پاکستان ایک نظر میں ابن شاہوں کا ظلم آخر کب تک

المیہ تو یہ ہے کہ یہاں عدل و انصاف کے ادارے بھی عام شہری کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں

المیہ تو یہ ہے کہ یہاں عدل و انصاف کے ادارے بھی عام شہری کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ فوٹو طاہر ملک فیس بک پیج

ہمارے معاشرے میں کسی طاقت ور کا کمزور کو سرِ راہ مارنا پیٹنا، ذلیل کرنا عام اور معمولی واقعات ہیں۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ پولیس کے اعلیٰ افسران سے لے کر ادنیٰ اہلکار تک کسی ہوٹل سے کھانا کھائیں، پھل یا سبزی خریدیں، بس یا ویگن میں سفر کریں، یا اپنی گاڑی واش کروائیں پیسے نہیں دیتے اور اگر ان سے پیسے مانگیں جائیں تو مانگنے والے کا جو حشر کیا جاتا ہے وہ بے چارہ مدتوں یاد رکھتا ہے۔ المیہ یہ ہے ایسے واقعات کی نہ ہی کہیں شنوائی ہوتی اور نہ انصاف ملتا ہے۔ دراصل یہ ایک خاص وی آئی پی مائینڈ سیٹ ہے جس کا شکار اس ملک کاعام اور معمولی انسان اکثر ہوتا رہتا ہے۔

یہ وہی مائینڈ سیٹ ہے جس کے زیراثر پنجاب کے وزیر اعلی شہبازشریف کی بیٹی اور اس کے داماد نے ایک غریب بیکری والے کو دکان نہ کھولنے پر مار مار کر ادھ موا کردیا تھا۔ دوسری جانب کراچی میں وڈیرے کے بیٹے نے ایک ڈی ایس پی کے بیٹے کو قتل کر دیا تھا وجہ عناد کوئی بھی ہو اس کے پیچھے وی آئی پی مائنڈ سیٹ ہی کارفرما ہے۔ حال ہی میں لاہور میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے قادر گیلانی کے گارڈز نے ایک موٹر سائکل سوار نوجوان طارق کو صرف اس بنا پر گولی مار دی کہ وہ نوجوان ''ابن شاہ'' کی سواری سے آ گے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ ہولناک واقعہ لاہور کے علاقے ڈیفنس میں پیش آیا گو کہ فائرنگ کے اس واقعے کے بعد عبدالقادر گیلانی اور ان کے محافظوں کے خلاف مقدمہ تھانہ ڈیفنس میں درج کرلیا گیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کرلی گئی ہیں۔ لیکن کیا انصاف مل سکے گا؟

اس سوال کا جواب آپ کو معاشرے میں کہیں نہیں ملے گا کیونکہ یہ ''زر اور زرداروں'' کا معاشرہ ہے جہاں غریب آدمی کیڑے مکوڑے سے زیادہ اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتا۔ ہاں اگر کبھی کسی ایک واقعے میں کسی بڑے کو سزا مل چکی ہوتی تو پھر توقع کی جاسکتی تھی کہ شاہوں کے ظلم سے رعایا محفوظ رہتی۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں اپنے قارئین سے اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ بیان کروں جو حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا تھا اور جس میں مصر کے گورنر کے بیٹے نے ایک عام آدمی کو صرف اسی بنا پر کوڑوں سے پیٹ ڈالا کہ وہ اس کے آگے سے گزرا تھا،وہ عام آدمی اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی فریاد جب گورنر مصر کے پاس لے کر گیا اور اسے پتہ چلا کہ اس عام آدمی کے ساتھ ظلم کرنے والا اس کا اپنا بیٹا ہے تو گورنر نے اس عام آدمی کو دربار سے دھتکار کر نکال دیا۔

وہ روتا پٹیتا دارلخلافہ جا پہنچا اور امیر المومینن حضرت عمرؓ سے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی شکایت کی۔ حضرت عمرؓ نے اسی وقت قاصد اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا کہ گورنر مصر اور اس کے بیٹے کو دربار خلافت میں پیش کیا جائے۔ جب وہ حاضر ہوئے تو ان سے اس واقعے کے بارے پوچھا گیا اور جب انہوں نے اعتراف جرم کر لیا تو آپؓ نے اس عام آدمی سے کہا کہ یہ لو کوڑا جس طرح اس نے تمہیں تازیانے لگائے تھے تم بھی اس کے اسی طرح تازیانے لگاؤ۔


جب وہ اسے پیٹ چکا اور کوڑا حضرت عمرؓ کو واپس کرنے لگا تو آپ نے اس عام آدمی سے کہا کہ دو ایک کوڑے اس کے باپ (گورنر مصر) کے بھی مارو کہ اگر اس نے اس کی صیح تربیت کی ہوتی تو اس کے ذہن میں کبھی یہ خناس نہ سماتا کہ وہ بڑوں کی اولاد ہے۔ اس عام آدمی نے کہا کہ جس نے مجھے مارا تھا میں اس سے بدلہ لے چکا ہوں، میں انہیں پیٹنا نہیں چاہتا، آپؓ نے کوڑا اس سے لے لیا ۔

اور غضب ناک نگاہوں سے گورنر مصر کی طرف دیکھا اور وہ فقرہ کہا جو تکریم آدمیت اور شرف انسانیت کی تابندہ دلیل ہے؛
تم نے لوگوں کو غلام کب سے بنانا شروع کیا، جبکہ ان کی ماؤں نے تو انہیں آزاد جنا تھا۔

لیکن ہمارے ملک میں وی آئی پیز، وڈیروں، جاگیر داروں، سرمایہ داروں اور صاحب اختیار نے عام آدمی کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں عدل و انصاف کے ادارے بھی عام شہری کو انصاف فراہم کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، اگرکسی ایک بھی واقعے میں کسی بڑے کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہوتا جیسا حضرت عمرؓ کے دور میں ہوا تھا، تو آج ہمارے معاشرے سے ظلم کا لفظ خارج ہوچکا ہوتا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story