سکھوں کے خلاف شکوک و شبہات

مجھے نہیں پتہ کہ ماضی کو کھنگالنے سے کیا مقصد حاصل ہو گا سوائے اس کے کہ یہ معاملہ اور زیادہ پیچیدگی اختیار کرے گا۔۔۔

سکھ بھارت کی ایک چھوٹی' پرعزم برادری ہے چونکہ ان کا حجم محدود ہے اس لیے یہ اپنی شناخت کے لیے بہت تحفظ کے حامل ہیں۔ وہ اکثر ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان کی یہ خود نمائی اس بات کی علامت ہے کہ انھیں سرسری انداز سے نہ لیا جائے۔

پنجاب اس برادری کی آبائی ریاست ہے جس نے سکھوں کے کئی مورچے یا تحریکیں دیکھی ہیں۔ لیکن اگر ان کی ہر تحریک کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ ان کی شناخت کی تلاش نے اس برادری کو حکام کی خلاف ورزی پر اکسایا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل نے کہا ہے کہ ''بلیک لسٹ'' کیے جانے والے سکھوں کا معاملہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس لے کر جائیں گے تا کہ ان کے خلاف مقدمات کا فیصلہ ہو سکے اور مجرم ٹھہرائے جانے والوں کو رہا کرایا جا سکے جنہوں نے پہلے ہی اپنی سزا بھگت لی ہے۔

اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ جو معاملہ 1990ء میں طے ہو گیا تھا اس کو غیر ضروری طور پر کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ میرا مطلب ہے بیرون ملک مقیم سکھوں کے ''آپریشن بلیو اسٹار'' کے خلاف احتجاجی مظاہرے جس میں بھارتی مسلح افواج ان کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل یا دربار صاحب میں داخل ہو گئی تھیں۔

سکھوں کے اعلیٰ ترین مقام اکال تحت پر قبضہ کرنے والے شدت پسند سکھوں کو کسی اور طریقے سے بھی وہاں سے نکالا جا سکتا تھا۔ لیکن اس مقصد کے لیے مسلح افواج کو دربار صاحب کے اندر بھجوا دینا غلط اقدام تھا۔ اور اگرچہ حکومت نے اس کی معافی مانگ لی تھی مگر اس سے اتنی فاش غلطی کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے سیاسی اور انتظامی سطح پر قصورواروں کو سزا دی جانی چاہیے تھی۔ لیکن چونکہ سکھوں کے مقدس استھان میں فوج داخل کرنے کا حکم کانگریس کے چوٹی کے لیڈروں نے دیا تھا لہٰذا کسی کو کوئی سزا نہ مل سکی۔ حتیٰ کہ اس معاملے پر سرکاری رپورٹیں بھی جانبدارانہ اور متعصبانہ تھیں۔

بادل نے ''سکھوں کی فہرست'' کا سوال اٹھایا ہے اور اپنی برادری سے کہا ہے کہ جب سکھوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ ہو تو صرف ایک سکھ ہی ان کی مدد کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں بلکہ اس کا مقصد سکھوں کے ووٹ حاصل کرنا ہے۔ بادل اکالی دل کی سربراہی کر رہے ہیں جن کا مقصد سکھوں کو خوش کرنا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ معاشرے میں تفریق پیدا کر رہے ہیں جو نہ سکھوں کے مفاد میں ہے اور نہ ہی پنجابیوں کے مفاد میں ہے۔

میں نہیں سمجھتا کہ سکھوں کی کوئی فہرست اب بھی موجود ہے۔ 1990ء تک تو یہ درست تھا جب میں لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر تھا تو میں نے وزارت داخلہ اور انٹیلی جنس بیورو کے متعلقہ افسروں کو وہاں طلب کر کے یہ فہرست ختم کرا دی تھی۔ یہ افسر پورا ہفتہ لندن میں مقیم رہے اور انھوں نے عملی طور پر وہ فہرست ختم کر دی۔ مجھے یاد ہے اس فہرست میں تقریباً ایک سو سکھوں کے نام تھے جو حذف کر دیے گئے۔ ان کے نام محض اس بنا پر اس فہرست میں شامل کیے گئے تھے کیونکہ انھوں نے لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے سامنے خالصتان کے حق میں نعرے بلند کیے تھے۔

جون 1984ء میں آپریشن بلیو اسٹار کے بعد جب فوج امرتسر میں واقع دربار صاحب میں داخل ہوئی تھی تو لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کا بیرونی دروازہ بند کر دیا گیا تھا اور باہر برطانوی پولیس کا ایک سپاہی کھڑا تھا جب کہ بھارتی سیکیورٹی کا رکن دروازے کی گھنٹی بجنے پر چھوٹی سی کھڑکی کھول کر باہر جھانکتا اور آنے والے کا جائزہ لیتا۔ اگر اس نے پگڑی باندھ رکھی ہوتی تو اس سے کہا جاتا پچھلے دروازے پر آؤ اور ضروری نہیں کہ اس سے اچھا برتاؤ کیا جاتا ہو۔


