بلوچستان کیسصدر وزیراعظم آرمی چیف سے جواب طلب سپریم کورٹ

قوم دیکھے گی کہ ہم کس حد تک جاتے ہیں، آرڈر پر عمل نہ ہوا تو کیس ٹو کیس سماعت کرینگے، چیف جسٹس

لاپتہ افراد کا معاملہ سوالیہ نشان ہے، قوم دیکھے گی کہ ہم کس حد تک جاتے ہیں، آرڈر پر عمل نہ ہوا تو کیس ٹو کیس سماعت کرینگے، ٹرائل کورٹ بنایا جاسکتا ہے، چیف جسٹس۔ فوٹو: فائل

SUKKUR:
سپریم کورٹ نے بلوچستان بد امنی کیس کی سماعت کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کی تجاویز کی روشنی میں بلوچستان کی مجموعی صورت حال سے متعلق وزیراعظم آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کے چیفس کا ردعمل طلب کر لیا ہے۔

سردار اختر مینگل نے کہا بلوچ رہنماؤں اور جوانوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لایا جائے، تمام فوجی آپریشن بند کیے جائیں۔ عدالت نے چیف سیکریٹری بلوچستان کو ہدایت کی ہے ان تجاویز کی روشنی میں عدالت میں آج ردعمل پیش کیا جائے، عدالت نے کیس ٹو کیس ٹرائل کیلیے ہائی کورٹ ججز پر مشتمل ٹرائل کورٹ بنانے کا امکان ظاہر کیا ہے جبکہ بلوچ رہنما سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ 65 سال بعد عدالت سے امید کی کرن نظر آئی ہے اس لیے حقائق سے آگاہ کرنے کیلیے آیا ہوں۔

صوبے کی تباہی کی ذمے دار آمرانہ حکومتوں کے ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں، خونی طلاق سے بہتر ہے کہ رضامندی سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے بلوچستان بد امنی کیس کی سماعت کی۔ عدالت کے حکم پر وہاں آنے والے سردار اختر مینگل نے بیان میں کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ اہم ہے،65 سال کا مسئلہ ملکی اداروں سے نکل کر عالمی اداروں تک پہنچ چکا ہے، میرے بھائی اسداللہ مینگل 1976ء میں اغوا ہوئے اور آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا، بلوچوں کوصرف تسلیاں دی گئیں، 5 بار فوجی آپریشن کرکے معافی مانگ لی گئی، بلوچستان کے حالات آج فلسطین سے بھی زیادہ خراب ہیں۔

انھوں نے کہاکہ حقیقی قیادت ہٹا کر مصنوعی قیادت لائی گئی، خفیہ ایجنسی کے ڈیتھ اسکواڈ قوم پرستوں کو ختم کررہے ہیں، مسخ لاشیں کسی سردار یا نواب کی اولاد کی نہیں سیاسی ورکرز کی ہیں۔ اکبر بگٹی کے قاتل گرفتار کئے جائیں، ٹھوس اقدامات کے بغیر معافی مانگنے یا پیکیج دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اخترمنگل نے لاپتہ افرادکی بازیابی کو بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ قراردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے کہتے ہیں لاپتہ افراد جہادی ہیں، افغانستان چلے گئے جب تک لاپتہ افرادکامسئلہ حل نہیں ہوتا، بلوچستان کامسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تباہی کی ذمہ دارآمرانہ حکومتوں کے ساتھ جمہوری حکومتیں بھی ہیں۔ بات اب ملکی اداروں سے عالمی اداروں تک پہنچ چکی ہے۔

انھوں نے عدالت کے سامنے بتایا کہ اپریل 2006ء میں بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بچانے کے جرم میں 16 ماہ جیل کی کوٹھڑی میں گزارے۔ 1974ء میں بھائی اغوا ہوا لیکن آج تک ان کا پتہ نہ چل سکا۔ ہمیں مسئلے کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے۔ خون خرابے سے بہتر ہے ہم رضامندی سے علیحدہ ہوجائیں۔ عدالت سے انصاف کی توقع ہے اس لیے سپریم کورٹ میں پیش ہوا ہوں۔ اختر مینگل نے زبانی اور تحریری گذارشات عدالت سامنے رکھیں۔ اپنے تحریری مؤقف میں واضح کیا کہ بلوچستان کے لیے بامقصد اور بامعنی مذکرات کے لیے حکومت پاکستان کو کچھ ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔

بلوچستان میں جاری تمام فوجی آپریشن خواہ وہ کسی بھی نوعیت کے ہوں ان کو بند کرنا ہو گا، تمام لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنا ہوگا، آئی ایس آئی اور اس کے زیر اثر اسکواڈ کو ہر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اقدامات سے روکا جائے۔ تمام بلوچ سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں بغیر کسی دباؤ اور مداخلت کے سیاسی عمل میں شرکت کا موقع فراہم کیا جائے بلوچ سیاسی رہنماوں و کارکنوں کے قتل کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے، ہزاروں بلوچ جو اپنے آبائی علاقوں سے دوسرے مقامات پر منتقل ہو چکے ہیں ان کو اپنے آبائی علاقوں میں پرامن زندگی گذرانے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اختر مینگل نے تجویز کیا کہ مذکورہ بالا اقدامات کے حوالے سے اعتماد سازی کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بعد بلوچستان کی اصل قیادت اور فوجی اسٹبلشمنٹ کے درمیان بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے مذاکرات کا اغاز کیا جائے۔


