عالمی تجزیہ نگاروں کا مبلغ علم
حیرت اس بات کی ہے کہ وہ جودنیا بھرکے میڈیا پرعا لمی حالات و واقعات کے دریا میں غوطہ زن خود کوعظیم ماہرین خیال کرتے ہیں
BERKELEY, CA, US:
برطانوی شہزادہ چارلس اپنی بیوی کامیلا پارکر کے ساتھ بادشاہی مسجد کی عمارت کے نقش و نگار اور فن تعمیر کے بارے میں سوالات کرتے کرتے اچانک مجھ سے پوچھنے لگا، ''اس قدر متحمل مزاج، ادب اور فن کے دلدادہ مسلمان آج کل اسقدر شدت پسند کیوں ہیں کہ خود کش حملوں پر اتر آئے ہیں''۔ میں نے مختصر طور پر جنگ عظیم اوّل سے اسرائیل کے قیام اور عراق، افغانستان تک وجوہات گنوائیں اور بتانے کی کوشش کی کہ یہ ایک ردِّ عمل ہے۔
شہزادہ ہلکا سا مسکرایا اور مجھے کہا ''کیا تم نے (Assisains) کے بارے میں کچھ پڑھا۔ پرنس چارلس کے لیے یہ بات تعجب کا باعث تھی کہ مجھے ایران کے قلعہ الموط کے حسن بن صباح کی تحریک کا پورا علم تھا۔ وہ شخص جس نے اپنی ایک خیالی جنت تخلیق کی تھی، جو چاہِ نخشب سے چاند نکالتا تھا۔ اپنے ماننے والوں کو حشیش پلاتا اور عین نشے کے عالم میں اس کے ساتھی ان کو اٹھا کر لے جاتے اور جنت میں چھوڑ دیتے۔ جہاں وہ حوروں، غلمانوں اور دیگر چیزوں کو دیکھتے۔ نشہ ٹوٹنے سے پہلے وہ انھیں واپس لے آتے۔ اس کے بعد حسن بن صباح ان سے کہتا، اب تم نے جنت دیکھ لی ہے۔ تم فلاں آدمی کو قتل کرو، اگر قتل کر دیا تو میری خوشنودی اور اگر مارے گئے تو شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
یوں نشے کے عالم میں لا کر '' برین واش'' کرنے کا یہ طریقہ اس نے شروع کیا۔ میں نے پرنس چارلس سے سوال کر دیا کہ اس طرح کے ایک گروہ (Cult) کا اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کیا کہیں کوئی اور جگہ اثر نظر آتا ہے۔ مسلمان جنگوں میں نکلتے رہے، مظالم کے سامنے سینہ سپر ہوتے رہے، شہید ہوتے رہے، کیا کوئی حسن بن صباح کو اپنا ہیرو مانتا ہے۔ ایسے گروہ تو موجودہ مغربی دنیا میں عام ہیں۔ بلکہ اکثر مافیا کے سربراہ باقاعدہ ہپناٹزم کو سائنسی طریقے پر استعمال کرتے ہیں اور وہ ادویات جنھیں (Hypno drugs) کہا جاتا ان کے استعمال کے بعد ترغیبات سے لوگوں کو جان کی بازی لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
ان میں ہر مذہب کے پیرو کار شامل ہوتے ہیں۔ کیا ان گروہوں کی وجہ سے تمام عیسائی، یہودی، یا ہندو شدت پسند ہو جائیں گے۔ شہزادہ خاموش ہو گیا اور بات کا رخ بدلتے ہوئے سامنے نظر آنے والی رنجیت سنگھ کی سمادھی کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پوری دنیا کے میڈیا نے خود کش حملوں کا ماخذ حسن بن صباح کی تحریک سے نکالا تھا۔ بلکہ کئی سو سال بعد یکدم اس گروہ پر بے شمار کتابیں مارکیٹ میں آنے لگی تھیں۔ انگریزی اخبارات کے مضامین سے اپنی علمی قابلیت بڑھانے والا ہر وہ شخص کس قدر یقین سے یہ بات کہہ دیتا تھا کہ یہ سب خود کش حملہ آور اسی طرح ''برین واش'' ہوتے ہیں جیسے (Assisains) کرتے تھے۔ لیکن عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی ہزیمت نے اس نظریے کا بھرم توڑ دیا۔
