کرپشن اور بدامنی کا شکار سندھ
سندھ میں کرپشن اور بدامنی مارشل لا کے بعد ہر دور میں رہی اوراغوا برائے تاوان کی وارداتیں اندرون سندھ سے شروع ہوئی تھیں
پنجاب اور سندھ ملک کے وہ صوبے ہیں جہاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی گزشتہ ساڑھے چھ سالوں سے حکمران ہیں اور شہباز شریف کے مقابلے میں قائم علی شاہ نہ صرف سینئر وزیر اعلیٰ ہیں بلکہ ان کا کہنے کی حد تک بھرپور اقتدار کا عرصہ شہباز شریف سے زیادہ ہے۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو دور میں صوبائی مشیر، بے نظیر بھٹو دور میں وزیر اعلیٰ سندھ رہے اور 2008 سے وہ آصف علی زرداری کو اس قدر عزیز رہے ہیں کہ پورے 5 سال وزیر اعلیٰ رکھے جانے کے بعد سندھ میں کوئی اور شخص سابق صدر کی نگاہوں میں نہیں جچا اور ضعیفی کے باوجود وہ 2013 میں بھی وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ اتنے طویل عرصے وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز قائم علی شاہ کے پاس ہے۔ اس لیے وہ ایسے تجربہ کار وزیر اعلیٰ کہے جاسکتے ہیں جو سندھ کی رگ رگ سے واقف اور اپنے پارٹی عہدیداروں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں مگر اس کے باوجود سندھ گزشتہ ساڑھے چھ سالوں سے کرپشن اور بدامنی کا شکار ہی نہیں بلکہ ان معاملات میں دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
کرپشن کے معاملے میں تو سندھ کے اضلاع کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر بدامنی میں وزیر اعلیٰ سندھ کا اپنا ضلع خیرپور سب سے آگے ہے۔ قومی شاہراہ پر واقع ضلع خیرپور کی وسیع حدود ہے جہاں سے روزانہ اندرون ملک کی ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ضلع خیرپور کو اپنے شہر کے وزیر اعلیٰ کے دور میں بھی امن نصیب نہیں ہوا اور ساڑھے چھ سالوں میں اغوا برائے تاوان، رہزنی اور ڈکیتیوں میں خیرپور کسی اور ضلع سے کم نہیں رہا۔ جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں خیرپور کے 10 ڈی پی اوز تبدیل کیے جاچکے ہیں جب کسی ضلع میں ڈی پی او کو دو تین مہینے ٹکنے نہیں دیا جائے گا تو وہاں کون سا پولیس افسر کامیاب ہوسکے گا ۔ یہ سوچنا شاید سندھ کے محکمہ داخلہ کا کام نہیں ہے اور اسی ضلع کے سربراہ بھی یہ نہیں سوچ رہے کہ 10 ڈی پی اوز کی تقرری خیرپور کو امن کیوں نہیں دے پائی اور مذکورہ ضلع اتنا غیر محفوظ کیوں ہے۔ سندھ کا کوئی ایک ضلع بھی پرامن ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
سندھ میں ایک اور اہم سیاسی شخصیت سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور آصف علی زرداری کے دست راست آغا سراج خان درانی کی ہے جو گزشتہ پی پی دور کی ہر حکومت میں وزیر رہے اور قائم علی شاہ کی 5 سالہ حکومت سندھ کے سب سے زیادہ با اثر وزیر بلدیات رہے اور ان کا اپنا ضلع شکار پور بھی گزشتہ ساڑھے چھ سالوں سے بدامنی کا شکار ہے جس پر آغا سراج خود متعدد بار پولیس پر برس چکے ہیں ۔
اندرون سندھ کرپشن اور بدامنی کی خبروں سے سندھی اخبار بھرے پڑے ہیں اور وہ سندھ کی حقیقی ترجمانی کر رہے ہیں جب کہ سندھ کے اردو اخباروں کو کراچی کی بدامنی کی خبریں چھاپنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ جب کہ ٹی وی چینلز پر اندرون سندھ کی بدامنی کی صرف اہم خبریں ہی جگہ حاصل کرتی ہیں ۔سندھ میں وڈیرہ شاہی نظام ہمیشہ رہا ہے اور سندھ کے وڈیرے ہمیشہ برسر اقتدار پارٹی میں رہے ہیں ۔ سندھ میں شاید ہی کوئی بڑا وڈیرہ ایسا ہو جو اب تک اقتدار میں آنے والی کسی بھی پارٹی میں نہ رہا ہو ۔
