زمانہ تحصیل
ایک شام عطیہ بیگم فیضی اپنی ایک سہیلی مس فرتھ کے ساتھ برٹش میوزیم دیکھنے گئیں۔۔۔
1906 میں برطانوی ہند کی حکومت نے دو خواتین ایک ہندو اور ایک مسلمان کو انگلینڈ میں ٹیچرز ٹریننگ کے لیے وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔ مسلمان عطیہ بیگم فیضی تھیں۔ یہ لندن گئیں اور ایک سال اور ایک ماہ وہاں رہیں۔ اس دوران میں وہ بیمار ہوگئیں اور اپنی تربیت جس کی مدت دو سال تھی، پوری کیے بغیر ہندوستان واپس آگئیں۔ عطیہ فیضی نے اپنے لندن کے سفر اور وہاں قیام کی داستان ڈائری کی شکل میں لکھی ہے۔ ان کے خاندان کے بانی طیب جی نے جن کا تعلق سلیمانی بوہرہ جماعت سے تھا، اپنے خاندان میں ''کتاب اخبار'' کے نام سے ڈائری یا روزنامچہ لکھنے کا سلسلہ قائم کیا۔ ان کی زبان گجراتی تھی مگر تحریر اردو میں تھی۔ اس روزنامچے میں گھر کے تمام افراد اہم واقعات کی تاریخ وار درج کرتے تھے۔ بعد میں ان کی اولاد نے یہ سلسلہ جاری رکھا۔
عطیہ بیگم فیضی نے اپنا سفر لندن ڈائری کی شکل میں لکھا ہے۔ اس میں تاریخ وار اپنی روزانہ کی مصروفیات کا ذکر ہے۔ وہ اپنی ڈائری کے اوراق مکتوب کی صورت میں اپنی بہن زہرا بیگم کو بھیجتیں جو یہاں ''تہذیب نسواں'' میں شایع ہوتے اور دلچسپی سے پڑھے جاتے۔ بعد میں یہ ''زمانہ تحصیل'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوگئے۔ اب محمد یامین عثمان نے بڑی محنت سے وضاحت و تشریح کے ساتھ یہ نادر و نایاب خود نوشت شایع کی ہے۔ اپنے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ''اس کتاب کی سب سے بڑی خصوصیت اور اہمیت یہ ہے کہ اس کی مصنفہ جن کا تعلق ایک ایسے معاشرے سے تھا جہاں گھر کے اندر بھی خواتین کی تعلیم کو جائز نہیں سمجھا جاتا تھا، نہ صرف اپنے وطن سے سات سمندر پار تعلیم حاصل کرنے گئیں بلکہ اپنے سفر کے پہلے دن سے آخری دن تک کی اپنی سرگرمیوں سے اپنے ملک کی خواتین کو آگاہ رکھا۔ زمانہ تحصیل ان کی اردو میں واحد تصنیف ہے۔ باقی سب کتابیں انگریزی میں ہیں۔
عطیہ فیضی نے اپنے لندن کے سفر اور وہاں قیام کے واقعات کو نہ صرف بیان کیا ہے اس میں ان کا مشاہدہ اور تبصرہ بھی شامل ہے۔ ان کے تبصروں سے ان کی سوچ کا اظہار ہوتا ہے۔ وہ یکم ستمبر 1906 کو بمبئی میں جہاز پر سوار ہوئیں۔ان کے ایک بھائی ڈاکٹر علی ازہر فیضی اور بھتیجا طیب علی اکبر بھی ان کے ساتھ تھے۔ ہندو وظیفہ یاب خاتون مسز متر بھی ان کے ساتھ جا رہی تھیں۔ مسز سروجنی نائیڈو بھی ہم سفر تھیں۔ ان تینوں کا کیبن جہاز کے بالائی حصے میں تھا۔ یہ فرسٹ کلاس کیبن تھے۔ سفر کی ابتدا ہی میں عطیہ فیضی کو سمندری طوفان کا سامنا ہوا مگر ان کی طبیعت ٹھیک رہی۔ ان کے پہلے خطوط میں جہاز کی کیفیت، مسافروں کے احوال کھانے پینے اور ملنے ملانے کا ذکر ہے۔ لکھتی ہیں ''شب کوعرشے پر بیٹھنا بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے خصوصاً جب چاندنی چھٹکی ہوئی ہوتی ہے۔'' عدن سے گزرتا ہوا نہر سوئز کو عبور کر کے جہاز پورٹ سعید پہنچا اور وہاں سے 16 ستمبر کو مارسیلز۔ یہاں اتر کر ریل میں سوار ہوکر آگے جانا تھا ۔ عطیہ نے مارسیلز کی سیر کی جو پرلطف تھی۔ وہ لکھتی ہیں ''راستے میں عمدہ انگور چار آنے کے خریدے، ہم چار پانچ نے شکم سیر ہوکر کھائے۔'' فرانس کے صدر اس دن وہاں آنے والے تھے اور شہر کو خوب سجایا گیا تھا۔ مارسیلز سے 17 ستمبر کو عطیہ بیگم لندن پہنچیں۔
لندن میں عطیہ کا قیام ونکوورتھ ہال کے ہوسٹل میں تھا۔ لکھتی ہیں ''میرا کمرہ بہت بڑا اور آرام کا ہے۔ ایک بڑی الماری، ایک وارڈ روب، ایک لکھنے کی اچھی میز، ایک آرام دہ کرسی، دو چوکیاں، کمرے کی ضروریات سب متصل جس سے واقعی بہت راحت ہے۔''
اپنے کالج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں ''کوئی لڑکی انیس برس کے اندر ٹریننگ کالج میں داخل نہیں ہوسکتی۔ سب الگ الگ چیزوں کے لیے تعلیم پاتی ہیں۔ کوئی ہائی اسکول ٹریننگ کے لیے، کوئی آرٹ کے لیے،کوئی کنڈرگارٹن کے لیے یعنی جیسا رجحان اور صلاحیت ہو۔'' 19 ستمبر کو عطیہ فیضی کا کالج کھلا۔ پرنسپل مس وڈز سے ملاقات ہوئی اور ساتھی طالبات سے تعارف۔ کالج کے اوقات کار کے بارے میں 24 ستمبر کے روزنامچے میں لکھتی ہیں۔ ''دس بجنے میں دس منٹ کم پر حاضر ہونا پڑتا ہے، برابر دس بجے استانیاں آتی ہیں اور متفرق علم سکھایا جاتا ہے۔ایک بجے ہم ہوسٹل آئے، کھانا کھایا، جو لیکچر دیا گیا تھا اس کے نوٹس لکھ لیے، دو بجنے میں پانچ منٹ کم پر پھر کلاس میں پہنچ گئے۔ چار بجے واپس ہوسٹل اور شام کو کھیل اور تفریح۔
عطیہ فیضی کے روزنامچے سے معلوم ہوتا ہے کہ لندن کی اعلیٰ سوسائٹی میں ان کی کس قدر پذیرائی ہوئی۔ اپنی تعلیم کی نوعیت کا ذکر کرتے ہوئے وہ29 ستمبر کی ڈائری میں لکھتی ہیں ''کالج میں داخل ہونے سے پہلے اصلی علم (Elementary Knowledge) ہم کو آتا تھا، اب تعلیم کا خیالی نقشہ (Theory of Education) پڑھنا اور دوسروں کو تعلیم دینے کی مشق کرنا ہے۔'' آگے چل کر لکھتی ہیں''دیگر علوم کی مجھے پرواہ نہیں، مگر ان تعلیم کی تاریخ! اس کا مطلب یہ ہے کہ ازل سے آج تک تمام زمانے میں تعلیم کیوں کر پھیلی اور کہاں سے ہوتے ہوا لے آئی اور کیوں اور کس طرح کا اثر زمانے پر پڑتا گیا۔ یہ علم بہت ہی پرلطف ہے۔''
