پاکستان ایک نظر میں جمہوریت بمقابلہ اشرافیہ
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب کسی ملک کا متوسط طبقہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہو تووہاں سیاسی و معاشرتی تغیر ناگزیر ہوجاتا ہے۔
دنیا کی پہلی جمہوریت ایتنھز ہے جہاں طبقاتی کشمکش کے حل کیلئے اسمبلی تشکیل دی گئی تھی ۔ معاشرے میں اپنے جائز مقام اور اقتدار میں اپنے حصہ کیلئے عوامی جدوجہد ہر دور اور دنیا کے ہر کونے میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی ہے ۔ ایبے سائیس نے فرانس کے محروم طبقے کیلئے جو پمفلٹ لکھا تھا وہ پچاس سال کے اندر اندر تین انقلابوں کے بعد حقیقت بنا اور اپنے ساتھ پورے یورپ میں عوامی بیداری کی ایسی لہر اٹھاگیا جسکے باعث قدیم اور مضبوط بادشاہتیں منہ کے بل گرنا شروع ہوئیں ۔ پہلی جنگ عظیم نے سلطنتوں کے زوال کو مزید تیز کرتے ہوئے روس، جرمنی ، ترکی ، آسٹراور ہنگیرین ایمپائر کو قصہ پارینہ بنادیا اور دوسری جنگ عظیم کےبعد شہنشائیت محض نمائشی رہ گئی۔
معاشرتی انصاف کےلئے اشرافیہ اور اقتدار کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اس احساس نے ہمیشہ غیر اشرافی طبقے کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ دولت ، اختیار اور عہدے کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا اکثریتی طبقے کےلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ لہذا عوامی ردعمل ہمیشہ اس طبقے سے اٹھا جہاں تعلیم و ہنر تھا لیکن عزت و روزگارنہ تھا، صلاحیت تھی لیکن اسے آزمانے کے مواقع میسر نہ تھے۔ اشرافیہ اور محروم طبقے کی اسی لڑائی نے سوشلزم ، کمیونزم ، جمہوریت کو عوام کا نجات دہندہ بنایا ۔
جمہوریت میں جمہور چونکہ خود اپنا نمائندہ چنتی ہے اسلئے موجودہ دور میں عوامی امنگوں کی تکمیل کا موثر ترین نظام جمہوریت ہی قرار پاتا ہے۔ یہ عام آدمی کے بنیادی حقوق ، سماجی انصاف و بہبود کی نگہبان ہونے کے باعث قوموں کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔ آج دنیا میں جہاں بھی عوامی تحریک اٹھ رہی ہے اسکا مطالبہ جمہوریت ہی ہے ۔
لیکن پاکستانیوں کےلئے جمہوریت ٹرک کےپیچھے لگی وہ بتی ہے جسے پکڑنے کوہم اندھا دھند بھاگ رہے ہیں لیکن فاصلہ کم ہی نہیں ہوتا کیونکہ یہاں جمہور کی اہمیت صرف لفاظی کےلئے ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت اپنی بدترین شکل میں رائج ہے۔ یہاں اربوں روپے سے اسمبلی کی نئی عمارت بن جاتی ہے لیکن قحط سالی کا تدارک نہیں ہوپاتا، بجلی بحران انتہا کو چھو رہا ہے لیکن ڈیم پر سیاست کی جاتی ہے ، دنیا بھر میں کشکول لئے پھرتےہیں پر کرپشن ختم نہیں کرتے، یہاں بجلی کی اوور بلنگ کیوجہ سے لوگ خودکشی کرلیتے حکمراں ہیں کہ احساس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ۔ یہ تمام چیزیں براہ ِراست عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں جن کے حل کیلئے جب وہ پارلیمنٹ کی طرف دیکھتا ہے تو وہاں اشرافیہ چہرے بدل کر بیٹھی نظر آتی ہے ۔
قیام پاکستان سے قبل ہی جو طبقہ تاج برطانیہ کا مراعات یافتہ تھا آج بھی سردار ، جاگیردار ، وڈیرے کے روپ میں اقتدار و اختیار کا مالک بنکر استحصال میں مصروف ہے ۔ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت یہ گروہ کبھی طاقت کے ایونوں سے باہر نہیں رہتا ، یہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنا خوب جانتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر جمہوریت کا محافظ بننا اس اشرافیہ کا محبوب مشغلہ ہے حالانکہ جمہوریت اور اشرافیہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب کسی ملک کا متوسط طبقہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہو تووہاں سیاسی و معاشرتی تغیر ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ آج ہمارا سوشل میڈیا شاہد ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہورہاہے، لوگ بڑھتی سماجی ناانصافی پر سوال اٹھانے لگے ہیں ۔ دو پارلیمنٹرین کو جہاز سے آف لوڈ کرنے پر جو ردعمل متوسط کلاس نے دکھایا وہ معاشرے پر چھائے اشرافی جمود و گرفت سے بیزاری کا مظاہرہ تھا لیکن دوسری طرف سیاسی ایلیٹ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستانی معاشرہ تبدیل ہورہا ہے جو جمہوریت کو کاغزوں سے نکل کر عملاً نافذ دیکھنا چاہتا ہے اسلئے مزاج اور رویوں کی تبدیلی اشد ضروری ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
