمہوری قوانین کے نفاذ کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کو کام کرنے اور اپنے آپ کو منظم کرنے اور اپنے کارکنان کی تربیت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا جس کی وجہ سے بیشتر سیاسی جماعتیں فوجی اور سول افسر شاہی کے فراہم کردہ دائرہ عمل کے اندر کام کرنے پر مجبور رہی ہیں۔
یہ بھی ایک تسلیم شدہ امر ہے کہ جس ملک میں کوئی طاقت ور منظم جماعت نہیں ہوتی وہاں فوج کا عمل دخل حکومت میں بڑھ جاتا ہے، فوج کیونکہ ایک منظم گروہ کی صورت میں ہوتی ہے اور ریاست کی بقا اس کی اولین ذمے داری ہوتی ہے اس لیے سیاسی بحران جو حل ہوتے دکھائی نہیں دیتے تو ایسی صورت میں وہ با آسانی اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے اس طرح وہ سیاست میں ملوث ہو جاتی ہے۔
فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے ہمیشہ منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، ان اثرات کو شاید سیاسی عطائی نظر انداز کر دیں لیکن تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔
جو لوگ سیاسی بحران پیدا ہونے کی صورت میں فوج کو دعوت دیتے ہیں انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ فوج میں سخت نظم و ضبط ہوتا ہے اس لیے بالعموم اپنی لیڈر شپ سے نہ کوئی اختلاف ہوتا ہے اور نہ ہی تصادم وہ ایک کمانڈ کے تحت کام کرتے ہیں اس کے برعکس سیاست دانوں کی بنیاد ہی اس امر پر ہے کہ وہ الگ الگ جد وجہد کریں عوام میں اپنی حمایت کے لیے رائے عامہ ہموار کریں، عوام کو پروگرام دیں، مقبول ہوں تو اقتدار حاصل کریں اس کے نتیجے میں سیاست دانوں میں باہمی کشمکش، شخصی تصادم، نظریاتی اختلافات اور مخالفانہ بیان بازی پیدا ہونا بالکل فطری عمل ہے اسے ناپسندیدہ قرار دیا جانا چاہیے۔ اگر سیاسی نظام تسلسل سے جاری رہے تو یہ خامیاں بھی خود بخود ختم ہوجاتی ہیں۔
موجودہ وقت میں جو سیاسی بحران سامنے آیا ہے بعض عناصر اس کا وہی علاج تجویز کر رہے ہیں جن کو دیکھ کر یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
میں نہیں جانتا کہ نواز شریف کو استعفیٰ دینا چاہیے یا نہیں اور نہ ہی میں یہ جانتا ہوں کہ عمران خان کا نعرہ ''گو نواز گو'' قانونی ہے یا غیر قانونی اور نہ ہی مجھے اس سیاسی بحران کے پس پردہ محرکات کا پتہ ہے۔
اس پر بہتر رو شنی تو سیاست کا طالب علم ہی ڈال سکتے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ آپ روٹی کا نوالہ کھاتے ہیں اگر آپ اس روٹی کے نوالے کو اپنے منہ سے نکال کر لوگوں کے سامنے رکھیں گے تو ہر فرد جو اسے دیکھے گا کراہت محسوس کرے گا۔ جب کہ یہی نوالہ ہے جو آپ کے جسم میں غذا سے خون بن کر جسم میں توانائی پیدا کرتا ہے اور آپ کے وجود کے لیے ضروری ہوتا ہے اور یہی وہ نوالہ ہے جو آپ کو زندگی عطا کرتا ہے۔
ہمارے یہاں جمہوری نظام پوری طرح پنپ نہیں سکا ہے ہم اس کی ابتدائی شکل دیکھ کر کراہت محسوس کر رہے ہیں دنیا میں جہاں جہاں جمہوری نظام کامیاب ہے وہ ابتدائی دور میں یہی صورت حال پیش آتی رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جمہوری نظام کو چلنے دیا جائے، سیاسی جماعتوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا جائے چاہے وہ جماعتیں سرکاری گملوں میں ہی کیوں نہ پروان چڑھائی گئی ہوں۔ سیاسی جماعتوں کا وجود ملک کے لیے ناگزیر ہے۔ انھیں کمزور نہ کریں۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک سب نے سیاسی جماعتیں تشکیل دیں ملک پاکستان محفوظ رہا جنرل یحییٰ نے سیاسی جماعت نہیں بنائی ملک دو ٹکڑے ہو گیا اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا بھی اعلیٰ سیاسی بصیرت کا حامل ہونا ضروری نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی ہی بیورو کریسی کے قبلہ کی درستگی کی ضامن ہیں۔
ایک لمحہ کا فیصلہ ہو جاتا ہے صدیوں پر محیط
ایک ذرا سی لغزش نسلوں کو سزا دیتی ہے