پاکستان ایک نظر میں بھارت کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہے
اگرچہ پاکستان واقعی اندرونی مسائل سے دوچار ہے مگر یہ قوم مصیبت کی ہر گھڑی میں ایک قوم بن کر اُبھرتی ہے۔
ماضی کی جنگوں نے جہاں ایک جانب قوموں کو جنگوں سے دور رہنے کا سبق دیا ہے تو دوسری جانب یہ بھی باور کروایا ہے کہ ریاستوں کا ایک دوسرے کے درمیان فاصلے کم صرف اس صورت ممکن ہے جب حقیقت کو سامنے رکھ کر تمام معاملات مذاکرات سے حل کئے جائیں۔
دنیا تو شاید سمجھ گئی لیکن بھارت کو یہ بات سمجھ نہ آ سکیاور آج بھی بھارت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ دھمکیوں،ایٹمی میدان میں آگے نکل کر دوسرے ممالک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے۔یہ بھارت کی غلط فہمی ماضی میں بھی تھی اور اب بھی ہے کیونکہ دنیا بدل چکی ہے،اب ہر کوئی اپنا حق لینا جانتا ہے۔کسی کو آنکھیں دیکھا کر نہ تو اس کا حق چھینا جا سکتا ہے او ر نہ ہی اپنے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
لیکن بھارت کی سوچ کو کون بدلے؟بھارت پر تو ایک ہی بھوت سوار ہے کہ وہ اپنی ایٹمی طاقت میں اضافہ کی بنیاد پر کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر کوئی اُس کے خلاف لب کشائی کی جسارت کرے تو یہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آگ بگولا ہو جاتا ہے۔مگر بھارت خود جب چاہے جیسے چاہے کسی جگہ پرقبضہ بھی کرسکتا ہے اور حملہ بھی کرسکتا ہے اور یہ اُمید اور خواہش رکھتا ہے کہ سامنے سے کوئی جواب نہ آئے۔
یہی عمل بھارت کیجانب سے آج پاکستان کے خلاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس بار بھارت نے اپنی بندوقوں کا رُخ پاکستان کی طرف ایک ایسے موقع پر کیا جب یہاں لوگ عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے۔ بھارت کے غیر اعلانیہ حملے میں اب تک پاکستان کے 12 شہری شہید جبکہ ہزاروں شہری اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
بھارت کیجانب سے حالیہ حملے کی میرے نذدیک کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ پہلی وجہ تو شاید وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ کشمیر اُٹھانا ہوسکتی ہے۔ جبکہ دوسری وجہ آرمی چیف راحیل شریف کا وہ بیان بھی ہوسکتی ہے جس میں اُنہوں نے ڈوٹوک موقف اپنایا تھا کہ پاک فوج کسی بھی بیرونی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ویسے تو ایک وجہ اور بھی ہے مگر اُس بارے میں شاید لوگ سنجیدگی کا اظہار نہ کریں اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کا بیان ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پورا کا پورا کشمیر پاکستان کا ہے اور پاکستان ہر صورت کشمیر لے کر رہے گا جس پر بھارت میں بھی ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔
اِس حملے کے بعد بھارت یہ سمجھ رہا ہوگا کہ پاکستان جو اندرونی مسائل سے بھی دوچار ہے جبکہ اُسی فوجیں مغربی سرحد پر دہشتگردوں سے نبردآزما ہیں وہ بھارتی حملے پر چب سادھ لے گا اوربھارت سے حملے بند کرنے کی اپیل کرے گا ۔ مگر نہ یہ پہلے ہوا ہے اور نہ شاید کبھی مستقبل میں ہوگا کہ پاک فوج اپنے حریف سے اچھی طرح نمٹنا جانتی ہے ۔ بھارتی توپوں کا جواب افواج پاکستان کی جانب سے بھی بھرپور دیا جا رہا ہے۔