معاشرتی انصاف کےلئے اشرافیہ اور اقتدار کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اس احساس نے ہمیشہ غیر اشرافی طبقے کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ دولت ، اختیار اور عہدے کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہوجانا اکثریتی طبقے کےلئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ لہذا عوامی ردعمل ہمیشہ اس طبقے سے اٹھا جہاں تعلیم و ہنر تھا لیکن عزت و روزگارنہ تھا، صلاحیت تھی لیکن اسے آزمانے کے مواقع میسر نہ تھے۔ اشرافیہ اور محروم طبقے کی اسی لڑائی نے سوشلزم ، کمیونزم ، جمہوریت کو عوام کا نجات دہندہ بنایا ۔
جمہوریت میں جمہور چونکہ خود اپنا نمائندہ چنتی ہے اسلئے موجودہ دور میں عوامی امنگوں کی تکمیل کا موثر ترین نظام جمہوریت ہی قرار پاتا ہے۔ یہ عام آدمی کے بنیادی حقوق ، سماجی انصاف و بہبود کی نگہبان ہونے کے باعث قوموں کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے ۔ آج دنیا میں جہاں بھی عوامی تحریک اٹھ رہی ہے اسکا مطالبہ جمہوریت ہی ہے ۔
لیکن پاکستانیوں کےلئے جمہوریت ٹرک کےپیچھے لگی وہ بتی ہے جسے پکڑنے کوہم اندھا دھند بھاگ رہے ہیں لیکن فاصلہ کم ہی نہیں ہوتا کیونکہ یہاں جمہور کی اہمیت صرف لفاظی کےلئے ہے ۔ پاکستان میں جمہوریت اپنی بدترین شکل میں رائج ہے۔ یہاں اربوں روپے سے اسمبلی کی نئی عمارت بن جاتی ہے لیکن قحط سالی کا تدارک نہیں ہوپاتا، بجلی بحران انتہا کو چھو رہا ہے لیکن ڈیم پر سیاست کی جاتی ہے ، دنیا بھر میں کشکول لئے پھرتےہیں پر کرپشن ختم نہیں کرتے، یہاں بجلی کی اوور بلنگ کیوجہ سے لوگ خودکشی کرلیتے حکمراں ہیں کہ احساس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے ۔ یہ تمام چیزیں براہ ِراست عام آدمی کو متاثر کرتی ہیں جن کے حل کیلئے جب وہ پارلیمنٹ کی طرف دیکھتا ہے تو وہاں اشرافیہ چہرے بدل کر بیٹھی نظر آتی ہے ۔
قیام پاکستان سے قبل ہی جو طبقہ تاج برطانیہ کا مراعات یافتہ تھا آج بھی سردار ، جاگیردار ، وڈیرے کے روپ میں اقتدار و اختیار کا مالک بنکر استحصال میں مصروف ہے ۔ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت یہ گروہ کبھی طاقت کے ایونوں سے باہر نہیں رہتا ، یہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنا خوب جانتا ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں شامل ہو کر جمہوریت کا محافظ بننا اس اشرافیہ کا محبوب مشغلہ ہے حالانکہ جمہوریت اور اشرافیہ ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔
تاریخ ثابت کرتی ہے کہ جب کسی ملک کا متوسط طبقہ تعلیم یافتہ اور باشعور ہو تووہاں سیاسی و معاشرتی تغیر ناگزیر ہوجاتا ہے ۔ آج ہمارا سوشل میڈیا شاہد ہے کہ لوگوں کو اپنے حقوق کا ادراک ہورہاہے، لوگ بڑھتی سماجی ناانصافی پر سوال اٹھانے لگے ہیں ۔ دو پارلیمنٹرین کو جہاز سے آف لوڈ کرنے پر جو ردعمل متوسط کلاس نے دکھایا وہ معاشرے پر چھائے اشرافی جمود و گرفت سے بیزاری کا مظاہرہ تھا لیکن دوسری طرف سیاسی ایلیٹ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستانی معاشرہ تبدیل ہورہا ہے جو جمہوریت کو کاغزوں سے نکل کر عملاً نافذ دیکھنا چاہتا ہے اسلئے مزاج اور رویوں کی تبدیلی اشد ضروری ہے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