پاکستان ایک نظر میں ایک عجیب منظر

صحت وصفائی کا شعور بیدار کئے بغیر ہم ترقی کی منزل پانا تو دور کی بات مہذب کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوسکتے

صحت وصفائی کا شعور بیدار کئے بغیر ہم ترقی کی منزل پانا تو دور کی بات مہذب کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوسکتے۔ فوٹو ثنا غوری

عید قرباں کے بعد کراچی کی ایک سڑک کے فٹ پاتھ پرمجھے عجب منظر نظر آیا۔ بہت سے لوگ جن میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ تھی قربانی کے جانوروں کی آلائشیں ایک جگہ جمع کرکے انھیں کاٹ پیٹ کر اپنے مطلب کی چیزیں الگ کر کے رکھ رہے تھے۔اس جگہ تعفن اتنا زیادہ تھا کہ وہاں کھڑے رہنا میرے لئے مشکل ہورہا تھا۔ لیکن جب میں نے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کو جب وہاں کھڑے دیکھا، جو اپنے کام میں پوری ایمان داری سے جُٹے ہوئے تھے تو میرے قدم خودبہ خود اس سمت بڑھنے لگے۔

ایک عورت گندی چربی کے ڈھیر میں سے مختلف قسم کی چربیاں، گوشت کے چھوٹے ٹکڑے اور ہڈیاں الگ کر رہی تھی۔ میرا اس سے یہ سوال پوچھنا ہی فضول تھا کہ یہ طبیعت پر گراں گزرنے والا کام تم خود کیوں کررہی ہو اور اپنے چھوٹے بچوں سے کیوں کروارہی ہو؟ کیوں کہ پیٹ کی آگ بچھانے کے لئے کوئی نہ کوئی کام کرنا تو بہرحال اس کی مجبوری ہوگی۔ ورنہ بھلا کون اس تعفن زدہ ماحول میں کام کرنا چاہے گا۔

سوال یہ بنتا تھا کہ آخر یہ کام ہو کس مقصد کے لیئے رہا ہے؟ چھان بین کرنے سے علم ہوا کہ آلائشوں سے چربی اور دیگر حصے الگ الگ کرکے بیچنے کے لئے تیار کیا جارہے ہیں، جنہیں بہ طور خام مال فروخت کیا جائے گا اور ان اشیاء کو مختلف فیکٹریاں اپنی مصنوعات بنانے کے لئے استعمال کریں گی۔ ان فیکٹریوں میں سے زیادہ تر صابن بنانے کے کارخانے شامل ہیں، جہاں یہ چربی صابن بنانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جب کہ اور بھی بہت سی مصنوعات کے لے غلاظت میں پڑی یہ گندی چربی اور آلائش کی دیگر چیزیں استعمال کی جاتی ہیں۔

جی یہ وہی فضلہ اور گندگی ہے جس سے اٹھنے والے تعفن میں ایک لمحہ بھی کھڑا رہنا محال ہے، لیکن ہم اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی ہی ایسی چیزیں استعمال کررہے ہیں جو کہ اس جیسے گندے اور صحت کے لئے نقصان دہ مواد سے تیا رکی جاتی ہیں۔ خاص کر غیرقانونی طور پر قائم کارخانوں میں کوکنگ آئل اور گھی بنانے کے لیے ان گندی چیزوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ غورکرنے پر ایک اور انکشاف ہوا کہ جو آلائشیں وہاں ڈھیر کی صورت میں رکھی ہوئی ہیں ان میں کیڑے بھی پڑگئے ہیں۔ اب ظاہر ہے جو یہ خام مال اپنی مصنوعات کی تیاری میں استعمال کرے گا وہ حفظان صحت کے اصولوں پر تو عمل کرنے سے رہا۔ لہٰذا اس گندے مواد سے بنی چیزیں تیار کرکے نئی اور خوب صورت پیکنگ میں ہمیں دی جاتی ہیں اور ہم بے خبر انہیں بڑے ذوق وشوق سے استعمال کرتے ہیں۔


اور کسے کہتے ہیں اندھیر نگری چوپٹ راج۔ قانون کا کتنا رونا رویا جائے۔ ہمارے یہاں قوانین تو خیر کبھی عمل کرنے کے لئے بنے ہی نہیں، نہ ہم عوام نے خود کبھی کسی قانون پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی۔ قربانی کے جانوروں کی آلائشوں کا کاروبار آج سے نہیں عرصۂ دراز سے جاری ہے، لیکن اس کی روک تھام کے لئے اور شہریوں کو ناقص مواد سے تیار کی جانے والی مضرصحت اشیاء سے بچانے کے لے کوئی سنجیدہ اقدام کیا گیا نہ قانونی چارہ جوئی عمل میں لائی گئی، جب کہ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ جن غیرقانونی کارخانوں میں یہ کام ہورہا ہوتا ہے، ان کے مالکان سے پولیس رقم لے کر ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے لئے جگہ فراہم کرتی ہے اور ان کے غیرقانونی کام سے چشم پوشی کرتی ہے۔ شہریوں کے جسم وجاں کی دشمن بنی ان سرگرمیوں کی ابتدا ہماری سڑکوں پر ہوتی ہے۔ عید قرباں پر سب کو کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہر میں جتنی چاہے گندگی پھیلائیں، کھلی اجازت ہے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ سڑک کے بیچوں بیچ جانوروں کی آلائشیں ڈال دینا کہاں کی تہذیب ہے؟ گندگی سے دوسرے لوگوں کو پریشان کرنا کون سا مذہب سکھاتا ہے۔

میرے آقا حضرت محمّد ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان فرمایا ہے، لیکن ہم سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہوئے اس بات کا احساس بھی نہیں کرتے کہ ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے فعل خدا کے سامنے کتنے نا پسندیدہ ہونگے۔

ایک اندازے کے مطابق اس سال پورے ملک میں تقریباً 63 ہزار گائے اور 16 لاکھ بکروں کی قربانی کی گئی اور اکثریت نے مخصوص مذبحہ خانے کا رخ کرنے کے بجائے سڑکیں پارک گلی محلے استعمال کئے، جس کے باعث جگہ جگہ قربانی کے جانوروں کی آلائیشیں اور گندگی بکھری نظر آتی ہے۔ اس گندگی کے نتائج فوری طور پر بر آمد نہیں ہوتے لیکن تیزی سے جراثیم بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کا اندازہ آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ کے اطراف میں موجود لوگ کسی وبائی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

سڑکوں اور گلیوں کی صفائی متعلقہ اداروں کا کام ہے، لیکن ہمارے یہاں کون سا ادارہ اپنا کام بروقت اور صحیح طریقے سے انجام دے رہا ہے۔ سو ان اداروں سے کیا شکایت کی جائے۔ یوں بھی ہماری حکومتوں سے لے کر عوام تک صحت وصفائی کو کوئی اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ لیکن صحت وصفائی کا شعور بیدار کئے بغیر ہم ترقی کی منزل پانا تو دور کی بات مہذب کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوسکتے۔ کیا یہ صفائی سے غفلت اور صحت سے بے نیازی کی مثال نہیں کہ ہم صفائی پسند بنتے ہوئے بڑی کراہیت کے ساتھ جو آلائشیں سڑکوں کی زینت بناتے ہیں، وہی اپنی تمام تر غلاظت اور مضرصحت اثرات کے ساتھ مختلف مصنوعات کی صورت میں ہمارے گھروں میں واپس آجاتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ ہم جانور خریدنے سے قربانی تک کے تمام مراحل کی طرح قربانی کے بعد اپنے گلی محلوں اور سڑکوں کی صفائی کو بھی اسی مبارک عمل کا حصہ سمجھتے ہوئے کسی ادارے کے عملے کا انتظار کئے بغیر آلائشیں ٹھکانے لگانے کا انتظام ازخود کریں تاکہ گھوم پھر کر دوبارہ ہمارے گھروں کی زینت نہ بن سکے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story