تحریک پاکستان کے رہنما آئی آئی چندریگر
اسماعیل ابراہیم چندریگر 15 ستمبر 1897کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں احمد آباد، بمبئی ریذیڈنسی میں شامل تھا ۔۔۔
KARACHI:
حصول پاکستان کے لیے چلائی جانیوالی تحریک میں قائد اعظم کے قریب ترین رفقا کار میں جن افراد کا شمار ہوتا ہے سابق وزیراعظم آئی آئی چندریگر ان میں سے ایک تھے تحریک پاکستان سے تشکیل پاکستان تک انھوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا اور وہ ہر قدم پر بابائے قوم کے دست راست بن کر رہے انھیں تقسیم ہندوستان سے قبل ہی وزارت کا عہدہ سونپ دیا گیا تھا آپ نے اپنے فرائض اس قدر بہتر انداز سے ادا کیے کہ قیام پاکستان کے بعد بھی آپ کو وہی منصب تفویض کردیا گیا۔
اسماعیل ابراہیم چندریگر 15 ستمبر 1897کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں احمد آباد، بمبئی ریذیڈنسی میں شامل تھا اور اسے صوبے میں ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل تھی۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد آباد کے اسکول میں حاصل کی اور کالج کی تعلیم کے بعد بمبئی یونیورسٹی میں آگئے۔ آپ بمبئی یونیورسٹی کے نہایت ذہین طلبہ میں شمار کیا جاتے تھے۔آپ نے اسی یونیورسٹی سے بی اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ بمبئی سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آئی آئی چندریگر، احمد آباد واپس آگئے تھے اور اسی شہر میں انھوں نے پریکٹس شروع کی تھی۔
1920 سے 1937 تک احمد آباد اور 1937 سے 1946 تک بمبئی ہائیکورٹ میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ وکالت کے اس زمانے میں آئی آئی چندریگر بڑی ذہانت کے ساتھ مختلف مقدمات کی پیروی کرتے رہے تھے۔ اس دوران انھیں کئی کہنہ مشق اور تجربہ کار قانون دانوں سے ملنے کا اتفاق بھی ہوا۔ احمد آباد کے مسلمان بڑے پرجوش اور ملی جذبے سے سرشار تھے چندریگر کا دل بھی اسی جذبے سے معمور تھا آپ نے سماجی کاموں میں ہمیشہ نمایاں حصہ لیا۔ آپ کو 1924 سے 1937 تک احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ممبر کی حیثیت سے شہری مسائل حل کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔
مسلمان طلبہ و طالبات کے لیے تعلیمی سہولتوں میں اضافے کا آپ کو بے حد خیال تھا چنانچہ انجمن ہائی اسکول احمد آباد ایجوکیشن سوسائٹی کے سیکریٹری رہے اور دوسری فلاحی انجمنوں میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس 1916، 1924، اور 1936 میں بمبئی میں منعقد ہوچکے تھے اور ان اجلاسوں کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کی کارکردگی اس کے مقاصد اور اس سے وابستہ رہنماؤں کے خیالات مسلمانان ہند کے سامنے کھل کر آچکے تھے چنانچہ آئی آئی چندریگر نے 1936 میں باقاعدہ طور پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ فروری 1937 میں انھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبہ بمبئی کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ضلع احمد آباد کے دیہی علاقہ کی نشست سے رکن منتخب کیا گیا اور آپ احمد آباد سے بمبئی منتقل ہوگئے۔ آپ اسی حلقے سے دو بار 1946 میں بھی منتخب ہوئے۔
آئی آئی چندریگر 1938 سے 1945 تک بمبئی اسمبلی میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر رہے اس کے علاوہ آپ 1938 میں بمبئی مسلم لیگ کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے اور اس منصب پر 1945 تک فائز رہے۔یہ عہدہ آپ کے لیے بڑا اعزاز تھا کیونکہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی بمبئی مسلم لیگ کی ایک شاخ کے اہم رکن تھے۔ آئی آئی چندریگر 1943 سے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے تھے۔ آپ کے ذاتی حیثیت میں مسلم زعما ہند کے ساتھ تعلقات بہت خوش گوار تھے۔
