حقیقی مسائل پر احتجاج
عوام کے حقیقی مسائل پر الیکٹرانک میڈیا پر صرف جھلکیاں اور اخبارات کے کونے کھانچے میں جگہ پاتے ہیں
آئین، قانون، شقیں، انتخابات، شفافیت اور انصاف، یہ سارے الفاظ آج کے دور میں بے معنی اور لفاظی کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ عوام کے حقیقی مسائل پر الیکٹرانک میڈیا پر صرف جھلکیاں اور اخبارات کے کونے کھانچے میں جگہ پاتے ہیں۔ جب پیداواری کارکنان اور شہری پریشانیوں سے بلبلا اٹھتے ہیں تو ان کے بپھرے ہوئے غصے احتجاج کی شکل میں سڑکوں تک آجاتے ہیں۔ حال ہی میں 'کسان اتحا د' نے ملتان روڈ کو دھرنا دے کر بند کردیا۔
اس لیے کہ لاکھوں ایکڑ زمینوں کو سیراب کرنے والے پانی اور بجلی کی سبسڈیز (رعایتیں) واپس لینے پر 'کسان اتحاد' سراپا احتجاج بن گیا۔ ہماری حکومتیں ہر سال 10 فیصد دفاعی اخراجات بڑھاتی جاتی ہیں جب کہ کسانوں اور مزدوروں کی سہولتوں، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں ہر سال کمی کی جاتی ہے۔ اگر کسانوں کو سستی بجلی اور مفت پانی فراہم کیا جائے تو چاول 100 روپے کلو ملنے کے بجائے 50 روپے کلو مل سکتا ہے۔ مگر ہم کسانوں کو سبسڈیز دینے کے بجائے، میزائلوں اور بم پروف گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریاست کا وجود ہی جنگ کی تخلیق ہے۔ ملکوں کی سرحدوں پر پہرے دار کھڑے کرنا ضروری ہے، خواہ لوگ بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائیں ۔
امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے میں ہمارے حکمران خود ذمے دار ہیں۔ طالبان کو حکومت نے خود تخلیق کیا اور ان ہی سے لڑنے پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں ہیں ۔ جب تک جان جوکھوں میں ڈال کر جدوجہد نہ کی جائے، اس وقت تک کوئی نتائج نہیں نکلتے ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے عرصے سے اپنی ملازمت کو مستقل کروانے اور تنخواہوں کے واجبات کی ادائیگی کے لیے مسلسل جدوجہد کی، ان پر لاٹھی چارج، واٹرکینن، ربڑ کی گولی، آنسو گیس، گرفتاریاں اور نہ جانے کیا کچھ کیا گیا ۔ آخرکار پنجاب اور سندھ حکومت کو مزدوروں کی بہادرانہ جدوجہد کی وجہ سے مستقل کرنے اور واجبات کی ادائیگی کرنا پڑی ۔ یہ ہے محنت کش طبقے کی لازوال قوت ۔ اسی طرح سندھی لینگویج ٹیچرز کو تقررنامے موصول ہوئے دو سال ہوگئے تھے لیکن انھیں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔
پھر جب انھوں نے پیپلز پارٹی کا جھنڈا لے کر بلاول ہاؤس کے سامنے کئی دنوں تک مظاہرے کیے، ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس کی جلن، واٹرکینن کی بوچھاڑ، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کے عمل سے گزر گئے تو یہ کہا جانے لگا کہ ان کی بھرتی غلط اور نااہلیت کی بنیاد پر ہوئی ہے ۔ بعدازاں سننے میں آیا کہ آخرکار وہ اپنے اتحاد کے بل بوتے پر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اگر ان کی تقرری غلط تھی تو کیا وردی بے وردی نوکر شاہی کی بھرتیاں شفاف ہیں ۔
