حکومت ڈھاک کے تین پات

وزیراعظم چھ اس طرح کے فیصلے کرتے تو آج دھرنوں کے باوجود حالات مختلف ہوتے ۔۔۔

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

میں نے گزشتہ کالم میں کہا تھا کہ دھرنا عملاً 13اگست سے شروع ہوا،اس کے بعد نظام کو درست کرنے کے لیے اگر کابینہ ہر روز ایک فیصلہ کرتی تو 31دنوں میں وہ کیا کرسکتی تھی،اس سلسلے میں گزشتہ سے پیوستہ مزید نکات ملاحظہ فرمائیں۔

15ستمبر:غریب اور بے سہارا بچوں کی زندگیوں کو سنبھالنے کے لیے خصوصی فنڈ کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ اسمبلیوں کی متعلقہ کمیٹیاں حزب اختلاف کی سربراہی میں اس فنڈ کو استعمال کرنے کے طریقہ کار کو اپنے صوبے کی ضرورت کے مطابق واضح کرسکتی ہیں۔ریا ست بہرحال کفالت کے اس نظام کو اپنی بنیادی ذمے داری کے طور پر ماننے کے بعد اس سے انصاف کرنے کے لیے تیار ہے۔

16ستمبر:نیب کے غیر متنازعہ چیئرمین کی تعیناتی کے لیے حزب اختلاف اور اجتماعی پارلیمان رائے کو اس تعیناتی میں بھرپور انداز میں شامل کرنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔ متعلقہ قانون سازی کے لیے تجاویز کے لیے دوماہ کا عرصہ دیا جا رہا ہے۔نیب بدعنوانی کی تحقیقات کا آغاز موجودہ اہم نمایندگان کے خلاف لگنے والے الزامات سے متعلق کرے گی۔صدر اور گورنر سمیت تمام عہدے داران کی اس قسم کی تحقیقات سے استثنا کو ختم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔نیب کے کام کو قومی دھارے کے سب سے اہم پراجیکٹ کے طور پر سامنے لانے کے لیے وسائل اور قانون سازی کا بندوبست کیا گیا ہے۔نیا نیب تین ماہ کے اندر نئے مینڈیٹ کے ساتھ کام کا آغاز کرے گا۔تمام اثاثوں کی تحقیق اور ایف بی آر جیسے اداروں کی معاونت حاصل ہونے کے بعد نیب حقائق کو عوام کے سامنے مکمل شفافیت کے ساتھ لانے کا پابند ہوگا۔

17ستمبر:وہ تمام اہم قومی ادارے جن کے سربراہان کی تعیناتی تعطل کا شکار ہے یا جن کے بارے میں تعیناتیوں کے حوالے سے شکوک پائے جاتے ہیں فوری طور پر شفاف تعیناتیوں کے نئے نظام کے دائرے میں لائے جا رہے ہیں۔پارلیمان کی مشترکہ کمیٹیاں مکمل طور پر میرٹ کی بنیاد پر نوکریوں کے حصول سے متعلق عمل پر جرح کرنے کی مجاز ہوں گی۔ہر امیدوار کا انٹرویو ان کمیٹیوں کی کارروائیوں کا حصہ ہوگا جس کو براہ راست نشر کیا جائے گا۔تمام ایڈہاک تعیناتیاں تین ماہ کی مدت کے بعد غیر قانونی متصور ہوںگی۔

18ستمبر:تمام متنازعہ مشیران حکومت یا متعین کیے ہوئے افرادکو فوراً اس عمل کے تابع کیا جا رہا ہے۔

19ستمبر:تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے بات چیت کے دوران انتخابی اصلاحات اور دھاندلی تحفظات کے تمام نکات کو قانونی اور آئینی ترمیمی مسودے کی شکل دے کر پارلیمان کے سامنے بطور بل پیش کیا جا رہا ہے۔ان تجاویز میں اضافے کے لیے ایک ماہ میں مختلف حلقے اپنی آراء کا اظہار کرسکتے ہیں۔ان ترامیم کو حتمی شکل دینے کے لیے بارز اور جید وکلاء جج صاحبان کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔

20ستمبر:پیمرا کا ادارہ مکمل طور پر آزاد اور خودمختار اور موثر بنانے کے لیے قومی قانون سازی کی جا رہی ہے۔یہ ادارہ دو ماہ تک مکمل نئی شکل و طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا۔

21ستمبر:آج وفاقی کابینہ میں باقاعدہ وزراء قانون، دفاع،خارجہ امور اور دوسرے نئے اضافوں کا اعلان کیا جا رہا ہے۔خصوصی مشیران جو خاص ذمے داریوں ادا نہیں کر رہے اور عمومی مشاورت کے لیے رکھے گئے تھے فارغ کیے جا رہے ہیں۔

22ستمبر:کابینہ کے اگلے تین ماہ میں 60دنوں پر میٹنگز کے کیلنڈروں کا اجراء کر رہا ہے۔اس دوران تمام وزراء اپنی وزارتوں میں مسلسل موجود رہیں گے۔وزیراعظم اگلے چھ ماہ تک کوئی بیرونی دورہ نہیں کریں گے نہ ہی وہ لاہور کا سفر کریں گے۔

