قومی حکومت

عوامی مسائل پر دھرنے سے جس قدر آواز اٹھی اس سے لوگوں کو اپنی خودی پہچاننے میں مدد ملی ہے ۔۔۔


Anis Baqar October 09, 2014
[email protected]

KARACHI: اس بات پر اکثریت کو یقین آئے گا کہ دھرنے کی طوالت اور لوگوں کی شرکت نے قوم کو متحرک کر دیا گو کہ ابھی تک اگر سوچا جائے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ہم ابھی قومیتوں کے حصار میں ہیں اور ہم ایک قوم نہیں بن پائے، دیکھیے کب تک بن پائیں گے۔ ابھی تو لیڈران صوبوں کے حصار کو توڑ کر نئے صوبے نہیں بنا سکے صوبوں کے نام کو وہ انتخابی کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں مگر دھرنوں نے دستور پاکستان کی بہت سی دفعات کو باقاعدہ عوام کو یاد دلا دیا اور حقوق جمہور کو بھی یاد کرا دیا اور ساتھ ساتھ پارٹی ورکروں کی صداقت بھی رہنماؤں کو پتہ چل گئی کہ کون کتنے پانی میں ہے۔

اس دوران (ن) لیگ کو تو نقصان ہوا سو ہوا مگر پیپلز پارٹی کو زبردست نقصان پہنچا خصوصاً خورشید شاہ کو جنھوں نے عمران خان کو اپنی حزب مخالف کی کرسی بھی پیش کر دی اور بعض الیکٹرانک میڈیا پر ان کی کرپشن کے لیے جو کردار کشی کی گئی وہ اس کا جواب دینے کی بھی سکت نہ رکھتے تھے۔ پیپلز پارٹی اس وقت دلدل میں دھنسی جا رہی ہے کیونکہ یہ پارٹی نظریاتی بنیادوں پر قائم کی گئی تھی رفتہ رفتہ نظریاتی لوگ رخصت ہو گئے اور پارٹی میں کوئی بھی شخصیت ایسی نہ رہی جو پارٹی کی نظری اور فکری ترجمان ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچا۔ بلاول بھٹو زرداری کے بیانات سے اس کیفیت کا ثبوت ملتا رہا اب صورت حال اس قدر اندوہناک ہو چکی ہے کہ براہ راست تصادم کی بو آ رہی ہے ایک طرف ان کے والد محترم ملاپ کی سیاست کر رہے ہیں۔

درحقیقت ملاپ کا مطلب مفاہمت نہیں بلکہ سیاسی مفادات کی سیاست ہے ابھی بہت سے لوگوں کو یاد ہو گا کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھٹو کا کیا رویہ تھا؟ اگر اس رویے میں تبدیلی کی جا رہی ہے تو کوئی بُرائی نہیں لیکن اس میں منافقت کا عنصر پوشیدہ نہ ہو اور اپنی ڈوبتی کشتی کو سہارا نہ دیا جائے۔ آج کی پیپلز پارٹی کو اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو ایک طرف تو وہ نواز شریف کو للکار رہے ہیں کہ انھوں نے دہشت گردوں کو پناہ دی دوسری جانب وہ ایم کیو ایم کو للکار رہے ہیں آخر پیپلز پارٹی اس تضاد کا شکار کیوں ہے۔ لاڑکانہ کے جلسے میں کراچی سے قافلے جاتے ہیں اور کراچی کے جلسے میں لاڑکانہ، دادو سے قافلے لا کر جلسہ گاہ بھری جاتی ہے کہاں گیا شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آدرش، سوشلزم کو معیشت کا ستون قرار دیا گیا جو 70ء کے دستور میں روٹی کپڑے اور مکان کو تسلیم کیا گیا ہے۔