1970 کے عام انتخابات میں سندھ میں پی پی کے ٹکٹ پر عام پارٹی عہدیداروں کے ساتھ وڈیرے بھی منتخب ہوئے تھے اور پھر انھوں نے پی پی کو اپنے ایسے شکنجے میں جکڑ لیا کہ بھٹو خود 1977 میں وڈیروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بھٹو دور میں سندھ کا ہر اہم وڈیرہ پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا اور مسلم لیگ کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا میں سندھ کے وڈیرے ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما ممتازعلی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے لوگ بھی پی پی سے دور ہوگئے تھے اور غلام مصطفیٰ جتوئی، مخدوم خاندان جیسے کم تھے جو پی پی کے ساتھ رہے اور بہت سے سینئر رہنما اور انکلز بے نظیر بھٹو دور میں نظرانداز کیے جانے کے باعث پی پی چھوڑ گئے جن میں کچھ مسلم لیگ میں آگئے تھے مگر صدر زرداری کے دور میں سندھ کے وڈیروں کی اکثریت واپس پی پی میں آگئی اور جو نہیں آسکے اس کی وجہ سیاسی مفاد تھا اور باقی نے فنکشنل لیگ میں عافیت تلاش کرلی تھی۔
سندھ میں کرپشن اور بدامنی مارشل لا کے بعد ہر دور میں رہی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اندرون سندھ سے شروع ہوئی تھیں جو بعد میں ملک بھر میں پھیلیں اور وزیر اعظم نواز شریف کو سندھ میں آپریشن کرانا پڑا تھا جس کے اچھے نتائج بھی برآمد ہوئے تھے جو بعد میں برقرار نہ رہ سکے اور اس میں کسی حد تک کمی جنرل مشرف کے دور میں آئی مگر محترمہ کے بعد قائم ہونے والی قائم علی شاہ حکومت میں پھر بڑھ گئی اور ذوالفقار مرزا جیسا بااختیار وزیر داخلہ بھی سندھ میں امن وامان بحال نہ کرا سکا اور بعض معاملات کی وجہ سے استعفیٰ دے کر گھر جا بیٹھا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی سب سے مقبول اور ساڑھے چھ سال سے حکمران جماعت ہے مگر سندھ میں امن نہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سندھ کے اکثر اہم وڈیرے پیپلزپارٹی میں شامل ہیں اور صرف ممتاز بھٹو، شیرازی، لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم ودیگر قابل ذکر وڈیرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ مہروں کا سردار گھرانہ پی پی پی میں اور دوسرا غوث بخش گھرانہ فنکشنل لیگ میں اور اپوزیشن لیڈر ہے جب کہ (ن) لیگ کا وجود اب سندھ میں قابل ذکر نہیں رہا ہے۔
ارکان اسمبلی، وزیروں، پی پی عہدیداروں کی کرپشن کی شکایات تو پی پی جلسوں میں عام ہوتی جا رہی ہیں جب کہ بااثر وڈیروں اور پی پی ارکان اسمبلی نے اپنے علاقوں میں مرضی کے پولیس افسر تعینات کرانا معمول بنا رکھا ہے جو پولیس افسر ان کی نہ مانے اسے تبدیل کرادیا جاتا ہے جو ان کی خوشامد کرے وہ برقرار رہتا ہے۔ وڈیروں کی اپنی کمیٹیاں اور کچے میں محفوظ علاقے ہیں جہاں جرائم پیشہ عناصر پناہ لیتے ہیں مگر کسی پولیس افسر میں وہاں چھاپہ مارنے کی ہمت نہیں تو سندھ میں امن کہاں سے واپس آسکتا ہے جو اب خواب ہوچکا ہے۔
پیرپگاڑا مرحوم نے تو کہا تھا کہ سندھ میں قائم علی شاہ ہی نہیں بلکہ چار وزرائے اعلیٰ ہیں اور اس وقت اندرون خانہ آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات کا مرکزکہا جاتا تھا جب کہ زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا بھی سندھ میں اہم کردار بتایا جاتا تھا مگر کسی کے اہم کردار سے سندھ کو امن نہیں مل سکا جو اس کی بنیادی ضرورت ہے۔اور آج بھی سندھ کرپشن اور بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے جب کہ وفاقی حکومت مجبور ہے اور اب پہلے کی طرح سندھ میں بدامنی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ امن وامان برقرار رکھنا اب وفاقی حکومت کا درد سر نہیں بلکہ اب یہ صوبوں کا مسئلہ ہے۔
