دنیا بھر سے خطرناک کون امریکا یا داعش
امریکہ نے دنیا میں جومظالم کیے ہیں اس کے ردعمل میں انصاف کے حصول اورظلم کےخاتمے کیلئے بہت سی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔
عالمی ذرائع ابلاغ میں سے برطانوی صف اول کے اخبار ''ڈیلی میل'' کی ایک رپورٹ پڑھتے ہوئے۔ ایک مشہور ترانے کے جملے بے اختیار میرے لبوں سے جاری ہو گئے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ عالمی دہشتگرد امریکہ دہشتگرد اسلام نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا ایک بڑی تبدیلی کی جانب گامزن ہے اور عالمی سطح پر ایسے ایشوز کھڑے کیے جا رہے ہیں جن کا کچھ عرصہ قبل کوئی وجود ہی نہ تھا۔ ان ایشوز میں سے ایک عراق و شام کا عسکری گروپ داعش ہے۔ جو آئی ایس آئی ایس کے مختصر نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت اس تنظیم کا تذکرہ سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اوپر ڈیلی میل کے جس سروے کا تذکرہ کیا اس میں بھی آئی ایس آئی ایس کے حوالے ہاورڈ یونیورسٹی کے طلباء سے رائے لی گئی اور پوچھا گیا کہ دنیا کے امن کے لیے امریکہ زیادہ خطرناک ہے یا پھر یہ عسکری گروپ ۔
رپورٹ کے مطابق ہاروڈ یونیورسٹی کے طلباء جو دنیا کے بہترین دماغ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس آئی ایس سے زیادہ خطرناک امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کو قرار دیا ہے۔ سروے کے مطابق اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی ایس جیسے گروپ امریکہ نے خود تیار کیے ہیں تاکہ ان کو بنیاد بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے۔
یہ ہاروڈ یونیورسٹی کے طلبہ ہی کی سوچ نہیں بلکہ امریکہ کا متضاد اور منافقانہ کردار آج پوری دنیا کے سامنے سوالیہ نشان بنا ہو ا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس بات سے باخبر ہیں کہ سارے فساد کی جڑ امریکہ ہے۔ وہ امریکہ جو دنیا میں امن و خوشحالی، جمہوریت ، انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا علمبردار بنا ہوا ہے مگر اس کا اپنا وجود منافقت، استحصال، جھوٹ و فریب اور غنڈہ گردی پر قائم ہے۔ امریکہ نے 70 سال سے یہ طے کر رکھا ہے کہ دنیا میں اس جیسا کوئی نہیں۔ وہ ساری دنیا کا مختار کل ہے اور دنیا میں وہ جب چاہے جہاں چاہے سب کر سکتا ہے۔
1990 کے بعد امریکہ نے نیو ورلڈ آڈر کے نام پر ایک نظریہ پیش کیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اب دنیا امریکہ کے دیئے ہوئے کلیے و ضابطے کے مطابق چلے گی۔ امریکہ کے ذہن میں یہ خناس سمانے کے بعد سے لے کر اب تک دنیا بھر میں اپنی بدمعاشی کو امر کر رہا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق دنیا کے کئی ممالک کو تاراج کر چکا ہے۔
امریکی سیاست کا مرکز و محور خوف و دہشت گردی کے گردگھوم رہا ہے۔ اپنی مقبولیت اور سپرپاور کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے آج بھی امریکہ دنیا کے دیگر ممالک کو دہشت گردی سے خوف زدہ کر کے اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جاری گزشتہ ایک دہائی سے زائد کی جنگ میں اس نے عراق، افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ قائم کر دیئے ہیں۔ جبکہ ویتنام، شمالی کوریا، شام ، وینزویلا جیسے کئی ممالک بھی امریکی سازشوں کے ڈھسے ہوئے ہیں۔