مجھے نہیں پتہ کہ ماضی کو کھنگالنے سے کیا مقصد حاصل ہو گا سوائے اس کے کہ یہ معاملہ اور زیادہ پیچیدگی اختیار کرے گا اور ملک میں فرقہ وارانہ انتشار پھیلے گا۔ دونوں برادریوں (ہندوؤں اور سکھوں) میں پہلے ہی بڑی رنجشیں ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اس زہر کو کس طرح خارج کیا جائے جو دونوں برادریوں میں داخل کیا جا چکا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس حوالے سے ان دنوں کوئی کوشش نہیں کی جا رہی۔

1980ء کی دہائی کے اواخر میں اندر کمار گجرال کی قیادت میں ایک پنجاب گروپ قائم کیا گیا تھا جس نے دونوں برادریوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں قابل قدر کوششیں کیں۔ یہ گجرال کے حکومت میں شامل ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے جب وزیر اعظم گجرال نے مجھے لندن میں بھارت کا ہائی کمشنر بننے کی پیشکش کی تو انھوں نے کہا تھا کہ 1984ء کے سکھوں کے خلاف ہونے والے فسادات کے نتیجے میں ہندوؤں اور سکھوں میں جو خلیج پیدا ہو گئی ہے اسے پُر کرنے میں ان کی مدد کروں۔

میں کبھی بھی سرکاری سفارتکاری کا حصہ نہیں رہا کیونکہ میں ایک کارکن صحافی تھا لیکن جب انھوں نے کہا کہ میں دونوں برادریوں کو آپس میں قریب لانے میں ان کی مدد کروں تو میں نے فیصلہ کیا کہ اس سمت میں جو کچھ کر سکتا ہوں مجھے کرنا چاہیے۔ لہٰذا جب میں نے ہائی کمشنر کا عہدہ سنبھالا تو میرا کام یہ سمجھانا تھا کہ نئی دہلی کی حکومت پنجاب کو تین محکموں کے سوا باقی تمام محکمے دینے پر تیار ہے اور یہ بات درست نہیں کہ نئی دہلی کی حکومت سکھوں کے خلاف ہے۔ لیکن انھوں نے میری بات کا یقین نہیں کیا کیونکہ ہائی کمیشن اور سکھ برادری میں باہمی بھروسہ ختم ہو چکا تھا۔

جب میں ہائی کمشنر بنا تو مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ سکھوں کو ہائی کمیشن کی عمارت میں بیرونی دروازے سے داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں۔ سیکیورٹی کا آدمی بڑے دروازے کی چھوٹی سی کھڑکی سے جھانک کر دیکھتا کہ آیا آنے والا سکھ ہے یا کوئی اور ہے۔ اگر وہ سکھ ہوتا تو اسے کہا جاتا کہ وہ عقبی دروازے پر جائے۔ کمیشن کے حکام کی اس بارے میں وضاحت یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی دہشت گرد عمارت میں داخل ہو جائے۔

جب میں نے کہا کہ کیا کسی کے چہرے پر لکھا ہوتا ہے کہ وہ دہشت گرد ہے یا نہیں تو جواب ملا کہ سکھوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان میں زیادہ ترشدت پسند ہیں اور وہ خالصتان کے مطالبے کے حامی ہیں۔

میں نے حکم دیا کہ دروازے کھول دیے جائیں۔ اس پر بھارتی حکومت کے سیکریٹریوں کی کمیٹی نے سخت احتجاج کیا اور مجھ سے کہا گیا کہ اگر ہائی کمیشن کے اسٹاف کے ساتھ کوئی ناگوار واقعہ ہو گیا تو اس کا میں ذاتی طور پر ذمے دار گردانا جاؤں گا۔ لیکن گیٹ کھلنے کے بعد کوئی واقعہ نہ ہوا۔ اصل میں کمیشن کے متعصب افسروں نے برطانیہ میں سکھ برادری کے خلاف غلط بات تصور کر رکھی تھی۔

تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بادل نے سکھوں کی فہرست کے بارے میں سمجھا ہے۔ دونوں برادریوں کو شکوک و شبہات اور تعصب کی وجوہات کو تلاش کرنا چاہیے۔ ان کو ختم کرنے سے معاملہ حل ہو گا کوئی مخصوص فہرست اس کو حل نہیں کر سکتی۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story