وہ ذوالفقار علی بھٹو دور میں صوبائی مشیر، بے نظیر بھٹو دور میں وزیر اعلیٰ سندھ رہے اور 2008 سے وہ آصف علی زرداری کو اس قدر عزیز رہے ہیں کہ پورے 5 سال وزیر اعلیٰ رکھے جانے کے بعد سندھ میں کوئی اور شخص سابق صدر کی نگاہوں میں نہیں جچا اور ضعیفی کے باوجود وہ 2013 میں بھی وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ اتنے طویل عرصے وزیر اعلیٰ رہنے کا اعزاز قائم علی شاہ کے پاس ہے۔ اس لیے وہ ایسے تجربہ کار وزیر اعلیٰ کہے جاسکتے ہیں جو سندھ کی رگ رگ سے واقف اور اپنے پارٹی عہدیداروں کو سب سے زیادہ جانتے ہیں مگر اس کے باوجود سندھ گزشتہ ساڑھے چھ سالوں سے کرپشن اور بدامنی کا شکار ہی نہیں بلکہ ان معاملات میں دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
کرپشن کے معاملے میں تو سندھ کے اضلاع کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا مگر بدامنی میں وزیر اعلیٰ سندھ کا اپنا ضلع خیرپور سب سے آگے ہے۔ قومی شاہراہ پر واقع ضلع خیرپور کی وسیع حدود ہے جہاں سے روزانہ اندرون ملک کی ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ضلع خیرپور کو اپنے شہر کے وزیر اعلیٰ کے دور میں بھی امن نصیب نہیں ہوا اور ساڑھے چھ سالوں میں اغوا برائے تاوان، رہزنی اور ڈکیتیوں میں خیرپور کسی اور ضلع سے کم نہیں رہا۔ جس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سالوں میں خیرپور کے 10 ڈی پی اوز تبدیل کیے جاچکے ہیں جب کسی ضلع میں ڈی پی او کو دو تین مہینے ٹکنے نہیں دیا جائے گا تو وہاں کون سا پولیس افسر کامیاب ہوسکے گا ۔ یہ سوچنا شاید سندھ کے محکمہ داخلہ کا کام نہیں ہے اور اسی ضلع کے سربراہ بھی یہ نہیں سوچ رہے کہ 10 ڈی پی اوز کی تقرری خیرپور کو امن کیوں نہیں دے پائی اور مذکورہ ضلع اتنا غیر محفوظ کیوں ہے۔ سندھ کا کوئی ایک ضلع بھی پرامن ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔
سندھ میں ایک اور اہم سیاسی شخصیت سندھ اسمبلی کے اسپیکر اور آصف علی زرداری کے دست راست آغا سراج خان درانی کی ہے جو گزشتہ پی پی دور کی ہر حکومت میں وزیر رہے اور قائم علی شاہ کی 5 سالہ حکومت سندھ کے سب سے زیادہ با اثر وزیر بلدیات رہے اور ان کا اپنا ضلع شکار پور بھی گزشتہ ساڑھے چھ سالوں سے بدامنی کا شکار ہے جس پر آغا سراج خود متعدد بار پولیس پر برس چکے ہیں ۔
اندرون سندھ کرپشن اور بدامنی کی خبروں سے سندھی اخبار بھرے پڑے ہیں اور وہ سندھ کی حقیقی ترجمانی کر رہے ہیں جب کہ سندھ کے اردو اخباروں کو کراچی کی بدامنی کی خبریں چھاپنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ جب کہ ٹی وی چینلز پر اندرون سندھ کی بدامنی کی صرف اہم خبریں ہی جگہ حاصل کرتی ہیں ۔سندھ میں وڈیرہ شاہی نظام ہمیشہ رہا ہے اور سندھ کے وڈیرے ہمیشہ برسر اقتدار پارٹی میں رہے ہیں ۔ سندھ میں شاید ہی کوئی بڑا وڈیرہ ایسا ہو جو اب تک اقتدار میں آنے والی کسی بھی پارٹی میں نہ رہا ہو ۔
