ریڈیو اسٹیشن سے فلم اسٹوڈیو تک

میرے شاعر ہونے کا میرے گھر میں کسی کو بھی علم نہیں تھا کیونکہ میرے گھر میں شاعری شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اسلامیہ کالج کراچی کا طالب علم تھا اور ہندوستان کے نامور شاعر اور گیت نگار ساحر لدھیانوی کا شیدائی تھا راتوں کو اکثر چھپ چھپ کر ساحر لدھیانوی کی کتاب ''پرچھائیاں'' اور ''گاتا جائے بنجارا'' پڑھا کرتا تھا۔ اور جب بھی میرے والد کے آنے کی آہٹ ہوتی میں وہ کتاب تکیے کے نیچے چھپا کر سونے کی ایکٹنگ کیا کرتا تھا کیونکہ میرے والد حکیم قاضی سید یٰسین علی انتہائی مذہبی انسان تھے اور شعر و موسیقی کے تو بہت خلاف تھے۔

ہمارے گھر میں ایک پرانا مرفی ریڈیو تھا اور ہمارے گھر میں اس ریڈیو سے صرف خبریں سنی جاتی تھیں ہم جس گلی میں رہتے تھے وہاں آمنے سامنے دو بلڈنگیں تھیں ایک بلڈنگ میں ہمارا گھر تھا اور دوسری بلڈنگ کے کونے میں والد صاحب کا اپنا مطب تھا۔ جہاں وہ صبح و شام مریضوں کو دیکھا کرتے تھے۔ ہمارے گھر کا مرفی ریڈیو جہاں والد صاحب کی ضرورت تھا وہاں وہ میری دلچسپی کا بھی مرکز تھا۔ والد صاحب خبروں کے اوقات میں خبریں سننے کے لیے آتے تھے اور پھر ریڈیو بند کر کے اپنے مطب میں چلے جاتے تھے۔ والد صاحب جیسے ہی ریڈیو آف کر کے جاتے میں دوبارہ سے ریڈیو آن کر دیا کرتا تھا اور پھر فلمی گیت سنا کرتا تھا اور خاص طور پر ریڈیو سیلون سے فلمی گیتوں کا پروگرام ضرور سنتا تھا۔ میری والدہ میرے اس نازیبا عمل پر اکثر ناراض بھی ہو جاتی تھیں مگر میں پھر بڑے پیار سے اپنی والدہ کو منا لیا کرتا تھا۔

میرے شاعر ہونے کا میرے گھر میں کسی کو بھی علم نہیں تھا۔ کیونکہ میرے گھر میں شاعری شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی حالانکہ میں ریڈیو کے لیے گیت لکھا کرتا تھا۔ نوجوانوں کے پروگرام بزم طلبا کے ادبی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتا تھا اور کالج کے مشاعروں میں میری شاعری کی کافی دھوم تھی مگر گھر میں شاعری کا اظہار احساس گناہ کے مترادف تھا۔ اسلامیہ کالج میں میرا آخری سال تھا۔ نوجوان شاعروں میں میری ایک اچھی خاصی شناخت بن چکی تھی اور اب تو میں ریڈیو کے لیے ہلکی پھلکی موسیقی میں گیت بھی لکھنے لگا تھا۔ میں اکثر یہی خواب دیکھا کرتا تھا کہ میں بھی ایک دن فلمی نغمہ نگار بنوں گا ان دنوں صرف ساحر لدھیانوی میرا آئیڈیل تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرے فلمی نغمہ نگار بننے کا جنون بڑھتا جا رہا تھا۔ بی اے پاس کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ پروین شاکر انگلش ادب میں ایم ۔اے کر رہی ہیں اور ان کا وہ یونیورسٹی میں آخری سال ہے۔ یونیورسٹی کے مشاعروں میں پروین شاکر کی شاعری کی شہرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ اب بڑے بڑے مشاعروں میں حصہ لیتی تھیں اور ادب میں اپنے لیے ایک مقام بناتی جا رہی تھیں۔ ان دنوں میری طرح بے شمار نوجوان شاعر ان کی شاعری کے مداح تھے اور بعض بڑے بڑے شاعر بھی ان کی شاعری کے دیوانے تھے۔ ایک بار میرے کلاس فیلو اور مشہور کلاسیکل و غزل فنکار استاد امیر احمد خان نے بھی میری ملاقات پروین شاکر صاحبہ سے کرائی میں نے ان کی شاعری کی تعریف کی اور انھوں نے بھی مجھے سراہتے ہوئے میری ہمت افزائی کے لیے بہت اچھے کلمات ادا کیے۔

پھر سرسری طور پر کبھی کبھی سلام دعا ہو جایا کرتی تھی۔ ایک دن جب میں 14 اگست کے موقعے پر ریڈیو کے ایک مشاعرے میں شرکت کر کے اسٹوڈیو سے نکل کر سیدھا ریڈیو کینٹین کی طرف آیا تو ریڈیو کے مشہور میوزیشنز اور میڈولن نواز اے۔ غفور نے مجھے ایک ایسی خوشخبری سنائی کہ میں چند لمحوں کے لیے خوابوں میں کھو گیا۔ انھوں نے ریڈیو کینٹین میں مجھے چائے پیش کرتے ہوئے کہا۔ یونس ہمدم اب تم فلم میں گیت لکھنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ مجھے بطور موسیقار ایک فلم مل گئی ہے۔ میں نے شاعر کے لیے تمہارا نام دیا ہے۔ فلم کا نام ہے ''آ جا کہیں دور چلیں'' میں آج کل اس فلم کے لیے دھنیں بنا رہا ہوں۔ پھر انھوں نے ماچس کی ڈبیہ بجاتے ہوئے ایک خوبصورت دھن سنائی۔ میں نے فوراً ڈمی بول بھی لکھے اور غفور صاحب سے میں نے کہا یار! اب یہ گانا میں نے ہی لکھنا ہے۔


فلم 'آجا کہیں دور چلیں' کے فلمساز خالد محمود تھے۔ جو ملیر میں رہتے تھے۔ دوسرے دن میں نے ریڈیو ہی کے ایک میوزک ریہرسل کے کمرے میں غفور صاحب کے ساتھ ایک گھنٹہ بیٹھ کر ان کی دھن پر گیت مکمل کر دیا۔ اس گیت کا مکھڑا تھا ''لے کے چلی ہو مورا پیار گوری'' جب یہ فلمساز نے سنا تو اسے بڑا پسند آیا۔ اس نے فیصلہ سنا دیا۔ بس اب اس گیت کی ریکارڈنگ ہی سے فلم کا افتتاح ہو گا اور یہ گیت مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کیا جائے گا۔ یہ سن کر تو میری باچھیں کھل گئیں۔ میرا پہلا گانا اور مہدی حسن کی آواز۔ میں نے بعد میں موسیقار اے۔ غفور (جو اب عبدالغفور سے اے غفور ہو گئے تھے) سے پوچھا۔ غفور بھائی! مہدی حسن صاحب سے بات ہو گئی ہے۔

وہ بولے تم بے فکر رہو، مہدی بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ کبھی انکار نہیں کریں گے۔ میں ان کا پسندیدہ وائلن نواز ہوں۔ وہ بڑے عظیم فنکار ہیں اور میوزیشنز کو بڑی عزت دیتے ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مہدی حسن کی آواز میں فیض احمد فیض کی مشہور غزل ''گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے'' سارے پاکستان میں دھوم مچا رہی تھی۔ اور گلی گلی گھر گھر اس آواز کا اور اس غزل کا چرچا تھا مگر مہدی حسن ابھی لاہور نہیں گئے تھے۔

ان کا ایک گیت کراچی ہی کی ایک فلم ''جاگ اٹھا انسان'' میں فلم بند ہو چکا تھا۔ گانے کے بول تھے ''دنیا کسی کے پیار میں جنت سے کم نہیں'' یہ گیت بعد میں وحید مراد اور زیبا پر عکس بند کیا گیا تھا۔ اس فلم کی موسیقی لال محمد اقبال نے دی تھی اور نغمہ نگار دکھی پریم نگری تھے جو ان دنوں مشہور فلمی ہفت روزہ ''نگار'' کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ یہ بات تو برسبیل تذکرہ نوک قلم پر آ گئی۔ اب میں اس بات کی طرف آتا ہوں جس نے میری زندگی کو نیا رخ دیا اور مجھے میرے دیرینہ خوابوں کی تعبیر بھی مل گئی۔ مجھے کسی طور بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اتنی جلدی اپنے خواب کی دہلیز پر پہنچ گیا ہوں۔ وہ دن میری زندگی کا انتہائی یادگار دن تھا۔ کراچی کے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' کا گیت کی ریکارڈنگ سے آغاز تھا اور اس فلم کا افتتاحی گیت میں نے لکھا تھا اور مہدی حسن صاحب کی آواز میں ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔

یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میرے شعری سفر کا آغاز ریڈیو سے ہوا اور اب میں بحیثیت فلمی نغمہ نگار فلم اسٹوڈیو تک پہنچ گیا تھا۔ ریکارڈنگ ہال میں موسیقار اے۔ غفور اپنے میوزیشنز کے ساتھ گیت کی آخری ریہرسل کر رہے تھے۔ جب گیت کی آخری ریہرسل مکمل ہو گئی تو موسیقار غفور صاحب نے مہدی حسن سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ خاں صاحب! یہ نوجوان یونس ہمدم ہے۔ آپ جو گیت گا رہے ہیں یہ گیت اسی نے لکھا ہے۔

یہ اس کا پہلا فلمی گیت ہے اور اس نے گیت کی دھن پر یہ گیت ایک گھنٹے میں لکھ کر دیا ہے۔ مہدی حسن نے یہ سن کر مجھے گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ہمدم میاں! تمہاری عمر تو اتنی نہیں لگتی۔ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ مہدی حسن نے مسکراتے ہوئے اور میری ہمت بڑھاتے ہوئے کہا، نغمہ نگاری کے امتحان میں تم کامیاب ہو گئے ہو۔

میری دعا ہے کہ تم اپنے ہر امتحان میں کامیاب رہو۔ پھر انھوں نے یہ بھی کہا کہ تم نے دھن پر ایک خوبصورت گیت لکھا ہے اور دھن پر گیت لکھنے والے شاعر فلمی دنیا میں بڑے کامیاب ہوتے ہیں۔ میں نے مہدی حسن کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ پھر مہدی حسن کی آواز میں گیت ریکارڈ کر کے کئی بار سنایا گیا۔ سارے ہی لوگوں نے گیت کو بہت پسند کیا اور تقریب کے سب ہی مہمانوں نے میرے گیت کے سپر ہٹ ہونے کی نوید دی۔
Load Next Story