جوہری پروگرام جس کو آج امریکہ اپنی اجارہ داری سمجھنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے خود تو جوہری طاقت حاصل کی اور سب سے پہلے اس کو جاپان کے خلاف استعمال بھی کیا۔ مگر اب امریکہ کی خواہش ہے کہ کوئی دوسرا ملک پرامن جوہری طاقت حاصل نہ کرے۔ بالخصوص یہ پابندی ایسے ممالک کے لیے ہے۔ جہاں امریکہ مفادات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ملکوں کو آپس میں لڑانا، پھر لڑائی کو طول دینے کے لیے انہیں ہتھیار فراہم کرنا یہ بھی امریکہ کا ایک پرانا کھیل ہے۔ اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مال کو فروخت کر کے زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے بھی امریکہ اور اس کی ایجنسیاں کئی ممالک کو باہم دست و گریباں کر چکی ہیں۔
آج امریکہ دہشت گردی سے دنیا کے دیگر خطوں کے عوام کے علاوہ خود امریکی باشندے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے لیے خطرات کے علاوہ بہت بڑے اور سنگین معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں کیوں کہ وار آن ٹیرر امریکی معیشت کو کھا گئی ہے۔
امریکہ نے دنیا میں جو مظالم کیے ہیں پھر اس کے ردعمل میں انصاف کے حصول اور ظلم کے خاتمے کے لیے بہت سی تحریکوں نے بھی جنم لیا ہے۔ پھر یہ عسکری گروپس مختلف مقامات پر امریکی تنصیبات اور اثاثہ جات کو انتقام میں آ کر نشانہ بناتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایسے گروپس کو تو فورا دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔ مگر کوئی بھی ملک یا عالمی ادارہ دہشت گردی کے ان عوامل کو پروان چڑھانے والے امریکہ کو دہشت گرد قرار نہیں دیتا۔ ردعمل کی تو پوری دنیا میں مذمت کی جاتی ہے لیکن کوئی بھی اس جانب توجہ نہیں دے رہا کہ اگر کہیں کوئی عسکری گروپ پروان چڑھ رہا ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں۔ ان کے ساتھ ایسی کون سی ناانصافی ہوئی ہے جس کے بعدانہوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جب عالمی ادارے آنکھوں سے تعصب کے پٹی اتار کر غیرجانبدرانہ طور پر اس حوالے سے سوچنا شروع کر دیں گے تو انہیں ہر برائی اور فساد کے پیچھے امریکہ شرارتیں ہی نظر آئیں گی۔ دنیا میں چاہے امن ہو یا جنگ، امریکہ نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے اپنے مفادات جب خطرے میں ہوتے ہیں تو تمام اصول توڑ کر ان کا تحفظ اپنا اولین فریضہ بنا لیتا ہے۔ پھر چاہے اس سے عالمی امن تباہ ہو یا دہشت گردی کا ناسور مزید پھیلے ۔ انکل سام یہ نہیں سوچتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت اس تنظیم کا تذکرہ سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اوپر ڈیلی میل کے جس سروے کا تذکرہ کیا اس میں بھی آئی ایس آئی ایس کے حوالے ہاورڈ یونیورسٹی کے طلباء سے رائے لی گئی اور پوچھا گیا کہ دنیا کے امن کے لیے امریکہ زیادہ خطرناک ہے یا پھر یہ عسکری گروپ ۔
رپورٹ کے مطابق ہاروڈ یونیورسٹی کے طلباء جو دنیا کے بہترین دماغ کہلاتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس آئی ایس سے زیادہ خطرناک امریکہ اور اس کی خارجہ پالیسی کو قرار دیا ہے۔ سروے کے مطابق اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ آئی ایس آئی ایس جیسے گروپ امریکہ نے خود تیار کیے ہیں تاکہ ان کو بنیاد بنا کر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے۔
یہ ہاروڈ یونیورسٹی کے طلبہ ہی کی سوچ نہیں بلکہ امریکہ کا متضاد اور منافقانہ کردار آج پوری دنیا کے سامنے سوالیہ نشان بنا ہو ا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک اس بات سے باخبر ہیں کہ سارے فساد کی جڑ امریکہ ہے۔ وہ امریکہ جو دنیا میں امن و خوشحالی، جمہوریت ، انسانی حقوق اور بنیادی آزادی کا علمبردار بنا ہوا ہے مگر اس کا اپنا وجود منافقت، استحصال، جھوٹ و فریب اور غنڈہ گردی پر قائم ہے۔ امریکہ نے 70 سال سے یہ طے کر رکھا ہے کہ دنیا میں اس جیسا کوئی نہیں۔ وہ ساری دنیا کا مختار کل ہے اور دنیا میں وہ جب چاہے جہاں چاہے سب کر سکتا ہے۔