آپ نے برصغیر پاک وہند کے بڑے بڑے متمول مسلمانوں سے بھی بہتر روابط قائم کر رکھے تھے۔ ان ہی روابط کے حوالے سے اپریل 1944 میں قائد اعظم نے آئی آئی چندریگر کو ایک مکتوب میں لکھا تھا کہ وہ مسلم لیگ کے بعض لوگوں کا تعاون اور ان کی سرپرستی حاصل کریں۔ قائد اعظم نے اپنے خط میں اس امر کا بھی اظہار کیا تھا کہ وہ حبیب بینک کے محمد حبیب یا ہاشم پریم جی سے یہ دریافت کرلیں کہ آیا وہ مسلم لیگ کی پلاننگ کمیٹی کے لیے اپنی خدمات دینے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں؟ بعدازاں اس پروگرام کے تحت آئی آئی چندریگر نے اہم خدمات انجام دیں۔ مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا 27 واں سالانہ اجلاس لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں آئی آئی چندریگر نے بمبئی کے مسلمانوں کی نمایندگی اور تمام امور میں نہایت پرجوش حصہ لیا۔ قرارداد پاکستان کی تائید کرتے ہوئے آئی آئی چندریگر نے کہا کہ ''قرارداد میں جو اسکیم پیش کی گئی ہے وہ ہر زاویے سے منصفانہ، مناسب اور موزوں ہے۔
مسلمان کسی بھی حالت میں ایک ایسی مجلس دستور کی حمایت پر تیار نہیں جس کی رو سے مسلمان ایک اور تین کی نسبت سے ایک اقلیت بن جائیں۔'' اسی قرارداد کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو ایسا آئینی منصوبہ مرتب کرنے کی ذمے داری سونپی گئی کہ جس کی رو سے مذکورہ علاقوں کو بالآخر کلی اختیارات حاصل ہو جائیں۔ مثلاً دفاع امور خارجہ، مواصلات، محصولات اور دیگر ایسے امور جو ضروری سمجھے جائیں چنانچہ اس مقصد کے لیے جو کمیٹی بنی اس میں بھی آئی آئی چندریگر شامل تھے۔ 1945-46 کے انتخابات کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت کو قبول کرلیا تو آئی آئی چندریگر بھی قائد اعظم کے نامزد وزرا میں سے ایک تھے۔
14 اکتوبر 1946 کو آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے لیاقت علی خان، آئی آئی چندریگر، راجہ غضنفر علی خان، سردار عبدالرب نشتر اور جوگندر ناتھ منڈل کے نام سے بھجوائے جسے وائسرائے ہند نے قبول کرتے ہوئے ان کی سپرد وزارتیں اور محکمے کردیے۔ آئی آئی چندریگر نے مسلم لیگی لیڈر کی حیثیت سے تحریک پاکستان میں نہایت فعال کردار ادا کیا۔ 14 اگست 1947 کو جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آئی آئی چندریگر کو وزیر تجارت و صنعت مقرر کیا گیا وہ اس عہدے پر 1948 تک فائز رہے۔ 1948-49 میں افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہے۔
1950 سے 1951 تک آپ صوبے سرحد کے گورنر رہے اور پھر 1951 سے 1953 تک پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ آئی آئی چندریگر 1955-56 میں وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی مرکزی کابینہ میں وزیر قانون رہے اور 1956 کے آئین کا مسودہ تیار کیا۔ 18 اکتوبر 1957 کو آئی آئی چندریگر مخلوط حکومت میں پاکستان کے چھٹے وزیر اعظم بن گئے مگر اصولوں کی بنیاد پر 16 دسمبر 1957 کو وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔ آپ نے قائد اعظم سے سیاسی تربیت حاصل کی تھی اور قائد اعظم کی اصول پسندی مسلم تھی یہی نقطہ آئی آئی چندریگر نے قائد اعظم سے سیکھا اور اسی پر کاربند رہے۔ قائد اعظم کو بھی چندریگر کی شخصیت پر مکمل اعتماد تھا۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر نے26 ستمبر 1960 کو کراچی میں وفات پائی ۔