1970 کے عام انتخابات میں سندھ میں پی پی کے ٹکٹ پر عام پارٹی عہدیداروں کے ساتھ وڈیرے بھی منتخب ہوئے تھے اور پھر انھوں نے پی پی کو اپنے ایسے شکنجے میں جکڑ لیا کہ بھٹو خود 1977 میں وڈیروں کو ٹکٹ دینے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بھٹو دور میں سندھ کا ہر اہم وڈیرہ پیپلزپارٹی کے ساتھ تھا اور مسلم لیگ کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ جنرل ضیا الحق کے طویل مارشل لا میں سندھ کے وڈیرے ہی نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کے اہم رہنما ممتازعلی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ جیسے لوگ بھی پی پی سے دور ہوگئے تھے اور غلام مصطفیٰ جتوئی، مخدوم خاندان جیسے کم تھے جو پی پی کے ساتھ رہے اور بہت سے سینئر رہنما اور انکلز بے نظیر بھٹو دور میں نظرانداز کیے جانے کے باعث پی پی چھوڑ گئے جن میں کچھ مسلم لیگ میں آگئے تھے مگر صدر زرداری کے دور میں سندھ کے وڈیروں کی اکثریت واپس پی پی میں آگئی اور جو نہیں آسکے اس کی وجہ سیاسی مفاد تھا اور باقی نے فنکشنل لیگ میں عافیت تلاش کرلی تھی۔
سندھ میں کرپشن اور بدامنی مارشل لا کے بعد ہر دور میں رہی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں اندرون سندھ سے شروع ہوئی تھیں جو بعد میں ملک بھر میں پھیلیں اور وزیر اعظم نواز شریف کو سندھ میں آپریشن کرانا پڑا تھا جس کے اچھے نتائج بھی برآمد ہوئے تھے جو بعد میں برقرار نہ رہ سکے اور اس میں کسی حد تک کمی جنرل مشرف کے دور میں آئی مگر محترمہ کے بعد قائم ہونے والی قائم علی شاہ حکومت میں پھر بڑھ گئی اور ذوالفقار مرزا جیسا بااختیار وزیر داخلہ بھی سندھ میں امن وامان بحال نہ کرا سکا اور بعض معاملات کی وجہ سے استعفیٰ دے کر گھر جا بیٹھا۔
سندھ میں پیپلزپارٹی سب سے مقبول اور ساڑھے چھ سال سے حکمران جماعت ہے مگر سندھ میں امن نہیں اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ سندھ کے اکثر اہم وڈیرے پیپلزپارٹی میں شامل ہیں اور صرف ممتاز بھٹو، شیرازی، لیاقت جتوئی اور ارباب غلام رحیم ودیگر قابل ذکر وڈیرے ہی باقی رہ گئے ہیں۔ مہروں کا سردار گھرانہ پی پی پی میں اور دوسرا غوث بخش گھرانہ فنکشنل لیگ میں اور اپوزیشن لیڈر ہے جب کہ (ن) لیگ کا وجود اب سندھ میں قابل ذکر نہیں رہا ہے۔
ارکان اسمبلی، وزیروں، پی پی عہدیداروں کی کرپشن کی شکایات تو پی پی جلسوں میں عام ہوتی جا رہی ہیں جب کہ بااثر وڈیروں اور پی پی ارکان اسمبلی نے اپنے علاقوں میں مرضی کے پولیس افسر تعینات کرانا معمول بنا رکھا ہے جو پولیس افسر ان کی نہ مانے اسے تبدیل کرادیا جاتا ہے جو ان کی خوشامد کرے وہ برقرار رہتا ہے۔ وڈیروں کی اپنی کمیٹیاں اور کچے میں محفوظ علاقے ہیں جہاں جرائم پیشہ عناصر پناہ لیتے ہیں مگر کسی پولیس افسر میں وہاں چھاپہ مارنے کی ہمت نہیں تو سندھ میں امن کہاں سے واپس آسکتا ہے جو اب خواب ہوچکا ہے۔
پیرپگاڑا مرحوم نے تو کہا تھا کہ سندھ میں قائم علی شاہ ہی نہیں بلکہ چار وزرائے اعلیٰ ہیں اور اس وقت اندرون خانہ آصف علی زرداری کے منہ بولے بھائی اویس مظفر کو وزیر اعلیٰ کے اختیارات کا مرکزکہا جاتا تھا جب کہ زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کا بھی سندھ میں اہم کردار بتایا جاتا تھا مگر کسی کے اہم کردار سے سندھ کو امن نہیں مل سکا جو اس کی بنیادی ضرورت ہے۔اور آج بھی سندھ کرپشن اور بدامنی کی آگ میں جل رہا ہے جب کہ وفاقی حکومت مجبور ہے اور اب پہلے کی طرح سندھ میں بدامنی ختم کرنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتی کیونکہ امن وامان برقرار رکھنا اب وفاقی حکومت کا درد سر نہیں بلکہ اب یہ صوبوں کا مسئلہ ہے۔