نواز شریف گو کہ کرسی پر بیٹھے ہیں مگر الیکشن کی فضا پیدا ہو چکی ہے جلسوں کا جا بہ جا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ موجودہ حکومت جلد یا کچھ دیر بعد غیر موثر ہو جائے گی اور پھر علامہ طاہر القادری اور عمران خان میں انتخابی اتحاد ہو گا اور ایک نئے الیکشن پینل کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے منشور جدا جدا ہوں گے کیونکہ عمران خان اس نظام میں کچھ تبدیلی کے خواہاں ہیں جب کہ طاہر القادری یکسر تبدیلی کے خواہاں ہیں دونوں کے مارچ کے عنوانات بھی الگ تھے ایک انقلاب مارچ دوسرا آزادی مارچ قادری کے کارکنوں نے جان دی اور سینے پر گولی کھائی جب کہ عمران خان کے کارکن لڑے ضرور مگر ان کے کارکنوں کو اس قدر مشکلات کا سامنا نہ تھا لہٰذا آگے چل کر سیاست میں ایک نئی کشمکش کا آغاز ممکن ہے۔

علامہ صاحب کسانوں اور غریب طبقات کے زیادہ طرفدار ہیں لیکن منشور کسی کا بھی سامنے نہ آیا ایک اور چیز جو قابل غور ہے وہ یہ کہ سیاسی پارٹیاں اپنے منشور کو ایسا سمجھتی ہیں کہ یہ کوئی پکوڑہ باندھنے کی پڑیا ہے اس کو عوام کو تھما دیا جائے درحقیقت یہ اعتماد سے روگردانی اور فریب کے مترادف ہے یعنی عوام سے جھوٹ بولنا لہٰذا جو جماعتیں اپنے منشور کے خلاف کام کرتی ہیں اور اقتدار میں آ کر عمل نہیں کرتیں تو ان کو دھوکا دہی کے الزام میں سپریم کورٹ سے سوموٹو ایکشن کے تحت برطرف کر دینا چاہیے کیونکہ یہ فریب کے زمرے میں آتا ہے یعنی 420 مگر یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پیپلز پارٹی نے ہر طرف محاذ آرائی شروع کر دی ہے درحقیقت بلاول بھٹو زرداری کی یہ ایک غیر سیاسی اور ہیجانی کیفیت ہے اس سے پارٹی کو کچھ ملنے کا نہیں۔

کراچی کا جلسہ درحقیقت اندرون سندھ کا جلسہ ثابت ہو گا ورنہ ابھی بھی حقیقت کی جانب لوٹنا ہو گا جو ابتدا میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کا مشن تھا یعنی عوام کے لہجے میں عوام کے مسائل پر توجہ گزشتہ پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت نے عوام کو کچھ بھی نہ دیا بلکہ لوگ پرویز مشرف کی حکومت کو یاد کرتے رہے۔ جب ڈالر 60 روپے کا تھا اور گروسری کے نرخ 100 فیصد کم تھے۔ بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں نہیں کر رہے تھے لہٰذا ان امور کو موضوع گفتگو بنانے کی ضرورت ہے جمہوریت کے نعرے اور فاقہ کشی، بدامنی نے لوگوں کو کیا دیا گیا۔

لہٰذا اسٹریٹ پاور جو پی پی پی کا طرہ امتیاز تھا وہ جاتا رہا اب یہ اسٹریٹ پاور پی ٹی آئی کے پاس یا ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس چلا گیا ہاں مگر اسٹریٹ پاور کے علاوہ ان دونوں جماعتوں کو تنظیمی امور پر کڑی نگرانی کرنی ہو گی تا کہ پولنگ ایجنٹ ان لوگوں کو بنایا جائے جو بیلٹ بکس کو پولنگ اسٹیشن سے باہر نہ جانے دیں اور فوج کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر بٹھایا جائے ورنہ سیاہی اور انگوٹھوں کا معاملہ ایسا ہی رہے گا جیسا کہ لاہور میں درپیش ہے اور چند حلقوں کے انتخابی نتائج کی تصدیق کے مسئلے نے دھرنوں کا تحفہ دیا۔ مانا کہ 60 دن ہونے کو ہیں مگر دھرنا دھرتی پر اپنے نقوش ثبت کر چکا ہے اور اس دھرنے کی خصوصیت یہ ہے کہ اقلیت بھی اس میں شریک ہے یعنی کے دھرنا انقلاب کے بجائے انتخاب کے راستے پر گامزن ہو گیا مگر معروضی حالات ایسے نہ تھے اور نہ کارکنوں کو انقلاب کے لیے تیار کیا گیا تھا بقول علامہ اقبال کے اس کے لیے وہ کہتے ہیں:

