بات کچھ اِدھر اُدھر کی اُستاد نعمت بھی اور زحمت بھی

اہل اختیارکو خیال رکھنا چائیے کہ وہ جس فرد کواُستاد کے مسند پر فائز کررہے ہیں وہ حقیقت میں ایک اُستاد بننے کے قابل ہے۔

تدریس کا شعبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں ایسے افراد لائے جائیں جو علم بانٹنے کو پیشہ نہیں مشن سمجھیں کیونکہ معاشروں کے مستقبل کا اندازہ اُن کے اساتذہ سے لگایا جا تا ہے جیسے اساتذہ ہوں گے، ویسی ہی قوم تیار ہو گی۔ فوٹو: فائل

ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں اور نصاب میں تبدیلی پر تو بہت زور دیا جاتا ہے مگر اس شعبے کے سب سے اہم کردار اُستاد پر کم کم ہی توجہ دی جاتی ہے، میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ ایک اُستاد کسی بھی معاشرے کو نکھارنے،بہتر بنانے اور درست سمت میں لانے میں جتنا کردار ادا کر سکتا ہے،اُتنا کسی اور کے بس میں نہیں۔

مگر ہمارے ہاں جتنی بے قدری اساتذہ کی جاتی ہے شاید ہی کہیں اور کی جاتی ہو۔ تدریس جو پیغمبروں کی میراث ہے اب اپنی وقعت کھوتی جا رہی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مگر ایک تلخ حقیقت جس سے اب زیادہ دیر تک منہ نہیں چھپایا جا سکتا وہ یہ ہے کہ تدریس کے شعبے میں اب ایسے افراد کی بہتات ہو گئی ہے جو کسی بھی طریقے سے اُستاد کہلانے اور اس ارفع مقام تک پہنچنے کے قابل ہی نہیں۔

یہ بے ادبی نہیں حقیقت ہے کہ اب تدریس مقصد کے زیادہ پیشہ بن چکی ہے۔ تدریس سے وابستہ اکثر لوگ صرف اس لیے اس پیشے میں ہیں کہ یہ ایک پکی نوکری سمجھی جاتی ہے۔ ہم نے خود ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو ماسٹرز کرنے کے بعدصرف اس لیے اسکولوں اور کالجوں میں لیکچرار بھرتی ہوتے ہیں کہ ان کے مطابق یہ ایک آسان پکی سرکاری نوکری ہے۔ کچھ کرنا کرانا کم ہی پڑتاہے، مہینے بعد لگی بندھی تنخواہ آجاتی ہے، کارکردگی جیسی بھی ہو ،کسی پوچھ گچھ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کی اُمید دل کی تسلی کا سامان کرتی ہے۔ مگر اس دوران جو نقصان طلباء کو ہوتا ہے اُس کا کوئی ماتم کرنے والا نہیں، تعلیم جب تک دل و دماغ، عقل و شعور پر اثر انداز نہ ہو، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور یقین کیجیے ہمارے تدریس کے شعبے سے منسلک اکثر اساتذہ طالب علم کو نئی سوچ تو کجا ، اُس کے رجحانات میں کوئی نہی جہت پیدا کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتے، نتیجہ وہی جو آج ہمارے قومی جمود کا باعث ہے، ہم دھڑا دھڑ پڑھے لکھے جاہل پیدا کیے جا رہے ہیں ۔


تدریس کا شعبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں ایسے افراد لائے جائیں جو علم بانٹنے کو پیشہ نہیں مشن سمجھیں، ساتھ ہی اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے بھی ایک مناسب طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ جو نوجوان نئے نئے اس شعبے میں آتے ہیں اُنہیں کچھ عرصہ سینئر اساتذہ کے ساتھ نائب کے طور پر کام کرنے کا پابند بنانا چاہیے،ہمارے ہاں استعمال ہونے والی ٹیچنگ میتھڈولوجیز بھی فرسودہ ہو گئی ہیں ،اساتذہ کی حکومتی سطح پر تربیت کے ذریعے تعلیم کے شعبے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ایسے افراد جو اس شعبے میں محض وقت گزاری اور نوکری کرنے کے لیے آئے بیٹھے ہیں،اُن کے وبال سے نوجوان نسل کو بچانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اساتذہ سے تدریس کے علاوہ دوسرے سرکاری کام لینے سے اجتناب برتنا چاہیے کہ یہ ان کے شایان شان نہیں۔

معاشروں کا مستقبل کا اندازہ اُن کے اساتذہ سے لگایا جا تا ہے، جیسے اساتذہ ہوں گے، ویسی ہی قوم تیار ہوگی، جہاں طلباء اس بات کے پابند ہیں کہ وہ اپنے اساتذہ کے ادب میں کوئی کمی نہ آنے دیں وہیں اہل اختیار کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چائیے کہ وہ جس فرد کو اُستاد کے مسند پر فائز کر رہے ہیں وہ حقیقت میں ایک اُستاد بننے کے قابل ہے بھی یہ نہیں، ہم صرف اُستاد کا نام لگا کر کسی نا اہل اور نا معقول شخص کو اپنی قوم کے بچوں کا مستقبل برباد نہیں کرنے دے سکتے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story