23ستمبر:واپڈا رینٹ پاور پلانٹس کے تمام مقدمات و تنازعات کو حل کرنے کے لیے وزیراعظم یہ معاملات اپنی نگرانی میں مسلسل جانچ کے لیے رکھ رہے ہیں۔موجودہ بجلی کی صلاحیت کو استعمال کرنے کے لیے ان مسائل کے حل کا ہدف تین ماہ مقررکیا گیا ہے۔

24ستمبر:دہشت گردوں سے متعلق ادارہ نیکٹا فوری فعال کیا جا رہا ہے۔اس کے لیے تمام وسائل مہیا کیے جا رہے ہیں۔اس میں کلیدی تعیناتیاں مکمل شفافیت اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی نگرانی کے تحت ہوں گی۔یہ ادارہ دو ماہ میں مکمل اور بھر پور مینڈیٹ کے ساتھ کام شروع کردے گا۔


25ستمبر:وزیراعظم کے خاندان کا کوئی فرد غیر منتخب حیثیت میں کوئی ایسی ذمے داری حاصل نہیں کرے گا جو حکومت و ریاستی امور کے زمرے میں آتی ہو۔کوئی فرد یا رشہ دار سیکیورٹی سمیت کوئی حکومتی وسائل یا سہولت استعمال نہیں کرے گا۔اس سلسلے میں ہر قسم کی شکائت پر کارروائی یا وضاحت کا خصوصی بندوبست کیا جا رہا ہے۔

26ستمبر:وزیراعظم سمیت تمام وزراء اپنے کاروبار کی تفصیل جاری کر رہے ہیں۔کوئی ایسی پالیسی سازی جو ان کے کاروبار کو بالواسطہ یا بلا واسطہ تقویت دے رہی ہو فوری طور پر ـ'' مفاد کے ٹکراؤ'' سے متعلق قانون سازی (جو اگلے دو ماہ میں ہوچکی ہوگی) کی شق کے تابع قابل تحقیق ہوگی۔

27ستمبر:تمام ممبران حکومت کے تمام اثاثوں پر مبنی ریکارڈ ہر چھ ماہ بعد شایع کرکے عوام کے سامنے رکھا جائے گا۔حکومت کی ویب سائٹ پر یہ تمام تفصیلات موجود ہوں گی۔اس کام کا آغاز فوری طور پر کیا جا رہا ہے۔

28ستمبر:تمام بڑے منصوبے جن پر حکومت فیصلے کرچکی ہے نظر ثانی کے عمل سے گزارے جائیں گے۔ تعلیم، صحت،خوراک اور چھت کے مسائل کے پیش نظر ان منصوبوں پر اٹھنے والے اخراجات کو نئی ترجیحات کے تحت لایا جائے گا۔

29ستمبر:پاکستان ٹیلی ویژن اور پاکستان ریڈیو کو آزاد بورڈ آف گورنر کے تحت کیا جا رہا ہے۔حکومت ان اداروں سے کوئی سیاسی اثرورسوخ پر مبنی تعلق رکھنے کی مجاز نہیں ہوگی۔ یہاں پر تمام اہم تعیناتیاں کھلے میرٹ پر ہوں گی۔

30 ستمبر:قومی سلامتی کی کمیٹی کے ہر ہفتہ اجلاس کا شیڈول جاری کیا جا رہا ہے۔یہ شیڈول تا وقت ضرورت لاگو رہے گا۔

یکم اکتوبر:عدلیہ میں موجود تمام آسامیوں کو اگلے تین ماہ میں پر کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔

2 اکتوبر:دہشت گردی کے جرائم میں ملوث تمام افراد کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر کروانے کے لیے خصوصی عدالتوں اور ان سے متعلقہ قانون سازی کا کام اگلے دو ماہ میں مکمل کرلیا جائے گا۔تمام مقدمات چھ ماہ تک فیصلوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔

3اکتوبر:وزیراعظم اور وزراء کے تمام صوابدیدی اختیارات اور مراعات کی تفصیل جاری کی جا رہی ہے۔ان میں سے جو عوام کے لیے زحمت کا باعث بنتے ہیں اگلے دو ماہ میں موصول ہونے والی عوامی رائے کے پیش نظر ختم کر دیے جائیں گے۔

4اکتوبر:وہ آسائشیں جو حکومتی اور انتظامی نمایندگان کو میسر ہیں جن سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے فوراً ختم کی جا رہی ہیں۔

5اکتوبر:وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین ہر روز 8بجے سے 11بجے تک ان اہداف کی تکمیل کی رفتار کا جائزہ لیں گے۔یہ میٹنگز براہ راست نشر ہوں گی۔

اگر ان تمام دنوں میں وزیراعظم چھ اس طرح کے فیصلے کرتے تو آج دھرنوں کے باوجود حالات مختلف ہوتے۔مگر اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کچھ بھی نہیں کر پائے،وہ ویسے ہی ہیں جیسے پہلے تھے۔ان کا نظام وہی ہے جو پہلے تھا۔کچھ نہیں بدلا۔وہی سستی،وہی مشیر، وہی عادات،وہی روش۔ایسی حکومت کو دشمنوں کی ضرورت نہیں ہے۔وہ اپنے آپ کے لیے خود ہی کافی ہے۔آپ سب کو عیدالاضحی مبارک اور جوں کی توں حکومت۔
Load Next Story