1990 کے بعد امریکہ نے نیو ورلڈ آڈر کے نام پر ایک نظریہ پیش کیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اب دنیا امریکہ کے دیئے ہوئے کلیے و ضابطے کے مطابق چلے گی۔ امریکہ کے ذہن میں یہ خناس سمانے کے بعد سے لے کر اب تک دنیا بھر میں اپنی بدمعاشی کو امر کر رہا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق دنیا کے کئی ممالک کو تاراج کر چکا ہے۔
امریکی سیاست کا مرکز و محور خوف و دہشت گردی کے گردگھوم رہا ہے۔ اپنی مقبولیت اور سپرپاور کی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے آج بھی امریکہ دنیا کے دیگر ممالک کو دہشت گردی سے خوف زدہ کر کے اپنے ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جاری گزشتہ ایک دہائی سے زائد کی جنگ میں اس نے عراق، افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈ قائم کر دیئے ہیں۔ جبکہ ویتنام، شمالی کوریا، شام ، وینزویلا جیسے کئی ممالک بھی امریکی سازشوں کے ڈھسے ہوئے ہیں۔
جوہری پروگرام جس کو آج امریکہ اپنی اجارہ داری سمجھنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے خود تو جوہری طاقت حاصل کی اور سب سے پہلے اس کو جاپان کے خلاف استعمال بھی کیا۔ مگر اب امریکہ کی خواہش ہے کہ کوئی دوسرا ملک پرامن جوہری طاقت حاصل نہ کرے۔ بالخصوص یہ پابندی ایسے ممالک کے لیے ہے۔ جہاں امریکہ مفادات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ ملکوں کو آپس میں لڑانا، پھر لڑائی کو طول دینے کے لیے انہیں ہتھیار فراہم کرنا یہ بھی امریکہ کا ایک پرانا کھیل ہے۔ اپنی اسلحہ ساز فیکٹریوں کے مال کو فروخت کر کے زرمبادلہ حاصل کرنے کے لیے بھی امریکہ اور اس کی ایجنسیاں کئی ممالک کو باہم دست و گریباں کر چکی ہیں۔
آج امریکہ دہشت گردی سے دنیا کے دیگر خطوں کے عوام کے علاوہ خود امریکی باشندے بھی متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے لیے خطرات کے علاوہ بہت بڑے اور سنگین معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں کیوں کہ وار آن ٹیرر امریکی معیشت کو کھا گئی ہے۔
امریکہ نے دنیا میں جو مظالم کیے ہیں پھر اس کے ردعمل میں انصاف کے حصول اور ظلم کے خاتمے کے لیے بہت سی تحریکوں نے بھی جنم لیا ہے۔ پھر یہ عسکری گروپس مختلف مقامات پر امریکی تنصیبات اور اثاثہ جات کو انتقام میں آ کر نشانہ بناتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر ایسے گروپس کو تو فورا دہشت گردی قرار دے دیا جاتا ہے۔ مگر کوئی بھی ملک یا عالمی ادارہ دہشت گردی کے ان عوامل کو پروان چڑھانے والے امریکہ کو دہشت گرد قرار نہیں دیتا۔ ردعمل کی تو پوری دنیا میں مذمت کی جاتی ہے لیکن کوئی بھی اس جانب توجہ نہیں دے رہا کہ اگر کہیں کوئی عسکری گروپ پروان چڑھ رہا ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں۔ ان کے ساتھ ایسی کون سی ناانصافی ہوئی ہے جس کے بعدانہوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
جب عالمی ادارے آنکھوں سے تعصب کے پٹی اتار کر غیرجانبدرانہ طور پر اس حوالے سے سوچنا شروع کر دیں گے تو انہیں ہر برائی اور فساد کے پیچھے امریکہ شرارتیں ہی نظر آئیں گی۔ دنیا میں چاہے امن ہو یا جنگ، امریکہ نے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے اپنے مفادات جب خطرے میں ہوتے ہیں تو تمام اصول توڑ کر ان کا تحفظ اپنا اولین فریضہ بنا لیتا ہے۔ پھر چاہے اس سے عالمی امن تباہ ہو یا دہشت گردی کا ناسور مزید پھیلے ۔ انکل سام یہ نہیں سوچتا۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