بھارت کو ورکنگ باونڈری پر فائر نگ سے سکون نہ آیا تو ایک اور غیرقانونی حرکت کر ڈالی۔ یہ وار پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر تھا،جب بھارتی ہیکرز نے پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ کو ہیک کر کے بھارت کا پر چم لگا دیا۔حملے کا شکار ہونے والی ویب سائٹس میں پاکستان ریلوے کی ویب سائٹ بھی ہے اور یہاں بھی بھارتی ہیکرز نے بھارت پرچم لگادیے تھے۔ میرا بھارت کو بہت ہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے ہیکرز کو ایسی حرکتوں سے باز رکھے تو یہی اُس کے لیے بہتر ہے وگرنہ پاکستانی ہیکرز نے اپنا کام دیکھانا شروع کر دیا تو بھارت کی کوئی ویب سائٹ محفوظ نہیں رہے گی۔
بھارت کی یہ حرکتیں سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کیونکہ بھارت ایک جانب تو ایک پرامن ایٹمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے،لیکن دوسری جانب وہ اپنے عزائم سے باز نہیں آتا۔بھارت ایک جانب تو پاکستان سے تمام معاملات مذاکرات سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور دوسری جانب جنگ بندی کے تمام قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔یہ بھارت کا دوغلا پن ہے،ہمیشہ بھارت کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔پاکستان ایک جانب تو بھارت کے پانی کے معاملے پر صبر سے کام لیتا ہے۔ بھارت کی سخت بیان بازی پر بھی پاکستان جوابی بیان سے ہمیشہ گریز کرتا رہا ہے۔پاکستان کشمیر سمیت تمام معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے کی بات کرتا ہے تو اِس کے برعکس بھارت بات چیت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
بھارت اگر اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پردباو ڈالا جاسکتا ہے تو یہ اُس کی بہت بڑی بھول ہے۔ اگرچہ پاکستان واقعی اندرونی مسائل سے دوچار ہے مگر یہ قوم مصیبت کی ہر گھڑی میں ایک قوم بن کر اُبھرتی ہے۔ پھر چاہے وہ سیاستدان ہوں یا قوم کا ایک ایک بچہ ۔ اور جب یہ قوم ایک قوم بنتی ہے تو پھر دنیا کی کسی ملک میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دنیا تو شاید سمجھ گئی لیکن بھارت کو یہ بات سمجھ نہ آ سکیاور آج بھی بھارت اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ دھمکیوں،ایٹمی میدان میں آگے نکل کر دوسرے ممالک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے۔یہ بھارت کی غلط فہمی ماضی میں بھی تھی اور اب بھی ہے کیونکہ دنیا بدل چکی ہے،اب ہر کوئی اپنا حق لینا جانتا ہے۔کسی کو آنکھیں دیکھا کر نہ تو اس کا حق چھینا جا سکتا ہے او ر نہ ہی اپنے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
لیکن بھارت کی سوچ کو کون بدلے؟بھارت پر تو ایک ہی بھوت سوار ہے کہ وہ اپنی ایٹمی طاقت میں اضافہ کی بنیاد پر کچھ بھی کر سکتا ہے اور اگر کوئی اُس کے خلاف لب کشائی کی جسارت کرے تو یہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آگ بگولا ہو جاتا ہے۔مگر بھارت خود جب چاہے جیسے چاہے کسی جگہ پرقبضہ بھی کرسکتا ہے اور حملہ بھی کرسکتا ہے اور یہ اُمید اور خواہش رکھتا ہے کہ سامنے سے کوئی جواب نہ آئے۔
یہی عمل بھارت کیجانب سے آج پاکستان کے خلاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس بار بھارت نے اپنی بندوقوں کا رُخ پاکستان کی طرف ایک ایسے موقع پر کیا جب یہاں لوگ عید کی خوشیاں منانے میں مصروف تھے۔ بھارت کے غیر اعلانیہ حملے میں اب تک پاکستان کے 12 شہری شہید جبکہ ہزاروں شہری اپنی جانوں کی حفاظت کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔
