رول ماڈل
جاوید ہاشمی نے حب الوطنی کے زیر اثر ہی سہی ایک بہت بڑی سازش کا تذکرہ کیا ہے ۔۔
اشتعال دلانا بھی ایک فن ہے۔کچا ہو توگلے پڑجاتا ہے۔ پختہ اور تجربہ کارانہ ہو تو حسب منشا اثرات بنا دیتا ہے۔ جاوید ہاشمی نے عمران خان کی مخالفت اور اپنی صفائی میں جو بیان دیا ہے وہ کسی درجے بھی سادہ اور مخلصانہ ہو مگر اس کے نتیجے میں چھوٹے یا بڑے پیمانے پر برہمی کا اظہار ہونا منطقی نتیجہ ہوگا۔
جاوید ہاشمی نے حب الوطنی کے زیر اثر ہی سہی ایک بہت بڑی سازش کا تذکرہ کیا ہے کہ طاہر القادری اور عمران خان کے دھرنوں کا سبب یہی تھا کہ حکومت مشتعل ہوکر طاقت کا استعمال کرے اور ماڈل ٹاؤن لاہورکی طرح پندرہ بیس لاشیں ان دھرنوں میں بھی مل جائیں تو تیسری طاقت مداخلت کر کے جمہوریت کے بوریا بستر کو لپیٹ دے گی اگر ایسا نہ ہوا تو کسی اہم آدمی کو ٹارگٹ کلنگ سے قتل کر کے ایسی ہی صورتحال پیدا کردی جائے گی ۔ وہ اس بیان کے بعد بھی بہ اصرار اسے دہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں عمران خان، طاہر القادری اور دیگر سیاسی قائدین سے کہتا ہوں کہ پاکستان کو خون میں نہ نہلایا جائے اور عوام کے مابین نفرتیں پیدا نہ کریں ۔
یہ روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ سطریں ہیں ۔ شخصیت تو سیاسی ہیں اس لیے یہ روایت بیان کرنا غیر ضروری نہ ہوگا کہ سیاسی اختلاف پر جماعتیں تبدیل کرنے میں لحاظ رکھا جاتا ہے کہ متروکہ جماعت کے اگر راز معلوم ہیں تو انھیں طشت از بام نہ کیا جائے۔ اس طرح کرنے سے شخصیت پر سے سیاست کا ملمع اترکر غدار یا موقع پرست ہونے کا رنگ چڑھا دیا جاتا ہے۔ پھر یہاں جو بیان دیا گیا ہے وہ اس لیے بھی ناقابل یقین ہے کہ دھرنے سختی سے پرامن رکھے گئے ۔ لاشوں کی اگر ضرورت تھی تو جلوس نکالے جاتے اور پتھر پھینکنے توڑ پھوڑ کرنے سے لاٹھی چارج کے بعد گولی چلنے تک کی نوبت آجاتی جس سے لاشیں حاصل ہوجاتیں ۔ بیان کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے تحفظ کے لیے دھرنوں کی جانب معاندانہ رویہ اختیار کرلیں ۔ یہ بیان ایسے موقعے پر آیا ہے جب 'گو نواز گو' تقریباً مقبول نعرہ بن چکا ہے ۔
جاوید ہاشمی کی باغیانہ کارروائی اور بیان بازی نے مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو بالخصوص دیگر وفاداروں کے علاوہ یہ حوصلہ دیا کہ وہ ایسے بیانات جاری کریں جس کے ردعمل میں تصادم کے امکانات کی راہ ہموار ہوجائے۔ اسکرپٹ کے نام پر یہ باور کرایا گیا کہ جیسے فوج اقتدار حاصل کرنے کا بہانہ چاہتی ہے ۔
حالانکہ معمولی سوجھ بوجھ کا آدمی بھی اس پس منظر کو سمجھ سکتا ہے کہ جس میں ذرایع ابلاغ کا اہم کردار ہے جس نے لوگوں کو سیاسی معاملات میں حساس بنا دیا ہے اور عمل کے لیے اکسایا ہے ۔ پھر معاشی انحطاط جس میں مہنگائی اور بے روزگاری عروج پر ہے ۔ کرپشن اور بدامنی کا ذکر عمداً ہی کر رہے ہیں کیونکہ یہ متنازعہ بات ہوجائے گی ۔
ان حالات کے مارے ہوئے لوگ اب اپنے مسائل کے اظہار کے لیے راستے تلاش کر رہے تھے کہ دھرنوں کے نام پر سیاسی قائدین نے رومانیت کا بگھار لگا کر انقلاب اور آزادی مارچ شروع کر کے ریڈ زون میں دھرنے ڈال دیے ۔ یہ ایک خودساختہ عوامی ابھار تھا جس کے اثرات کم کرنے کے لیے کبھی اسے لکھا ہوا اسکرپٹ کہا گیا تو کبھی اسے غیر ملکی سازش کہہ کر پاکستان کے وجود کے خلاف ایک کوشش کہا گیا ۔ لیکن یہ اسٹوری بھی فیل ہوگئی۔ تو اب دنگا فساد کے منصوبے پر دوسرے طریقے سے عمل کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
جاوید ہاشمی نے اپنے بیان میں ترمیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان مڈٹرم الیکشن نہیں چاہتے ہیں ۔ دھرنے کی تحریک چلا کر نواز شریف کے اقتدار کو استحکام فراہم کیا ہے ورنہ نواز حکومت پے درپے غلطیاں کر کے اپنے ہی وزن سے گرجاتی ۔ مگر اب اسے عمران خان کے اختلاف سے طاقت مل گئی ہے کہ وہ اپنے وفاداروں کو متحرک کرسکے ۔ مڈٹرم الیکشن سے عمران خان کا احتراز اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ اگر کسی سیاسی مصلحت سے انتخابات کا اعلان کرنا پڑے تو یہ سراسر عمران خان کی شکست سمجھی جائے کیونکہ وہ مڈٹرم الیکشن نہیں چاہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی تازہ ترین پریس کانفرنس میں وہ تمام الزامات لگائے گئے ہیں۔
جس سے عمران خان اور نواز شریف کی انڈراسٹینڈنگ ظاہر ہوتی ہے کہ عمران خان Agent Provocateurکا کردار انجام دے رہے ہیں ۔ یہ کنفیوژن پھیلا کر عمران خان کے کردار پر شک و شبے کے سوالات اٹھانا چاہتے ہیں ۔ جاوید ہاشمی کے سیاسی کردار کے تجزیے کی اہمیت اور جواز جب ہی بنتا ہے کہ نو واردان سیاست کو مخاطب کرکے ان واقعات کے حوالے سے بتایا جائے کہ اگر وہ جاوید ہاشمی کو سیاست میں رول ماڈل بنانا چاہتے ہیں تو باریک بینی اور تفصیلی طور پر جاوید ہاشمی کے کردار کا مطالعہ کریں۔
اکثر معاملات میں وہ ڈھل مل یقین ہوجاتے ہیں جب کہ بعض مواقعے پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے ہیں جیسے نواز شریف کی عدم موجودگی میں مسلم لیگ کی قائدانہ رہنمائی اور اسے منتشر ہونے سے بچائے رکھنا۔ لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور تحریک کے نازک لمحات پر چھوڑ کر مخالفانہ بیان بازی۔ نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ اصول اور نظریات گئے دنوں کی باتیں ہیں فی زمانہ موقع سے فائدہ اٹھانا ہی کامیابی کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ جاوید ہاشمی کی خدمت میں ایک مصرعہ پیش ہے:
آئینے بھیس بدل کر نہیں دیکھے جاتے