عالمی معیشت کو بڑے پیمانے پر سٹے بازی سے خطرہ ہے آئی ایم ایف
مالیاتی بحران کے بعد سے 6 سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی عالمی معیشت کا انحصارترقی یافتہ معیشتوں میں زری پالیسیوں پر ہے
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کو زیادہ پیداواری سرمایہ کاری اور سٹے بازی پر مبنی اثاثوں کی کم ضرورت ہے جن کی قیمتیں اپنی حقیقی قدر سے زیادہ ہوگئی ہیں اور وہ معاشی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
آئی ایم ایف کے سرفہرست فنانشل کونسلر جوز وینالس نے عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تازہ ترین جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ سرمائے میں سے زیادہ رقم ایسی اقتصادی سرگرمیوں میں نہیں لگائی گئی جس سے معاشی نموکو فروغ ملتا بلکہ بہت زیادہ سرمایہ مالیاتی خطرے کے حامل اثاثوں میں چلا گیا جو فی الوقت عالمی معاشی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
مالیاتی بحران کے بعد سے 6 سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی عالمی معیشت کا انحصار ترقی یافتہ معیشتوں میں سازگار زری پالیسیوں پر ہے لیکن ان زری پالیسیوں کو فائدہ تھوڑا رہا اور اس میں تسلسل بھی نہیں رہا، امریکی بینکاری ریگولیٹر فیڈرل ریزرو، یورپ اور جاپان کے مرکزی بینکوں کی نرم زری پالیسیوں سے ایسی سرگرمیوں میں کچھ پیسہ لگا جس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور پیداوار اور کھپت میں اضافہ ہوا تاہم بہت زیادہ سرمایہ ایسے اثاثوں اور سٹے بازی کی نذر ہوگیا جو فروخت بڑھنے پر نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔
عالمی معیشت کو مالیاتی خطرہ مول لینے میں حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے خدشات لاحق ہیں، بہت سے اثاثوں کی قیمتیں ان کی قدروں سے زیادہ ہیں، اس کے علاوہ 4ٹریلین ڈالر کے قریب رسکی سرمایہ ابھرتی معیشتوں کی ایکویٹیز اور بانڈز میں لگایا جا چکا ہے جو سرمائے کے بہاؤ کی سمت میں اچانک تبدیلی سے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور یہ سب کچھ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دو معاملات عالمی معیشت کو دھچکا لگاسکتے ہیں اور وہ ہیں روس یوکرین بحران کی شدت میں اضافہ اور امریکی زری پالیسی کو غلط طریقے سے سخت کیا جانا۔ انھوں نے کہاکہ امریکی بینکاری ریگولیٹر کو زری پالیسی کو سخت کرنے کے باقی دنیا پر ہونے والے اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ترقی یافتہ معیشتوں کے دھچکے بہت تیزی سے ابھرتی معیشتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف کے سرفہرست فنانشل کونسلر جوز وینالس نے عالمی معیشت کو لاحق خطرات کے حوالے سے تازہ ترین جائزہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ ترقی یافتہ معیشتوں کے مرکزی بینکوں کی جانب سے فراہم کردہ سرمائے میں سے زیادہ رقم ایسی اقتصادی سرگرمیوں میں نہیں لگائی گئی جس سے معاشی نموکو فروغ ملتا بلکہ بہت زیادہ سرمایہ مالیاتی خطرے کے حامل اثاثوں میں چلا گیا جو فی الوقت عالمی معاشی استحکام کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔
مالیاتی بحران کے بعد سے 6 سال سے زائد گزرنے کے بعد بھی عالمی معیشت کا انحصار ترقی یافتہ معیشتوں میں سازگار زری پالیسیوں پر ہے لیکن ان زری پالیسیوں کو فائدہ تھوڑا رہا اور اس میں تسلسل بھی نہیں رہا، امریکی بینکاری ریگولیٹر فیڈرل ریزرو، یورپ اور جاپان کے مرکزی بینکوں کی نرم زری پالیسیوں سے ایسی سرگرمیوں میں کچھ پیسہ لگا جس سے ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے اور پیداوار اور کھپت میں اضافہ ہوا تاہم بہت زیادہ سرمایہ ایسے اثاثوں اور سٹے بازی کی نذر ہوگیا جو فروخت بڑھنے پر نقصان کا باعث ہوسکتی ہے۔
عالمی معیشت کو مالیاتی خطرہ مول لینے میں حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے خدشات لاحق ہیں، بہت سے اثاثوں کی قیمتیں ان کی قدروں سے زیادہ ہیں، اس کے علاوہ 4ٹریلین ڈالر کے قریب رسکی سرمایہ ابھرتی معیشتوں کی ایکویٹیز اور بانڈز میں لگایا جا چکا ہے جو سرمائے کے بہاؤ کی سمت میں اچانک تبدیلی سے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اور یہ سب کچھ تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دو معاملات عالمی معیشت کو دھچکا لگاسکتے ہیں اور وہ ہیں روس یوکرین بحران کی شدت میں اضافہ اور امریکی زری پالیسی کو غلط طریقے سے سخت کیا جانا۔ انھوں نے کہاکہ امریکی بینکاری ریگولیٹر کو زری پالیسی کو سخت کرنے کے باقی دنیا پر ہونے والے اثرات کو ذہن میں رکھنا چاہیے، ترقی یافتہ معیشتوں کے دھچکے بہت تیزی سے ابھرتی معیشتوں تک پہنچ سکتے ہیں۔