بھارت کیجانب سے حالیہ حملے کی میرے نذدیک کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ۔ پہلی وجہ تو شاید وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے اقوام متحدہ کے فورم پر مسئلہ کشمیر اُٹھانا ہوسکتی ہے۔ جبکہ دوسری وجہ آرمی چیف راحیل شریف کا وہ بیان بھی ہوسکتی ہے جس میں اُنہوں نے ڈوٹوک موقف اپنایا تھا کہ پاک فوج کسی بھی بیرونی حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ ویسے تو ایک وجہ اور بھی ہے مگر اُس بارے میں شاید لوگ سنجیدگی کا اظہار نہ کریں اور وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کا بیان ہے جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ پورا کا پورا کشمیر پاکستان کا ہے اور پاکستان ہر صورت کشمیر لے کر رہے گا جس پر بھارت میں بھی ہنگامہ برپا ہوگیا تھا۔
اِس حملے کے بعد بھارت یہ سمجھ رہا ہوگا کہ پاکستان جو اندرونی مسائل سے بھی دوچار ہے جبکہ اُسی فوجیں مغربی سرحد پر دہشتگردوں سے نبردآزما ہیں وہ بھارتی حملے پر چب سادھ لے گا اوربھارت سے حملے بند کرنے کی اپیل کرے گا ۔ مگر نہ یہ پہلے ہوا ہے اور نہ شاید کبھی مستقبل میں ہوگا کہ پاک فوج اپنے حریف سے اچھی طرح نمٹنا جانتی ہے ۔ بھارتی توپوں کا جواب افواج پاکستان کی جانب سے بھی بھرپور دیا جا رہا ہے۔
بھارت کو ورکنگ باونڈری پر فائر نگ سے سکون نہ آیا تو ایک اور غیرقانونی حرکت کر ڈالی۔ یہ وار پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی آفیشل ویب سائٹ پر تھا،جب بھارتی ہیکرز نے پیپلز پارٹی کی ویب سائٹ کو ہیک کر کے بھارت کا پر چم لگا دیا۔حملے کا شکار ہونے والی ویب سائٹس میں پاکستان ریلوے کی ویب سائٹ بھی ہے اور یہاں بھی بھارتی ہیکرز نے بھارت پرچم لگادیے تھے۔ میرا بھارت کو بہت ہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اپنے ہیکرز کو ایسی حرکتوں سے باز رکھے تو یہی اُس کے لیے بہتر ہے وگرنہ پاکستانی ہیکرز نے اپنا کام دیکھانا شروع کر دیا تو بھارت کی کوئی ویب سائٹ محفوظ نہیں رہے گی۔
بھارت کی یہ حرکتیں سمجھ سے بالا تر ہیں۔ کیونکہ بھارت ایک جانب تو ایک پرامن ایٹمی طاقت ہونے کا دعویدار ہے،لیکن دوسری جانب وہ اپنے عزائم سے باز نہیں آتا۔بھارت ایک جانب تو پاکستان سے تمام معاملات مذاکرات سے حل کرنے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور دوسری جانب جنگ بندی کے تمام قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے۔یہ بھارت کا دوغلا پن ہے،ہمیشہ بھارت کہتا کچھ اور کرتا کچھ ہے۔پاکستان ایک جانب تو بھارت کے پانی کے معاملے پر صبر سے کام لیتا ہے۔ بھارت کی سخت بیان بازی پر بھی پاکستان جوابی بیان سے ہمیشہ گریز کرتا رہا ہے۔پاکستان کشمیر سمیت تمام معاملات کو گفت و شنید سے حل کرنے کی بات کرتا ہے تو اِس کے برعکس بھارت بات چیت سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
بھارت اگر اس وقت یہ سوچ رہا ہے کہ پاکستان کے اندرونی مسائل سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پردباو ڈالا جاسکتا ہے تو یہ اُس کی بہت بڑی بھول ہے۔ اگرچہ پاکستان واقعی اندرونی مسائل سے دوچار ہے مگر یہ قوم مصیبت کی ہر گھڑی میں ایک قوم بن کر اُبھرتی ہے۔ پھر چاہے وہ سیاستدان ہوں یا قوم کا ایک ایک بچہ ۔ اور جب یہ قوم ایک قوم بنتی ہے تو پھر دنیا کی کسی ملک میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