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

پھر بھی یہ دھرنے رنگ، نسل اور عقائد سے بالاتر جب کہ پاکستان کی بقیہ پارٹیاں اب پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے نقش قدم پر چلنے کا پروگرام بنا رہی ہیں مگر ان کے پاس کوئی عوامی پروگرام نہیں ہے تحریک انصاف کا پروگرام زیادہ طویل نہیں مگر طاہر القادری کا پروگرام طویل ہے اور وہ کسانوں کو متحرک کرنے کا سوچ رہے ہیں جیسا کہ ان کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے بقول ان کے ان کی تنظیم میں نہ کوئی وڈیرا ہے اور نہ جاگیردار البتہ پاکستان میں جو بھی جماعتیں عوام سے مخاطب ہیں انھوں نے خارجہ پالیسی پر روشنی نہیں ڈالی کیونکہ خارجہ حکمت عملی کے بغیر ملک کو نئے انداز میں نہیں چلایا جا سکتا۔

مشرق وسطیٰ کے گلی کوچے لہولہان ہیں، اس کے اثرات پاکستان میں بھی پڑ رہے ہیں اور خدشہ ہے کہ یہ معاملات کہیں کوئی حربی تنظیم کی شکل نہ دھار لیں موجودہ حکومت کئی محاذ پر خاموش ہے جیسے کہ اس کی رٹ جاتی رہی یا اس کو یہ خیال نہیں کہ ملک کو اس سے کس قدر نقصان پہنچ رہا ہے۔ فکری طور پر سیکولر ہونا کوئی لادین ہونا نہیں بلکہ تمام ادیان عالم کے لیے راست جذبہ رکھنا ہے یعنی احکام خداوندی کو اپنے طریقہ سے ماننا ہے پاکستان یقینا ایک مسلم ملک ہے جہاں غیر مسلم بھی سکونت پذیر ہیں اور ان کو نکالا جانا جائز نہیں۔ سندھ کے قدیم ساکنان کو سرزمین سندھ کے ثمرات نہیں پہنچے اور نہ کوئی جماعت ان ثمرات کو پہنچنے کا قصد کرتی ہے۔

عوامی مسائل پر دھرنے سے جس قدر آواز اٹھی اس سے لوگوں کو اپنی خودی پہچاننے میں مدد ملی ہے۔ فی الوقت عمران خان اور علامہ طاہر القادری ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں مگر دونوں کی منزلیں جدا ہیں۔ عمران خان اس نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں جیسا کہ ان کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سوشل ویلفیئر اسٹیٹ جیسا برطانیہ یا کینیڈا ہے جب کہ علامہ طاہر القادری مکمل اس نظام کی تنسیخ چاہتے ہیں ان کو اس بات پر بڑا ملال ہے کہ بندہ مزدور کے اوقات بڑے تلخ ہیں۔ غرض دھرنوں کی سیاست نے ملک کو بہت کچھ دیا ہے جس کی وجہ سے موجودہ نظام حکومت بے یقینی کا شکار ہو گیا ہے اور باقی پارٹیاں بھی اپنا بوریا بسترا باندھ کر الیکشن کی ٹرین میں بیٹھنے کے سفر پر تیار ہیں بقول علامہ اقبال:

اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے

لہٰذا موجودہ حکومت کا انجام کار اور قومی حکومت کا سفر ابھی بھی کافی مشکل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں