سہاروں نے کردیا بے سہارا

جن بیٹوں پر اس نے سب کچھ لٹا دیا، انھوں نے اسے گھر سے نکال باہر کیا

جن بیٹوں پر اس نے سب کچھ لٹا دیا، انھوں نے اسے گھر سے نکال باہر کیا۔ فوٹو: فائل

DUBAI:
اس رنگارنگ دنیا میں کیسے کیسے انسان بستے ہیں۔ ہر انسان کہانی ہے، چلتی پھرتی کہانی۔ کوئی پل دو پل ان کے پاس ٹھہر جائے تو کہانیوں کا انبار لگ جاتا ہے اور پھر یہ انتخاب مشکل ہوجاتا ہے کہ کون سی کہانی صفحۂ قرطاس پر بکھیری جائے اور کون سی رد کردی جائے۔

کون سی سچی ہے اور کس میں مبالغہ اور رنگ آمیزی ہے۔ انہی میں بعض ایسے ہوتے ہیں جن پر اعتبار کرنے کو جی چاہتا ہے اور اگر اصرار کرنے پر وہ اپنی داستان سنانے لگیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ کچھ سچائیاں دانستہ چھپا رہے ہیں۔ ان کے چہروں پر کندہ کہانی خود پکار رہی ہوتی ہے کہ اسے سنا جائے اور پھر جب وہ کہانی سن لی جائے تو دنیا کے ہر رشتے پر سے اعتبار اٹھنے لگتا ہے۔ ایثار، قربانی، خلوص و وفا سب کچھ مصنوعی لگنے لگتے ہیں۔

ایسی ایک کہانی ان کی بھی ہے۔ وہ مجھے ایک جگہ فٹ پاتھ پر بچوں کی ٹافیاں، بسکٹ بیچتے ہوئے نظر آگئے۔ لو پاگل ہوئی گھوم رہی تھی اور ان کے چہرے پر پسینہ بہہ رہا تھا۔ ٹریفک کے دھویں نے ان کی سفید داڑھی رنگ بدل ڈالا تھا۔ چشمے پر گرد کی ایک موٹی تہہ جمی ہوئی تھی اور وہ سر جھکائے نہ جانے کیا سوچ رہے تھے کہ میں ان کے قریب پہنچا اور پھر وہ میرے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوگئے دوسرے ہی لمحے انھوں نے بہ مشکل اٹھتے ہوئے مجھ سے دریافت کیا:

بیٹا! تم نے میری تصویر کیوں لی ہے؟

''ویسے ہی، آپ سے کہانی سنیں گے اور پھر لوگوں کو سنا دیں گے''۔ میرا جواب تھا۔ ''نہیں بیٹا، یہ غضب نہ کرنا۔ میری تصویر نہ چھاپنا اور پھر میری تو کوئی کہانی بھی نہیں ہے جو تم سنو''۔

انھیں منانے میں بہت وقت لگا اور پھر ہم میں ایک معاہدہ ہوگیا کہ میں ان کی تصویر نہیں چھاپوں گا اور وہ مجھے اپنی کہانی سنائیں گے۔ سنیے وہ کیا کہتے ہیں:

میں حیدرآباد (دکن) میں پیدا ہوا۔ میرے والد کی چھوٹی سی دکان تھی۔ ہماری کوئی اتنی لمبی چوڑی جائیداد نہیں تھی، بس گزر بسر ہورہا تھا۔ میں کچھ بڑا ہوا تو اسکول جانے لگا اور وہاں سے آٹھویں پاس کی۔ پھر تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور والد کی دکان پر ہاتھ بٹانے لگا۔ مجھے اچھا تجربہ ہوگیا تھا۔ ہمارے ہاں جلد شادی ہوجاتی تھی۔17 سال کی عمر میں میری شادی کردی گئی اور ہم میاں بیوی ہنسی خوشی رہنے لگے۔

ہماری شادی جس سال ہوئی اس وقت تحریک پاکستان زورشور سے چل رہی تھی۔ روزانہ جلسے جلوس، ماراماری ہورہی تھی، ہر طرف نعرے لگ رہے تھے اور ہندو مسلم فساد روز کا معمول تھا۔ لیکن یہاں پر میں یہ بتا دوں کہ میں اس تحریک میں شریک نہیں تھا، اب تو ہر بوڑھا آدمی کہتا ہے کہ اس نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی داستان شجاعت سناتا ہے۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو میری طرح پاکستان کے مخالف تھے اور یہاں پہنچتے ہی ہیرو بن گئے، مگر میں آج بھی کہتا ہوں کہ میں بٹوارے کو اچھا نہیں سمجھتا تھا اور پھر میرے خدشات درست ثابت بھی ہوئے۔

یہ ہے وہ پاکستان جس کے لیے ہم نے ہزاروں لوگوں کی جان قربان کردی؟ آپ خود بتائیں یہاں پر کیا مسلمان بستے ہیں؟ یہاں تو چور لٹیرے حکم راں بن کر بیٹھ گئے ہیں اور سب کو غلام بنالیا ہے اور بھئی غلام ہی رہنا تھا تو وہاں کیا برے تھے؟ اب تک ہم وہاں ہوتے تو سب سے زیادہ ہماری وقعت ہوتی خیر رہنے دو اب کیا لکیر پیٹنا۔

جب 1947 میں پاکستان بن گیا تو ہمارا وہاں رہنا دوبھر ہوگیا۔ ہر وقت تنائو اور فساد کی کیفیت۔ وہاں جو ہمارے پڑوسی تھے جب انھوں نے بھی آنکھیں پھیر لیں تو ہم نے فیصلہ کیا کہ پاکستان چلتے ہیں۔ میں نے اپنے والد سے کہا کہ پاکستان چلیں تو انھوں نے انکار کردیا لیکن مجھے اجازت دے دی کہ میں چلا جائوں۔ اس داستان کو رہنے دیتا ہوں کہ یہاں کس طرح پہنچے، یہ سب کو معلوم ہے، بار بار دہرانے کا کیا فائدہ۔ ہم بچتے بچاتے لاہور پہنچے۔ یقین جانو مجھے خوشی ہوئی تھی کہ میں پاکستان پہنچ گیا۔ مگر ہمارا جو حال کیمپوں میں تھا وہ نہ پوچھو۔ سب کو اپنی اپنی پڑی تھی اور نفسانفسی کا عالم تھا۔ میں کچھ دن تو وہاں کیمپ میں رہا اور پھر حیدرآباد پہنچا، حالاں کہ لوگ کراچی پہنچ رہے تھے۔

میں حیدرآباد اس لیے پہنچا کہ مجھے اس نام سے محبت تھی، وہاں بھی حیدرآباد اور یہاں بھی حیدرآباد۔ کم از کم نام تو ایک جیسا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے ایک کھاد کی ایجنسی میں نوکری کرلی۔ میں وہاں منشی بن گیا۔ کرائے کا چھوٹا سا مکان لے لیا۔ کلیم اس لیے داخل نہ کیا کہ یہ بددیانتی تھی۔ ہم وہاں بھی ایسے ہی تھے لیکن لوگوں نے کلیم داخل کرکے حب الوطنی کی قیمت وصول کی۔ جو وہاں بالکل کنگلے تھے یہاں آکر جاگیردار اور کارخانے دار بن بیٹھے۔ پھر ان کے تیور بدلے اور وہ انسان سے حیوان بن گئے۔

میں بار بار دوسری طرف نکل جاتا ہوں۔ میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے کام کیا تو مالک بہت خوش ہوا اور مجھے ایک مکان خرید کر دے دیا۔ اچھا خاصا مکان تھا اور وہ ہر ما ہ میری تن خواہ میں سے کچھ رقم کاٹتا۔ اس طرح ایک دن میں اپنے مکان کا مالک بن گیا۔ میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی، ماشاء اﷲ حیات ہیں اور اچھے عہدوں پر ہیں۔ بڑے اور چھوٹے بیٹے کو میں نے ایک رشتے دار کے گھر کراچی بھیج دیا کہ یہاں کی پڑھائی اچھی ہے۔ وہ محنت کریں گے اور کچھ بن جائیں گے۔ انھوں نے بہت محنت کی اور اچھے عہدے بھی حاصل کرلیے۔


ہوا یوں کہ میرے دونوں بیٹوں نے انجینئرنگ کی ہے۔ اس دوران ان کا کسی امیر گھرانے میں آنا جانا ہوگیا۔ پھر وہاں انھوں نے رشتے کرلیے۔ جب ان دونوں کی شادی کا پروگرام بنا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ ہم فلاں جگہ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم میاں بیوی نے مخالفت کی ا ور کہا کہ عزیز رشتے داروں میں بہت رشتے ہیں اور ان کا حق بھی ہے اور خاص کر اس عزیز کا جن کے گھر وہ کراچی میں رہتے اور کھاتے پیتے رہے تھے، لیکن وہ نہ مانے اور انھوں نے اپنی مرضی کی۔ مجبوراً ہمیں بھی سر جھکانا پڑا۔

اب اخراجات کہاں سے لاتے؟ تو ہم نے اپنا حیدرآباد والا مکان بیچ دیا، اس طرح وہاں نوکری بھی ختم کرنا پڑی۔ میرے بیٹے کہتے تھے، اب پرانے دن گزر گئے ہیں، شادی کے بعد ہم بڑا سا گھر لے لیں گے اور ساتھ رہیں گے، آپ کو کمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ ہم نے سب کچھ بیچا اور کراچی پہنچے۔ یہاں آکر کرائے کا مکان لیا اور دھوم دھام سے بچوں کی شادی کی تیاری کرنے لگے۔ عزیز رشتے داروں نے تو ناراض ہوکر بائیکاٹ کردیا تھا۔

خیر وہ دن بھی آ یا جب شادی ہوگئی اور دونوں بیٹوں کی دلہنیں گھر پہنچ گئیں۔ ایک ہفتہ تو بہت اچھا گزرا۔ دونوں طرف دعوتیں ہوئیں، خوشیاں منائی گئیں اور پھر وہ منحوس گھڑی آپہنچی جب میری دونوں بہوئوں نے یہ مطالبہ کردیا کہ وہ علیحدہ رہیں گی۔ میرے بیٹوں کو نہ جانے انھوں نے کیا پلا دیا تھا یا وہ خود بے غیرت ہوگئے تھے۔ میں تو اپنا سب کچھ ان کی شادی پر لگا چکا تھا، اب میرے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔

میرے بیٹوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ آپ اس فلیٹ میں رہیں، ہم الگ ہورہے ہیں لیکن آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کو خرچ دیں گے۔ میں نے دل پر پتھر رکھا اور وہ اپنے سسرال کی مدد سے اچھے گھروں میں منتقل ہوگئے۔ ان کے پاس گاڑی بھی آگئی جب وہ الگ ہورہے تھے تو میری حالت بری تھی اور میں اس لمحے کو کوس رہا تھا جب میں نے نوکری چھوڑ دی اور اپنا مکان بیچ ڈالا تھا، صرف اپنے بچوں کی محبت میں مجھے یہ دن دیکھنا پڑا۔

پھر جب دو ہفتے گزر گئے اور بیٹے ہمیں دیکھنے تک نہ آئے تو میں ان کے گھر پہنچ گیا۔ مکان میں داخل ہوا تو بیٹے موجود تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ تم نے ہمارا پتا بھی نہیں کیا اور دو ہفتے سے گھر بھی نہیں آئے۔ تو صاحب پھر کیا تھا، بیٹے تو خاموش رہے لیکن بڑی بہو نے کہا اب یہ آپ کے گھر نہیں آئیں گے، ہماری بھی کوئی عزت ہے۔ آپ کبھی کبھی یہاں آکر ان سے مل لیا کریں۔ میں نے کہا کہ یہ میری ساری عمر کی کمائی ہیں، انھیں کیسے چھوڑ دوں؟ تو کہا گیا یہ آپ کا فرض تھا کہ آپ انھیں پڑھاتے، شادیاں کراتے۔ آپ نے کوئی احسان نہیں کیا، اپنا فرض ادا کیا ہے۔ اور جب میں نے کہا اب یہ اپنا فرض کیسے اور کب ادا کریں گے؟

تو مجھے بے نقط سنائی گئیں اور کہا گیا کہ آپ نے بزنس کیا تھا کہ آج آپ انھیں پال رہے ہیں کل یہ آپ کو پالیں گے، تو بزنس میں کبھی کبھار نقصان بھی ہوجاتا ہے۔ آپ سمجھیں آپ کو نقصان ہوگیا اور پھر وہ مسکرانے لگی۔ میں نے بیٹے کی طرف دیکھا تو وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے تہیہ کرلیا کہ اب کبھی ان سے نہیں ملوں گا۔ سچ ہی تو ہے مجھے نقصان ہوگیا تھا اور جس کا نقصان ہوجائے اسے تو کوئی بھی نہیں پوچھتا۔ میں گھر پہنچا اور بیمار ہوگیا۔ خاصے دن تک بیمار رہا، میری بیٹی نے ایک گارمنٹس فیکٹری میں ملازمت کرلی، ہم نے وہ فلیٹ چھوڑ دیا اور لائنز ایریا کے ایک چھوٹے سے مکان میں آکر رہنے لگے۔

عزیز رشتے داروں سے کچھ قرض لیا، انھوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اور امیر گھرانے میں بچوں کی شادی کرائو، کار بنگلہ دیکھو، لیکن وقت گزر چکا تھا، اب کیا ہوسکتا تھا۔ پھر میں نے ہمت کی، خود کو سنبھالا اور ملازمت تلاش کرنا شروع کی۔ ایک دکان پر صفائی ستھرائی اور سیلزمین کی نوکری مل گئی، انھوں نے بوڑھا آدمی سمجھ کر رکھ لیا، کوئی زیادہ کام نہ تھا، لیکن تن خواہ بہت کم تھی صرف ڈھائی ہزار روپے ماہانہ، اس میں کرایہ بھی دینا پڑتا تھا۔ اس حادثے کا اثر یہ ہوا کہ میری بیوی شدید بیمار ہوگئی۔ وہ ہر وقت اپنے بچوں کو یاد کرتی رہتی ہے اور اب تو یوں لگتا ہے کہ اس کے دن بھی قریب آگئے ہیں۔

مجھے اس کی تیمار داری کرنی پڑتی ہے اور یوں دکان پر ناغے ہونے لگے۔ ایک دن دکان کے مالک نے یہ کہہ کر نکال دیا کہ کام دھندا ختم ہوگیا ہے، اس لیے تن خواہ کے پیسے بھی نہیں نکل رہے، اس لیے چھٹی کرو، میں نے ایک ہزار روپے کی ٹافیاں، بسکٹ خریدے اور مختلف جگہوں پر بیچنے لگا، کسی ایک جگہ نہیں بیٹھتا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ لیکن اب سب دیکھ لیں تو اچھا ہے اور مجھ سے سبق حاصل کریں۔ نہ کھانا اچھا لگتا ہے نہ پینا۔

بیوی گھر پر اپنی زندگی کے دن پورے کررہی ہے اور میں یہاں پر۔ میری بچی گارمنٹ فیکٹری میں کام کررہی ہے۔ اس کا رشتہ ہی نہیں آتا۔ میرے جیسے کے پاس کون لاتا ہے رشتہ! اب تو میں مایوس ہوگیا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہم دونوں کے مرنے کے بعد اس لڑکی کا کیا ہوگا؟ وہ بھی اکثر بیمار رہنے لگی ہے اور بھائیوں کو یاد کرتی ہے۔ اب کچھ دن سے ہم تینوں نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ ہم انھیں بھول جائیں گے لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟

ایک روز میں کلفٹن میں بیٹھا یہ چیزیں فروخت کررہا تھا کہ میرا بڑا بیٹا اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آگیا۔ ان کے پاس شان دار کار ہے، میرا دل چاہا کہ میں اپنے پوتے کو پیار کرلوں، مگر میں نے دل پر پتھر رکھ لیا اور سر جھکا کر بیٹھ گیا، وہ میرے سامنے سے گزر گئے تو میں وہاں سے کھسک آیا۔

اب میں نے تم سے جو التجا کی ہے کہ میری تصویر نہیں چھاپنا تو دل تو یہی چاہتا ہے کہ تم اسے چھاپ دو تاکہ انھیں پتا چلے کہ ان کے باپ کا کیا حال ہوگیا ہے؟ بل کہ میں تو کہتا ہوں میری بیوی اور بچی کی تصویر بھی چھاپو اور لوگوں کو دکھائو کہ دیکھو یہ ہے بھلائی کا انجام۔ مگر سوچتا ہوں کہ ان کی زندگی کیوں عذاب کروں، لوگ انھیں کہیں گے کہ خود عیش کررہے ہو اور ماں باپ بہن کی یہ حالت ہے۔ اس لیے نہیں چاہتا کہ تم تصویر چھاپو۔ انھوں نے جو کچھ کیا وہ بھی خدا دیکھ رہا ہے اور میں نے جو کچھ کیا وہ بھی۔ قیامت کا دن مقرر ہے، فیصلہ ہوجائے گا۔

میں تو پھر بھی دعا کرتا ہوں کہ وہ خوش رہیں اور پھلیں پھولیں، ہمارا کیا ہے، زندگی اتنی گزرگئی اور گزر جائے گی۔ ہم نے تو ساری زندگی کام کیا ہے، اب بھی کرلیں گے، مجھے تو اب زندگی کا اتنا بھروسا بھی نہیں رہا کہ گھر پہنچ سکوں گا، اس لیے یہ دیکھو! میں نے اپنی جیب میں لکھ کر رکھ لیا ہے کہ اگر میں کسی فٹ پاتھ یا سڑک پر مرجائوں تو اس پتے پر پہنچا دو، آپ کا بہت شکریہ اور مہربانی ہوگی۔

اب تم نے آکر میری کہانی پوچھ لی تو دل کے زخم ادھڑ گئے ہیں، لیکن خون رستے ہوئے نظر نہیں آرہا، جس پر بیتتی ہے اسے ہی معلوم ہوتا ہے ۔ بیٹا! تم کبھی ایسا نہ کرنا۔ ہمیشہ ماں باپ کی رکھوالی کرنا، اسی میں عزت بھی ہے اور سکون بھی۔ اب جائو، اﷲ تمہارا بھلا کرے۔ لوگ کہتے ہیں بیٹے سہارا ہوتے ہیں میری تو بیٹی میرا سہارا بنی ہے۔
Load Next Story