بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16نشستیں بڑھانے کی تجویز چیف الیکشن کمشن

سپریم کورٹ نے مجھے بااختیاربنادیا،شفاف انتخابات نہ ہوئے تو انکی چھٹی ہوجائیگی فخرالدین جی ابراہیم


INP/Monitoring Desk/Numainda Express September 28, 2012
اسلام آباد: سیاسی جماعتوں کے رہنما الیکشن کمیشن کی طرف سے بلائے گئے مشاورتی اجلاس میں شریک ہیں۔ فوٹو: ثناء

الیکشن کمیشن نے بلوچستان میں قومی اسمبلی کی نشستیں14 سے بڑھا کر 30کرنے کی تجویزپرغورشروع کردیاہے جس کے تحت ،صوبے کے ہرضلع میں ایک ایک نشست کااضافہ کیاجائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہاکہ ہم ایسے الیکشن کے متحمل نہیںہوسکتے جوغیرشفاف ہوں۔ ضرورت پڑنے پرالیکشن میں فوج کوطلب کیاجاسکتا ہے۔ سیاسی جماعتوںکوبھی معلوم ہے کہ شفاف انتخابات نہ ہوئے توان کی چھٹی ہوجائے گی۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی زیر صدارت الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعتوںکے مشاورتی اجلاس میں چوہدری شجاعت،مشاہد حسین، پیپلزپارٹی کے فرحت اللہ بابر، جے یوآئی کے مولانا عطاالرحمن،جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ،ایم کیوایم کے ایس اے قادری،نوازلیگ کے اقبال ظفرجھگڑا اورانوشہ رحمٰن سمیت 18سیاسی جماعتوںکے نمائندے شریک ہوئے۔

اجلاس میں عام انتخابات کی اور ضابطہ اخلاق کی تیاری پرمشاورت کی گئی۔ اس موقع پرچیف الیکشن کمشنرنے کہاکہ شفاف الیکشن سیاستدانوںکے تعاون کے بغیرممکن نہیں۔ ہم چاہتے ہیںکہ ووٹنگ میں عوام کی شمولیت زیادہ سے زیادہ بڑھے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے کہاکہ بلوچستان میںقومی اسمبلی کی نشستیں 30 تک بڑھانے کی تجویز زیرغور ہے۔ایسے نوجوانوںکوانتخابی فہرستوںمیںشامل کرنے کافیصلہ کیاگیاہے'جن کے شناختی کارڈ جون اور جولائی کے دوران بنے۔ یہ تعداد 10 لاکھ کے قریب ہے۔ روزانہ15ہزارنئے شناختی کارڈ بن رہے ہیں۔انھیںعام انتخابات کے اعلان تک ووٹرلسٹوںمیںشامل کیا جائے گا۔

پولنگ اسٹیشنوںکی تعداد 65 ہزارسے بڑھا کر95 ہزارکرنے پر غورکیاجارہاہے۔ غلط ووٹ ڈالنے والوںکوجعلسازی کے جرم میں سزا ہوگی۔ ووٹ ڈالنے والے کی انگوٹھے کے نشان سے نشاندہی ہوگی۔ ان کاکہناتھا کہ دہری شہریت والے پارلیمنٹ میں بیٹھ سکتے ہیں نہ آئندہ منتخب ہوکرآئیںگے۔ الیکشن کمیشن نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین بنالی ہے۔ اس مشین کواستعمال کرنے کیلیے قانون سازی کی ضرورت ہے، سیاسی جماعتوںکے رہنمائوںنے الیکشن کمیشن کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی تجویزکوقابل عمل بنانے کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ اگر ملک بھرمیںممکن نہ ہوسکے تومرحلہ واراس کوممکن بنایاجائے۔مذہبی جماعتوں نے دس فیصد سے کم ٹرن آئوٹ والے خواتین پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ پولنگ کی تجویزکی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اورخیبر پختونخوا کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں خواتین گھروں سے ہی نہیں نکلتیں۔

البتہ خواتین کوووٹ ڈالنے سے روکنے کے خلاف سخت قانون بنایاجائے۔ اجلاس میںفیصلہ کیاگیا کہ سپریم کورٹ سے درخواست کی جائے کہ ماتحت ججوںکو ریٹرننگ افسرتعینات کرنے کی اجازت دی جائے۔ سیاسی رہنمائوںکاموقف تھاکہ گریڈ18اور19کے افسرحکومت کے زیر اثرہوتے ہیں۔وہ غیرجانبدارنہیںرہ سکتے۔آئی این پی کے مطابق اجلاس میں سیاسی جماعتوںکوبتایا گیا کہ ہر2 کلومیٹر کے فاصلے پر پولنگ اسٹیشن قائم ہوگا، الیکشن ٹریبونل انتخابی عذرداریوں پر120دنوں میں فیصلہ دینے کے پابند ہوںگے جبکہ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں امن وامان کی صورتحال پر الیکشن کمیشن کواپنی تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان دوصوبوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر نہ بنائی گئی تو انتخابات کا انعقاد مشکل میں پڑسکتاہے۔

جمہوری وطن پارٹی کی روبینہ شاہ نے بلوچستان کے موجودہ حالات کے باعث انتخابات میں بائیکاٹ کی دھمکی دے دی، مسلم لیگ (ن) نے دہری شہریت کے معاملے کو آئینی طریقے سے حل کرنے کی تجویزدی جبکہ پیپلز پارٹی نے دہری شہریت رکھنے والوںکوانتخابات لڑنے کا حق نہ دینے کو دہرا معیار قراردیا، مسلم لیگ (ق) نے خواتین کے10 فیصدووٹ لازمی پول ہونے کی شرط کی مخالفت کی۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں نے ووٹر لسٹوں میں ووٹروں کے پتوں کے اندراج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ووٹروں کے موجودہ پتے کے بجائے مستقل پتے پر ووٹ کا اندراج کیا گیا ہے، ہر ایک کلومیٹر کے بعد پولنگ اسٹیشن قائم ہوناچاہیے۔

اجلاس کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ بلوچ رہنمائوں سے خود کہوںگا کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں۔ نئی نسل کو ہی ملک میں تبدیلی لاناہے۔ اس لیے اٹھارہ سال کی عمر کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ گھروں میں نہ بیٹھ جائیں۔ شفاف انتخابات کے انعقاد پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔ ہر کوئی انتخابات کے نتائج سے خوش نہیں ہوسکتا۔ ہارنے والے کہیں گے انتخابات درست نہیں تھے لیکن ہم نے تہیہ کیاہواہے کہ ملک میںشفاف انتخابات کاانعقادکرایاجائے گا۔ شفاف انتخابات سے تبدیلی آئے گی۔فخرالدین جی ابراہیم نے کہاکہ الیکشن کمیشن عوام کی عدالت میں جارہاہے اورغلطی کی کوئی گنجائش نہیں۔ سپریم کورٹ نے مجھے اختیارات تفویض کیے ہیں اورمیں بااختیار ہوں۔

سیاسی جماعتوںکوبھی معلوم ہے کہ شفاف انتخابات نہ ہوئے توان کی بھی چھٹی ہو جائے گی۔ میں پولنگ اسٹیشن پر آرمی کے دودوآدمی بٹھائوںگا، انتخابی عمل پر خفیہ ایجنسیوں کے اثرانداز ہونے کے بارے میں ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑی تو ان اداروں کے حکام کو بھی طلب کریں گے۔ سیاسی جماعتوں نے خفیہ ایجنسیوں کی انتخابات میں مداخلت کی شکایت کی ہے، آئندہ اجلاس میں حساس ادارے کے سربراہ سمیت تمام فریقین کو طلب کیا جائے گا۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرح الیکشن کمیشن کو مکمل طورمالی اور انتظامی خودمختاری ملنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں