پاکستان ایک نظر میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں
کیا عمران خان اور اُن کے ساتھی انتظامیہ پر الزام لگا کر اُن سات بے گناہ لوگوں کی موت سے بری الذمہ ہوگئے ہیں.
FAISALABAD:
عمران خان کا کل ملتان میں ہونے والا جلسہ جس طرح اختتام پذیر ہوا وہ نہ صرف تحریکِ انصاف بلکہ پورے ملک کے لیے نہایت افسوس ناک اور باعثِ دُکھ تھا۔
مگرایک سیاسی جماعت کے جلسے میں لوگ بھگدڑ سے مر جائیں اسے آپ حکومت کے ذمے ڈالیں،کیا ہی بے تکی بات ہے۔ مرنے والوں کا کیا یہ قصور تھا کہ وہ عمران خان کے جیالے تھے ؟ ایک منٹ کے لیے آپ اپنے دل کو یہ جھوٹی تسلی دے دیجیے کہ ملتان انتظامیہ نے اپنا فریضہ صحیح طور انجام نہیں دیا مگر کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے کارکنوں کی حالت غیر ہوتے دیکھ کر بالکل بے حس ہو جائیں اور چونکہ انتظامیہ کی غلطی تھی اس لیے اپنے لوگوں کو مرتے دیکھتا رہا جائے اور اُن کو امداد کے لیے کوئی اقدام نہ کیا جائے۔
ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران ڈی۔جے بٹ کی جانب سے بار بار مطلع کیا جاتا رہا کہ لوگ بے ہوش ہو رہے ہیں پانی اور ایمبولینس کاانتظام کیاجائے مگر شاہ صاحب چونکہ فرطِ جذبات میں غرق ایک نئے پاکستان کی نوید سنا رہے تھے، اُنہیں یہ مناسب نہیں لگا کہ وہ اپنے اس نئے پاکستان کی تحریک کے سپاہیوں کی امداد کے لیے کوئی ہدایت جاری کرتے۔ اور اُنہوں نے بے زاری اور تحمکانا لہجے میں ڈی جے کو ''ٹھہریں یا رٹھہر یں'' کہہ کر خاموش رہنے کا حکم صادر کر دیا ۔شاید اُن کے لیے اپنے کارکنوں سے زیادہ اپنی تقریر اہم تھی۔
عمران خان صاحب کی تقریر کے دوران بھی بے حوش ہوتے لوگوں کو سٹیج پر منتقل کیا جاتا رہا مگر اُنہوں نے اپنے ان ''ٹائیگرز'' کی مدد کے لیے کچھ نہ کیا اور حسبِ معمول نئے پاکستان کا نقشہ کھینچتے رہے تھے اور بھارتی وزیرِ اعظم کو ''دور کی سوچ'' رکھنے کا مشورہ دے رہے تھے مگر خود اپنے قریب میں تڑپتے لوگ اُنکی نظر سے اوجھل رہے۔
جلسے کے اختتام کے بعد جب بھگڈر مچی اور گیٹ کم ہونے کے باعث لوگ رش میں دب گئے تب بھی تحریکِ انصاف کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ہدایت جاری نہ کی گئی اور چند لمحوں پہلے تک نئے پاکستان کی باتیں کرنے والے پولیس کے جھڑمٹ میں غائب ہو گئے۔ آپ ایک دفعہ پھر اس ظلم پر آنکھیں بند کر کے دل کو جھوٹی تسلی بھی دے دیجیے کہ انتظامیہ نے پانچ میں سے صرف دو گیٹ کھولے جس کے باعث بھگڈرمچی مگر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ایسے میں تحریکِ انصاف کی انتظامیہ کا فرض نا بنتا تھا کہ وہ خود اس تشویش ناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی قدم اُٹھاتی؟ کیا لوگوں کو صرف اس لیے مرتا چھوڑ دیا گیا کہ حکومت نے انتظامات صحیح نہ کیے تھے؟
تحریکِ انصاف کے جلسے کی ذمہ داری ایک ایونٹ منیجمنٹ کمپنی کو دی گئی تھی اور بقول ڈی۔سی۔او۔ ملتان، تحریکِ انصاف کی قیادت نے تحریری طور پر یہ بات کہہ تھی کہ جلسے کے اندر کا انتظام پارٹی خود سنبھالے گی اور ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی گئی تھی کہہ وہ جلسے سے باہر کا انتظام سنبھالے۔ اور رات جب جلسے میں بھگڈر مچی تو زخمیوں کو ہجوم سے نکالنے اور بر وقت ہسپتال پہنچانے کا ریسکیو ٹیموں نے کیا جو شائد اُسی ضلعی انتظامیہ نے مدعو کی تھیں جنہیں تحریکِ انصاف کے لوگ کل سے گالیاں سے رہے ہیں۔ شیخ رشید جو تحریکِ انصاف کے آجکل بڑے اتحادی ہیں نے بھی یہ اقرار کیا کہ جلسے کے انتظامات نہایت برے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے، جنہوں نے تمام عمر جلسے جلوسوں میں گزار دی ایسی بد انتظامی ہونا کیا حکومت کاْ قصور تھا؟اور اُس ایونٹ منیجمنٹ کمپنی پر کوئی کیوں الزام نہیں لگا رہا جس کے ذمے جلسے کے انتظامات اور بجلی کا نظام تھا جو عین وقت پر بجھا دی گئی؟ اور جس کی وجہ سے کئی پارٹی راہنماوں کو کھمبے پر چڑھ کر سٹیج تک جانا پڑا؟ شاہ محمود قریشی صاحب جب رات کو بھرائی ہوئی آواز میں ڈی۔سی۔او۔ کو اموات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے تب اُنہیں یہ کیوں بھول گیا کہ زخمیوں کی امداد کے لیے اُن سے مدد کی اپیل کی گئی تھی جسے اُنہوں نے نظرانداز کر دیا تھا۔ کیا اُنہیں معلوم نا تھا کہ جب سانس نہ آرہی ہو تو ''ٹھہریں یار ٹھہریں'' کا مشورہ موت کا سبب بن جاتا ہے؟
عمران خان کو پارٹی لیڈر ہونے کے ناطے کل ہی زخمیوں اور شہدا کے گھر جا کر اُن سے اظہارِ افسوس کرنا چاہیے تھا مگر وہ رات ہی اسلام آباد لوٹ گئے۔ اس سب کے بعد آپ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بتائیے کہ اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عمران خان اور اُن کے ساتھی انتظامیہ پر الزام لگا کر اُن سات بے گناہ لوگوں کی موت سے بری الذمہ ہوگئے ہیں جو عمران خان کے دکھائے گئے خوابوں کے اسیر ہو کر آئے تھے، جو اُن پر اعتماد کر کے آئے تھے، جو اُنہیں اپنا نجات دہندہ مانتے تھے مگر اپنی ہی زندگیوں سے نجات حاصل کر گئے؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
عمران خان کا کل ملتان میں ہونے والا جلسہ جس طرح اختتام پذیر ہوا وہ نہ صرف تحریکِ انصاف بلکہ پورے ملک کے لیے نہایت افسوس ناک اور باعثِ دُکھ تھا۔
مگرایک سیاسی جماعت کے جلسے میں لوگ بھگدڑ سے مر جائیں اسے آپ حکومت کے ذمے ڈالیں،کیا ہی بے تکی بات ہے۔ مرنے والوں کا کیا یہ قصور تھا کہ وہ عمران خان کے جیالے تھے ؟ ایک منٹ کے لیے آپ اپنے دل کو یہ جھوٹی تسلی دے دیجیے کہ ملتان انتظامیہ نے اپنا فریضہ صحیح طور انجام نہیں دیا مگر کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے کارکنوں کی حالت غیر ہوتے دیکھ کر بالکل بے حس ہو جائیں اور چونکہ انتظامیہ کی غلطی تھی اس لیے اپنے لوگوں کو مرتے دیکھتا رہا جائے اور اُن کو امداد کے لیے کوئی اقدام نہ کیا جائے۔
ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران ڈی۔جے بٹ کی جانب سے بار بار مطلع کیا جاتا رہا کہ لوگ بے ہوش ہو رہے ہیں پانی اور ایمبولینس کاانتظام کیاجائے مگر شاہ صاحب چونکہ فرطِ جذبات میں غرق ایک نئے پاکستان کی نوید سنا رہے تھے، اُنہیں یہ مناسب نہیں لگا کہ وہ اپنے اس نئے پاکستان کی تحریک کے سپاہیوں کی امداد کے لیے کوئی ہدایت جاری کرتے۔ اور اُنہوں نے بے زاری اور تحمکانا لہجے میں ڈی جے کو ''ٹھہریں یا رٹھہر یں'' کہہ کر خاموش رہنے کا حکم صادر کر دیا ۔شاید اُن کے لیے اپنے کارکنوں سے زیادہ اپنی تقریر اہم تھی۔
عمران خان صاحب کی تقریر کے دوران بھی بے حوش ہوتے لوگوں کو سٹیج پر منتقل کیا جاتا رہا مگر اُنہوں نے اپنے ان ''ٹائیگرز'' کی مدد کے لیے کچھ نہ کیا اور حسبِ معمول نئے پاکستان کا نقشہ کھینچتے رہے تھے اور بھارتی وزیرِ اعظم کو ''دور کی سوچ'' رکھنے کا مشورہ دے رہے تھے مگر خود اپنے قریب میں تڑپتے لوگ اُنکی نظر سے اوجھل رہے۔
جلسے کے اختتام کے بعد جب بھگڈر مچی اور گیٹ کم ہونے کے باعث لوگ رش میں دب گئے تب بھی تحریکِ انصاف کی انتظامیہ کی جانب سے کوئی ہدایت جاری نہ کی گئی اور چند لمحوں پہلے تک نئے پاکستان کی باتیں کرنے والے پولیس کے جھڑمٹ میں غائب ہو گئے۔ آپ ایک دفعہ پھر اس ظلم پر آنکھیں بند کر کے دل کو جھوٹی تسلی بھی دے دیجیے کہ انتظامیہ نے پانچ میں سے صرف دو گیٹ کھولے جس کے باعث بھگڈرمچی مگر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ایسے میں تحریکِ انصاف کی انتظامیہ کا فرض نا بنتا تھا کہ وہ خود اس تشویش ناک صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوئی قدم اُٹھاتی؟ کیا لوگوں کو صرف اس لیے مرتا چھوڑ دیا گیا کہ حکومت نے انتظامات صحیح نہ کیے تھے؟
تحریکِ انصاف کے جلسے کی ذمہ داری ایک ایونٹ منیجمنٹ کمپنی کو دی گئی تھی اور بقول ڈی۔سی۔او۔ ملتان، تحریکِ انصاف کی قیادت نے تحریری طور پر یہ بات کہہ تھی کہ جلسے کے اندر کا انتظام پارٹی خود سنبھالے گی اور ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی گئی تھی کہہ وہ جلسے سے باہر کا انتظام سنبھالے۔ اور رات جب جلسے میں بھگڈر مچی تو زخمیوں کو ہجوم سے نکالنے اور بر وقت ہسپتال پہنچانے کا ریسکیو ٹیموں نے کیا جو شائد اُسی ضلعی انتظامیہ نے مدعو کی تھیں جنہیں تحریکِ انصاف کے لوگ کل سے گالیاں سے رہے ہیں۔ شیخ رشید جو تحریکِ انصاف کے آجکل بڑے اتحادی ہیں نے بھی یہ اقرار کیا کہ جلسے کے انتظامات نہایت برے تھے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاست دانوں کے ہوتے ہوئے، جنہوں نے تمام عمر جلسے جلوسوں میں گزار دی ایسی بد انتظامی ہونا کیا حکومت کاْ قصور تھا؟اور اُس ایونٹ منیجمنٹ کمپنی پر کوئی کیوں الزام نہیں لگا رہا جس کے ذمے جلسے کے انتظامات اور بجلی کا نظام تھا جو عین وقت پر بجھا دی گئی؟ اور جس کی وجہ سے کئی پارٹی راہنماوں کو کھمبے پر چڑھ کر سٹیج تک جانا پڑا؟ شاہ محمود قریشی صاحب جب رات کو بھرائی ہوئی آواز میں ڈی۔سی۔او۔ کو اموات کا ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے تب اُنہیں یہ کیوں بھول گیا کہ زخمیوں کی امداد کے لیے اُن سے مدد کی اپیل کی گئی تھی جسے اُنہوں نے نظرانداز کر دیا تھا۔ کیا اُنہیں معلوم نا تھا کہ جب سانس نہ آرہی ہو تو ''ٹھہریں یار ٹھہریں'' کا مشورہ موت کا سبب بن جاتا ہے؟
عمران خان کو پارٹی لیڈر ہونے کے ناطے کل ہی زخمیوں اور شہدا کے گھر جا کر اُن سے اظہارِ افسوس کرنا چاہیے تھا مگر وہ رات ہی اسلام آباد لوٹ گئے۔ اس سب کے بعد آپ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے بتائیے کہ اس ظلم کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا عمران خان اور اُن کے ساتھی انتظامیہ پر الزام لگا کر اُن سات بے گناہ لوگوں کی موت سے بری الذمہ ہوگئے ہیں جو عمران خان کے دکھائے گئے خوابوں کے اسیر ہو کر آئے تھے، جو اُن پر اعتماد کر کے آئے تھے، جو اُنہیں اپنا نجات دہندہ مانتے تھے مگر اپنی ہی زندگیوں سے نجات حاصل کر گئے؟
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