چیف جسٹس نے کہاکہ لاپتا افراد کا معاملہ بڑا سوالیہ نشان ہے، قوم دیکھے گی عدالت اس کیس میں کس حد تک جاتی ہے، کیس کو نتیجہ خیز بنانا چاہتے ہیں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہاکہ اخترمینگل کی یہاں موجودگی ثابت کرتی ہے کہ انھیں پاکستان مخالف کہنے والے غلط ہیں۔ چیف سیکریٹری بلوچستان نے عدالت کو بتایاکہ وزیراعظم سے لیکر ہرسطح تک کو آگاہ کیا گیا،گورنر بلوچستان معاملہ میں دلچسپی لے رہے ہیں، پھر عدالت نے سردار اخترمینگل کے بیان پر آئی جی ایف سی، چیف سیکریٹری بلوچستان، داخلہ اور دفاع کے وفاقی سیکریٹریز سے جواب طلب کرلیا۔

عدالت نے اپنے آرڈر میں چیف سیکریٹری بلوچستان کو کہا کہ وزیراعظم ، آئی ایس آئی، آئی بی اور ایم آئی کے سربراہان کے علم میں عدالتی آرڈر لائیں اور ان کے کے ردعمل سے آج عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ عدالت نے کہاکہ عمل نہ ہوا تو اس مقدمے میں کیس ٹو کیس سماعت کریں گے، یہ نہ سمجھیں کہ صرف مجسٹریٹ ہی یہ کیس سن سکتا ہے، قانون میں اجازت ہے کہ ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل ٹرائل کورٹ بنائی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے حتمی حل نکالیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے۔ ہمارے پاس وقت نہیں۔ اختر مینگل کے انکشافات سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا۔ عدالت نے وفاق و صوبائی حکومتوں، ایف سی اور خفیہ ایجنسیوں سے تحریری جواب بھی آج تک طلب کرلیا۔

بلوچستان کی صورت حال سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اور بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر ظہور شیرانی کے درمیان تکرار پر عدالت کو مداخلت کرنا پڑی ہائی کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیاں ٹھیک کام نہیں کر رہی ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک کی خفیہ ایجنسیوں کا کام بہت اچھا ہے۔ حکومت بلوچستان کے حوالے سے اچھا کام کر رہی ہے۔ ہائی کورٹ بار کے صدر ظہور شیروانی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا رویہ نامناسب ہے، وہ ہر وقت عدالت سے دست وگریباں ہونے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کام عدالت کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، عدالت سے لڑائی نہیں۔ ہائی کورٹ بار کے صدر کے موقف پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے اٹارنی جنرل کو دفاع نہیں کیا اس پر عدالت نے کہا کہ یہ ہمارا کام نہیں ہے ایک دوسرے کے احساسات کا احترام کیا جائے۔

عدالت نے اپنے آرڈر میں سردار اختر مینگل کی گذارشات پر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان گذارشات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا اختر مینگل کورٹ نوٹس پر پیش ہوئے اس پر ان کا شکریہ۔ بعد ازاں کیس کی سماعت آج تک ملتوی کردی۔ این این آئی کے مطابق سپریم کورٹ نے بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق اپنے حکم پر صدر، وزیراعظم، آرمی چیف، آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سربراہان کا ردعمل مانگتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آرڈر پر عمل نہ ہوا تو مقدمے میں کیس ٹو کیس سماعت کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خفیہ ایجنسیاں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اپنے ڈیتھ اسکواڈ ختم کریں، لاپتہ افراد کے معاملے پر آخری حد تک جائیں گے، بلوچستان میں آئین کے نفاذ سے ہی زندگیاں بہتر ہوں گی۔

اختر مینگل نے کہا کہ وہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملزم نہیں بلکہ فریق کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے معاملے کو کشمیر سے زیادہ سنگین قرار دیتے ہوئے سابق وزیر اعلی نے عدالت کو بتایا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پورے ملک خصوصا صوبے میں شدید ترین ہے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ1976 میں ان کے بھائی کو دوست سمیت کراچی سے اغوا کیا گیا اور آج تک ان کا پتہ نہیں چل سکا۔ عدالتی معاون اختر مینگل نے کہاکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے جن لاپتہ افراد کی لاشیں ملیں وہ سونامی سے نہیں تشدد سے ہلاک ہوئے۔ ہمیں سپریم کورٹ کے سواکسی پر اعتماد نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اختر مینگل کا عدالت میں بیان سیاسی تھا، بلوچستان میں آئین کے نفاذ سے ہی زندگیاں بہتر ہونگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اختر مینگل کے انکشافات ہضم نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے میں جاری تمام خفیہ اور کھلے آپریشن ختم ہونے چاہئیں ۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے پر 68 سماعتوں میں 60 احکام جاری کیے تاہم کسی پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ کیس کی69ویں سماعت ہو رہی ہے،معاملہ جوں کا توں ہے انہوں نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کیا بلوچستان کا ملک سے الگ ہونا بہتر ہے؟۔ نجی ٹی وی کے مطابق سماعت کے دور ان چیف سیکریٹری بلوچستان کو کہا گیا کہ صدر،وزیراعظم، آرمی چیف ، آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلی جنس سربراہان کے علم میں عدالتی آرڈر لائیں اور ان کے کے ردعمل سے(آج) جمعہ تک عدالت کو آگاہ کیا جائے۔

Recommended Stories

Load Next Story