ایسا ہی ایک نظریہ شام اور عراق میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست اور داعش کے بارے میں اخبارات اور رسائل میں آجکل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں27 ستمبر کو ٹائمز رسالے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا گیا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ داعش دراصل اسلامی تاریخ میں ابھرنے والے ایک گروہ قرامطہ کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے تجزیے اب میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔ لیکن آئیں تاریخ کے تناظر میں دیکھیں کہ قرامطہ کون تھے۔
چھٹے امام حضرت جعفر صادق کے انتقال کے بعد امامت پر اختلاف ہوا۔ ان کے پانچ صاحبزادے تھے۔ عبداللہ اور اسماعیل بڑے تھے۔ جو ان کی پہلی بیوی فاطمہ کی اولاد سے تھے جو سیدنا امام حسنؓ کی پڑپوتی تھیں۔ انھوں نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ ان کے باقی تین صاحبزادے موسیٰ، اسحاق اور محمد ان کی دوسری بیوی حمیدہ کے بطن سے تھے جن کا تعلق سوڈان سے تھا۔ اہل تشیع کی ایک واضح اکثریت نے حضرت موسیٰ کاظم کو اپنا امام تسلیم کر لیا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ان کے بارے میں امام جعفر صادق کی وصیت موجود ہے۔ لیکن ایک گروہ نے نص اور نسب کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے بڑے بیٹے اسماعیل کو اپنا امام تسلیم کیا۔اسی زمانے میں ایک گروہ قرامطہ کے طور ابھرا۔ انھوں نے جنوبی عراق اور ایران کے بڑے حصے میں اپنی دعوت کو پھیلایا اور ایک فوج ترتیب دی۔
ان کا سب سے اہم مرکز بحرین تھا۔ یہیں انھوں نے الحسہ کو اپنا مرکز بنایا۔ ان کی تحریک متشدد تھی اور اپنے رہنما ابو طاہر الجنابی کی سرگردگی میں انھوں نے خانۂ کعبہ پر حملہ کر دیا۔ وہ حجاج کے قافلوں پر حملہ کرتے اور انھیں قتل کر دیتے۔ وہ حاجیوں کے روپ میں خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ انھوں نے وہاں بیس ہزار حجاجِ کرام کا قتل عام کیا۔ زم زم کے کنویں کو مسمار کر دیا اور حجر اسود کو اٹھا کر لے الحسہ گئے۔ ان کی طاقت اومان، یمن، اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ عباسی خلفاء ان کے علاقوں میں بے بس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد حجرا سود کو بہت زیادہ سرمایہ تاوان کے طور پر ادا کر کے واپس لایا گیا۔ ان کے ہاں پارسی مذہب کی روایات اور اسلام میں مہدی کی آمد کے تصورات کو اس طرح گڈ مڈ کیا گیا تھا کہ931 عیسوی میں جب زرتشت کی موت کے پندرہ سو سال پورے ہوئے تو ان کے رہنما ابو طاہر نے ایک ایرانی نوجوان کو گروہ کی قیادت سونپ دی، جس کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ یہی وہ مہدی ہے جس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
اس نے جھوٹا مہدی بنتے ہی اسلامی قوانین منسوخ کر دیے، نماز پر پابندی لگا دی، آگ کی پرستش کو جائز قرار دیا، اور انھی قرامطیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جنہوں نے اسے جھوٹامہدی بنایا تھا۔ اس نے ایک نئے دین کا آغاز کیا جسے وہ آدم علیہ اسلام کا دین کہتا تھا جس میں بقول اس کے سارے دین شامل تھے۔ اس نے اسیّ (80) دن حکومت کی اور بالآخر قرامطیوں نے ابوطاہر کی سربراہی ہی میں خود ہی اپنے بنائے ہوئے جھوٹے مہدی کو قتل کر دیا۔ آخرِ کار عباسی خلیفہ نے فاطمی حکومت اور بربر قبائل کی مدد سے قرامطیوں کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔
قرامطیہ کی تاریخ پر نظر دوڑانے کے بعد اور پھر ان کا موازنہ عراق اور شام میں بننے والی اسلامی ریاست کے جنگجوؤں سے کرتے ہوئے لکھے جانے والے مضامین پڑھتے ہوئے مجھے پرنس چارلس بہت یاد آیا۔ اسے کس قدر یقین تھا کہ مسلمانوں میں جو شدت پسندی آئی ہے اس کا کوئی تعلق اسرائیل کے صابرہ و شطیلہ کے کیمپوں کے مظالم سے نہیں، بوسینا میں پانچ سال قتل عام سے نہیں، کشمیر میں ایک لاکھ شہدا سے نہیں، عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو شہید کرنے، گھر مسمار کرنے، لوگوں کو دربدر کرنے سے نہیں ہے، بلکہ یہ تو چند ہزار لوگ ہیں جنھیں ایک خاص گروہ (Cult) مختلف طریقوں سے قائل کر کے، مسحور کر کے خواب دکھا کر ''برین واش'' کرتا ہے اور انھیں موت کی جانب دھکیلتا ہے۔
کس قدر طاقتور ہوتا ہے یہ میڈیا کا سحر اور اس کا پراپیگنڈہ۔ آجکل بھی جو تجزیہ داعش اور قرامطہ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد ایک ٹوئیٹر پیغام ہے جو ابوتراب المقداسی کے نام سے مشہور کیا گیا ہے کہ ہم خانہ کعبہ پر بھی ایک دن کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ جسے سعودی عرب کی خفیہ ایجنسیوں نے ہزار رنگ سے پیش کیا ہے۔ لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ وہ جو دنیا بھر کے میڈیا پر عا لمی حالات و واقعات کے دریا میں غوطہ زن خود کو عظیم ماہرین خیال کرتے ہیں، کیسے حکومتوں اور حکمرانوں کو ایک ایسا راستہ دکھاتے ہیں جس کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ یہ راستہ کیا ہے، جنگ میں کود پڑو تباہ و برباد کر دو، قابو پا لو، کمر توڑ دو، یہ مٹھی بھر لوگ ہیں ان کی اوقات ہی کیا ہے۔ لیکن پھر نہ حکومتیں اس دلدل سے نکل سکتی ہیں اور نہ عوام اس عذاب سے۔
برطانوی شہزادہ چارلس اپنی بیوی کامیلا پارکر کے ساتھ بادشاہی مسجد کی عمارت کے نقش و نگار اور فن تعمیر کے بارے میں سوالات کرتے کرتے اچانک مجھ سے پوچھنے لگا، ''اس قدر متحمل مزاج، ادب اور فن کے دلدادہ مسلمان آج کل اسقدر شدت پسند کیوں ہیں کہ خود کش حملوں پر اتر آئے ہیں''۔ میں نے مختصر طور پر جنگ عظیم اوّل سے اسرائیل کے قیام اور عراق، افغانستان تک وجوہات گنوائیں اور بتانے کی کوشش کی کہ یہ ایک ردِّ عمل ہے۔
شہزادہ ہلکا سا مسکرایا اور مجھے کہا ''کیا تم نے (Assisains) کے بارے میں کچھ پڑھا۔ پرنس چارلس کے لیے یہ بات تعجب کا باعث تھی کہ مجھے ایران کے قلعہ الموط کے حسن بن صباح کی تحریک کا پورا علم تھا۔ وہ شخص جس نے اپنی ایک خیالی جنت تخلیق کی تھی، جو چاہِ نخشب سے چاند نکالتا تھا۔ اپنے ماننے والوں کو حشیش پلاتا اور عین نشے کے عالم میں اس کے ساتھی ان کو اٹھا کر لے جاتے اور جنت میں چھوڑ دیتے۔ جہاں وہ حوروں، غلمانوں اور دیگر چیزوں کو دیکھتے۔ نشہ ٹوٹنے سے پہلے وہ انھیں واپس لے آتے۔ اس کے بعد حسن بن صباح ان سے کہتا، اب تم نے جنت دیکھ لی ہے۔ تم فلاں آدمی کو قتل کرو، اگر قتل کر دیا تو میری خوشنودی اور اگر مارے گئے تو شہید ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔
یوں نشے کے عالم میں لا کر '' برین واش'' کرنے کا یہ طریقہ اس نے شروع کیا۔ میں نے پرنس چارلس سے سوال کر دیا کہ اس طرح کے ایک گروہ (Cult) کا اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں کیا کہیں کوئی اور جگہ اثر نظر آتا ہے۔ مسلمان جنگوں میں نکلتے رہے، مظالم کے سامنے سینہ سپر ہوتے رہے، شہید ہوتے رہے، کیا کوئی حسن بن صباح کو اپنا ہیرو مانتا ہے۔ ایسے گروہ تو موجودہ مغربی دنیا میں عام ہیں۔ بلکہ اکثر مافیا کے سربراہ باقاعدہ ہپناٹزم کو سائنسی طریقے پر استعمال کرتے ہیں اور وہ ادویات جنھیں (Hypno drugs) کہا جاتا ان کے استعمال کے بعد ترغیبات سے لوگوں کو جان کی بازی لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔
ان میں ہر مذہب کے پیرو کار شامل ہوتے ہیں۔ کیا ان گروہوں کی وجہ سے تمام عیسائی، یہودی، یا ہندو شدت پسند ہو جائیں گے۔ شہزادہ خاموش ہو گیا اور بات کا رخ بدلتے ہوئے سامنے نظر آنے والی رنجیت سنگھ کی سمادھی کے بارے میں سوال کرنے لگا۔ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پوری دنیا کے میڈیا نے خود کش حملوں کا ماخذ حسن بن صباح کی تحریک سے نکالا تھا۔ بلکہ کئی سو سال بعد یکدم اس گروہ پر بے شمار کتابیں مارکیٹ میں آنے لگی تھیں۔ انگریزی اخبارات کے مضامین سے اپنی علمی قابلیت بڑھانے والا ہر وہ شخص کس قدر یقین سے یہ بات کہہ دیتا تھا کہ یہ سب خود کش حملہ آور اسی طرح ''برین واش'' ہوتے ہیں جیسے (Assisains) کرتے تھے۔ لیکن عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی ہزیمت نے اس نظریے کا بھرم توڑ دیا۔
ایسا ہی ایک نظریہ شام اور عراق میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست اور داعش کے بارے میں اخبارات اور رسائل میں آجکل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں27 ستمبر کو ٹائمز رسالے میں ایک تفصیلی مضمون لکھا گیا۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ داعش دراصل اسلامی تاریخ میں ابھرنے والے ایک گروہ قرامطہ کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے تجزیے اب میڈیا کی زینت بنتے رہیں گے۔ لیکن آئیں تاریخ کے تناظر میں دیکھیں کہ قرامطہ کون تھے۔
چھٹے امام حضرت جعفر صادق کے انتقال کے بعد امامت پر اختلاف ہوا۔ ان کے پانچ صاحبزادے تھے۔ عبداللہ اور اسماعیل بڑے تھے۔ جو ان کی پہلی بیوی فاطمہ کی اولاد سے تھے جو سیدنا امام حسنؓ کی پڑپوتی تھیں۔ انھوں نے ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کی۔ ان کے باقی تین صاحبزادے موسیٰ، اسحاق اور محمد ان کی دوسری بیوی حمیدہ کے بطن سے تھے جن کا تعلق سوڈان سے تھا۔ اہل تشیع کی ایک واضح اکثریت نے حضرت موسیٰ کاظم کو اپنا امام تسلیم کر لیا کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ان کے بارے میں امام جعفر صادق کی وصیت موجود ہے۔ لیکن ایک گروہ نے نص اور نسب کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے بڑے بیٹے اسماعیل کو اپنا امام تسلیم کیا۔اسی زمانے میں ایک گروہ قرامطہ کے طور ابھرا۔ انھوں نے جنوبی عراق اور ایران کے بڑے حصے میں اپنی دعوت کو پھیلایا اور ایک فوج ترتیب دی۔
ان کا سب سے اہم مرکز بحرین تھا۔ یہیں انھوں نے الحسہ کو اپنا مرکز بنایا۔ ان کی تحریک متشدد تھی اور اپنے رہنما ابو طاہر الجنابی کی سرگردگی میں انھوں نے خانۂ کعبہ پر حملہ کر دیا۔ وہ حجاج کے قافلوں پر حملہ کرتے اور انھیں قتل کر دیتے۔ وہ حاجیوں کے روپ میں خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ انھوں نے وہاں بیس ہزار حجاجِ کرام کا قتل عام کیا۔ زم زم کے کنویں کو مسمار کر دیا اور حجر اسود کو اٹھا کر لے الحسہ گئے۔ ان کی طاقت اومان، یمن، اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی۔ عباسی خلفاء ان کے علاقوں میں بے بس تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد حجرا سود کو بہت زیادہ سرمایہ تاوان کے طور پر ادا کر کے واپس لایا گیا۔ ان کے ہاں پارسی مذہب کی روایات اور اسلام میں مہدی کی آمد کے تصورات کو اس طرح گڈ مڈ کیا گیا تھا کہ931 عیسوی میں جب زرتشت کی موت کے پندرہ سو سال پورے ہوئے تو ان کے رہنما ابو طاہر نے ایک ایرانی نوجوان کو گروہ کی قیادت سونپ دی، جس کے بارے میں یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا کہ یہی وہ مہدی ہے جس کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
اس نے جھوٹا مہدی بنتے ہی اسلامی قوانین منسوخ کر دیے، نماز پر پابندی لگا دی، آگ کی پرستش کو جائز قرار دیا، اور انھی قرامطیوں کو قتل کرنا شروع کر دیا جنہوں نے اسے جھوٹامہدی بنایا تھا۔ اس نے ایک نئے دین کا آغاز کیا جسے وہ آدم علیہ اسلام کا دین کہتا تھا جس میں بقول اس کے سارے دین شامل تھے۔ اس نے اسیّ (80) دن حکومت کی اور بالآخر قرامطیوں نے ابوطاہر کی سربراہی ہی میں خود ہی اپنے بنائے ہوئے جھوٹے مہدی کو قتل کر دیا۔ آخرِ کار عباسی خلیفہ نے فاطمی حکومت اور بربر قبائل کی مدد سے قرامطیوں کو بدترین شکست سے دو چار کیا۔
قرامطیہ کی تاریخ پر نظر دوڑانے کے بعد اور پھر ان کا موازنہ عراق اور شام میں بننے والی اسلامی ریاست کے جنگجوؤں سے کرتے ہوئے لکھے جانے والے مضامین پڑھتے ہوئے مجھے پرنس چارلس بہت یاد آیا۔ اسے کس قدر یقین تھا کہ مسلمانوں میں جو شدت پسندی آئی ہے اس کا کوئی تعلق اسرائیل کے صابرہ و شطیلہ کے کیمپوں کے مظالم سے نہیں، بوسینا میں پانچ سال قتل عام سے نہیں، کشمیر میں ایک لاکھ شہدا سے نہیں، عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کو شہید کرنے، گھر مسمار کرنے، لوگوں کو دربدر کرنے سے نہیں ہے، بلکہ یہ تو چند ہزار لوگ ہیں جنھیں ایک خاص گروہ (Cult) مختلف طریقوں سے قائل کر کے، مسحور کر کے خواب دکھا کر ''برین واش'' کرتا ہے اور انھیں موت کی جانب دھکیلتا ہے۔
کس قدر طاقتور ہوتا ہے یہ میڈیا کا سحر اور اس کا پراپیگنڈہ۔ آجکل بھی جو تجزیہ داعش اور قرامطہ کے حوالے سے کیا جا رہا ہے اس کی بنیاد ایک ٹوئیٹر پیغام ہے جو ابوتراب المقداسی کے نام سے مشہور کیا گیا ہے کہ ہم خانہ کعبہ پر بھی ایک دن کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ جسے سعودی عرب کی خفیہ ایجنسیوں نے ہزار رنگ سے پیش کیا ہے۔ لیکن حیرت اس بات کی ہے کہ وہ جو دنیا بھر کے میڈیا پر عا لمی حالات و واقعات کے دریا میں غوطہ زن خود کو عظیم ماہرین خیال کرتے ہیں، کیسے حکومتوں اور حکمرانوں کو ایک ایسا راستہ دکھاتے ہیں جس کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ یہ راستہ کیا ہے، جنگ میں کود پڑو تباہ و برباد کر دو، قابو پا لو، کمر توڑ دو، یہ مٹھی بھر لوگ ہیں ان کی اوقات ہی کیا ہے۔ لیکن پھر نہ حکومتیں اس دلدل سے نکل سکتی ہیں اور نہ عوام اس عذاب سے۔