ان ہی دنوں میں''لیڈیز پکٹوریل''کی ایڈیٹر نے عطیہ فیضی کا انٹرویو لیا، جو ان کی تصویر کے ساتھ رسالے میں شایع ہوا۔ انھیں لندن میں انڈین نیشنل ایسوسی ایشن کا ممبر بھی بنا لیا گیا جو ایک بڑا اعزاز تھا۔ نومبر کے مہینے میں لندن میں کافی سردی تھی۔ لکھتی ہیں ''جاڑا خوب ہی ہو رہا ہے۔ 29 درجے تک آلہ پہنچ گیا ہے۔ تمام راستہ باریک پتلی پتلی برف سے بھر گیا ہے۔ کتنا خوبصورت، ایک قسم کی خوشی ہوتی ہے ایسی نفیس چیز کو دیکھنے سے۔''
ایک شام عطیہ بیگم فیضی اپنی ایک سہیلی مس فرتھ کے ساتھ برٹش میوزیم دیکھنے گئیں۔ لکھتی ہیں ''اس عجائب خانے میں کتب خانہ ہے جہاں کتب بینی کی جگہ ہے۔ اس کمرے کی زمین موٹے ربڑ کی ہے کہ چلنے میں آواز نہ ہو۔ کمرہ مدور ہے۔ خاصے ہزار آدمی ایک وقت بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں مگر بناوٹ کی خوبی کا کیا ذکر کروں۔ تمام میزوں کی قطار اور چوگرد دیوار جس میں پچاس ساٹھ لاکھ کتابیں۔ کوئی کتاب ایسی نہیں جو شایع ہوئی ہو اور وہاں موجود نہ ہو۔'' ایک مرتبہ عطیہ فیضی کو ''ٹیوب'' میں سفر کرنے کا موقع ملا۔ وہQ خاصی حیران ہوئیں۔ لکھتی ہیں ''افو! کیا تیزی اورکیا انتظام ہے۔ ختم ہے ان لوگوں کی ایجاد پر۔ دم بہ دم یہ چھوٹی سی ریل آتی جاتی ہے۔ لوگ تیارکھڑے رہتے ہیں اور سوار ہوجاتے ہیں، ادھر چلی اور لحظہ بھر میں پھر موجود ۔ بالکل جنات کا کھیل ہے۔''
عطیہ فیضی ایک دن انڈین نیشنل ایسوسی ایشن کے جلسے میں بھی شرکت کے لیے امپیریل انسٹیٹیوٹ گئیں ۔ لکھتی ہیں ''ایک سے ایک بڑھ کر عالم موجود تھے۔ اس ملک میں علم کا دریا بڑی سرگرمی سے بہتا ہے اور اکثر خوش قسمتی سے سیراب ہوتے ہیں ۔ سچ ہے انسان کو علم ہی فائدہ دیتا ہے۔ دنیا میں عزت اور عقبیٰ میں بہشت ۔ یہ دونوں جہاں میں مرتبہ دیتا ہے ۔ خدا کرے ہماری قوم میں علم کی روشنی دوبارہ چمکے انشاء اللہ ۔''
جولائی 1907 میں عطیہ بیگم بیمار ہوگئیں ۔ انھوں نے اپنے حال سے اپنے اہل خانہ کو آگاہ نہ کیا کہ وہ پریشان ہوں گے ۔ خاموشی سے اپنی ہندوستان واپسی کا فیصلہ کرلیا ۔5اگست کو اپنے روزنامچے میں جو مکتوب کی صورت میں اپنی بہن کو بھیجا وہ لکھتی ہیں ''انشاء اللہ! بیس کو لندن سے وداع ہوں گی اور دو ایک جگہ ٹھہر کر مارسیلز سے 13 ستمبر کو اربیا نامی جہاز میں سوار ہوکر 28 کو بمبئی پہنچوں گی ۔ مجھے بڑا افسوس ہے کہ اپنے ذمے کو پورا کیے بغیر واپس جاتی ہوں ۔ لیکن طبیعت کے ہاتھوں بالکل مجبور تھی ۔ ڈاکٹروں نے صاف جواب دے دیا ہے کہ اگر زیادہ ٹھہرو گی تو ضایع ہوجاؤگی ۔
وجہ یہ ہے کہ کسی کسی وقت چار چار پانچ پانچ درجے بخار آیا کرتا ہے اور میں حد درجہ کمزور ہوگئی ہوں اور درد سر نے حیران (پریشان) کردیا ہے ۔ حتیٰ المقدور میں نے کوشش کی کہ کسی طرح دو سال پورے کر ڈالوں مگر غیر ممکن ہوا اور آخر انڈیا آفس کو خبر کی یہ حال ہے۔ ان لوگوں نے میرا استعفیٰ نہایت افسوس سے سنا اور میری وطن واپسی کا سامان کردیا۔''