کیا اعلیٰ اداروں کے سربراہان منظور نظر نہیں ہیں؟ کیا حکمراں دولت کی بنیاد پر منتخب ہو کر نہیں آتے۔ اسی طرح کے ایم سی اور ایچ ایم سی کے خاکروبوں اور دیگر عملے کو مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی تھیں ، وہ مسلسل پریس کانفرنس، ہڑتالیں اور مظاہرے وغیرہ کرتے آرہے تھے ۔ انھوں نے بھی اپنی طویل جدوجہد، قربانیوں، استقامت اور اتحاد کی بنیاد پر اپنے مطالبات منوا لیے ہیں اور عید سے قبل واجبات وصول کرلیے ہیں ۔ اس سے قبل جونیئر ڈاکٹروں نے بے مثال قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد مطالبات منوائے ۔ جدوجہد کے دوران ظالم حکمران اور بے حس میڈیا ڈاکٹروں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہے ۔
کچھ عرصہ قبل پہلے صادق آباد کے مزدوروں نے برسوں سے جدوجہد کے نتیجے میں اپنے برطرف دو مزدور رہنماؤں کو تو بحال کروا لیا لیکن گزشتہ 8 ماہ میں نکالے گئے 50 مزدوروں کو ابھی تک انتظامیہ نے بحال نہیں کیا ۔ مزدور مسلسل صادق آباد پریس کلب اور کمپنی کے سامنے مظاہرے اور احتجاج کررہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے محنت کشوں کی برسوں سے کی جانے والی تحریک قابل مثال ہے ۔ وہ اپنے کچھ مطالبات منوا بھی چکے ہیں جب کہ انتظامیہ ابھی بھی ان کے بیشتر مطالبات ماننے سے مسلسل گریزاں ہے ، مگر محنت کش سخت نامناسب حالات اور مشکلات کے باوجود جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
چند دنوں قبل کی بات ہے کہ مویشی منڈی کراچی میں پانی اور بجلی کی سپلائی جان بوجھ کر مافیا نے بند کردی ۔ جہاں ہزاروں لاکھوں جانوروں اور انسانوں کی آمدورفت اور عبوری رہائش ہو، وہاں کھلے میدانی صحرا میں بجلی اور پانی کے بغیر وقت گزارنا اور زندہ رہنا کتنا مشکل اور جان جوکھوں کی بات ہے ۔ اس بندش سے پیاس کے مارے جانور اور انسان، پانی اور بجلی مافیا سے انتہائی مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
آخرکار بلاقیادت اور بلا پارٹی بازی مویشیوں کے چرواہے، مالکان اور خریداروں کا فطری اتحاد ہوگیا اور انھوں نے شاہراہ کو بند کردیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک پانی اور بجلی فراہم نہیں کی جائے گی تب تک دھرنا اور روڈ بلاک کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا، جس پر پولیس نے مظاہرین پر بے دریغ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں شروع کردیں ۔ آخرکار چرواہوں، مویشی مالکان اور خریداروں کے اتحاد نے رنگ دکھایا اور انتظامیہ نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی اور انھیں بجلی اور پانی کی ترسیل پھر سے شروع کردی ۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے نے تحقیقی رپورٹ پیش کی ہے کہ پا کستان میں شمسی توانائی حاصل کرکے 3 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم دفاعی اخراجات میں 25 فیصد کمی کردیں تو ایسا ممکن ہے ۔ مگر اسلحے کے بیوپاری، خاص کر امریکا اور چین جہاں سے ہم زیادہ تر اسلحہ خریدتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرنے دیں گے ۔ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سرمایہ بحق عوام ضبط کر کے سمندر سے صاف پانی حاصل کرنے کا پلانٹ لگا سکتے ہیں لیکن ملٹی نیشنل کی درجنوں کمپنیاں جو روزانہ اربوں روپے کا پانی پاکستانی عوام کو فروخت کرتی ہیں ان کا منافع مارا جائے گا ۔ اس لیے وہ حکومت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرکے ایسا کرنے سے دور رکھتی ہیں ، جیسا کہ ایران کو دور رکھا جارہا ہے ۔ یہ چھوٹی چھوٹی مقامی، پیشہ ورانہ اور اداروں کی بنیاد پر اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے ، اپنے مطالبات منوائیں گے اور اقتدار مافیا کو للکارتے بھی جائیں گے ۔
(تصحیح: گزشتہ مضمون میں پہلی انٹرنیشنل 1864-67 سہواً چھپی ، یہ انٹرنیشنل (1864-76) ہوئی، اسی طرح سوئٹزرلینڈ کے شہر سینٹ ایمائیر میں کانگریس کا انعقاد 1872 میں ہوا ۔)
اس لیے کہ لاکھوں ایکڑ زمینوں کو سیراب کرنے والے پانی اور بجلی کی سبسڈیز (رعایتیں) واپس لینے پر 'کسان اتحاد' سراپا احتجاج بن گیا۔ ہماری حکومتیں ہر سال 10 فیصد دفاعی اخراجات بڑھاتی جاتی ہیں جب کہ کسانوں اور مزدوروں کی سہولتوں، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں ہر سال کمی کی جاتی ہے۔ اگر کسانوں کو سستی بجلی اور مفت پانی فراہم کیا جائے تو چاول 100 روپے کلو ملنے کے بجائے 50 روپے کلو مل سکتا ہے۔ مگر ہم کسانوں کو سبسڈیز دینے کے بجائے، میزائلوں اور بم پروف گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ریاست کا وجود ہی جنگ کی تخلیق ہے۔ ملکوں کی سرحدوں پر پہرے دار کھڑے کرنا ضروری ہے، خواہ لوگ بھوک سے مر ہی کیوں نہ جائیں ۔
امن و امان کی صورتحال کو بگاڑنے میں ہمارے حکمران خود ذمے دار ہیں۔ طالبان کو حکومت نے خود تخلیق کیا اور ان ہی سے لڑنے پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ محنت کشوں کے مسائل جوں کے توں ہیں ۔ جب تک جان جوکھوں میں ڈال کر جدوجہد نہ کی جائے، اس وقت تک کوئی نتائج نہیں نکلتے ۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے عرصے سے اپنی ملازمت کو مستقل کروانے اور تنخواہوں کے واجبات کی ادائیگی کے لیے مسلسل جدوجہد کی، ان پر لاٹھی چارج، واٹرکینن، ربڑ کی گولی، آنسو گیس، گرفتاریاں اور نہ جانے کیا کچھ کیا گیا ۔ آخرکار پنجاب اور سندھ حکومت کو مزدوروں کی بہادرانہ جدوجہد کی وجہ سے مستقل کرنے اور واجبات کی ادائیگی کرنا پڑی ۔ یہ ہے محنت کش طبقے کی لازوال قوت ۔ اسی طرح سندھی لینگویج ٹیچرز کو تقررنامے موصول ہوئے دو سال ہوگئے تھے لیکن انھیں تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی گئی ۔
پھر جب انھوں نے پیپلز پارٹی کا جھنڈا لے کر بلاول ہاؤس کے سامنے کئی دنوں تک مظاہرے کیے، ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس کی جلن، واٹرکینن کی بوچھاڑ، لاٹھی چارج اور گرفتاریوں کے عمل سے گزر گئے تو یہ کہا جانے لگا کہ ان کی بھرتی غلط اور نااہلیت کی بنیاد پر ہوئی ہے ۔ بعدازاں سننے میں آیا کہ آخرکار وہ اپنے اتحاد کے بل بوتے پر اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوگئے ۔ اگر ان کی تقرری غلط تھی تو کیا وردی بے وردی نوکر شاہی کی بھرتیاں شفاف ہیں ۔
کیا اعلیٰ اداروں کے سربراہان منظور نظر نہیں ہیں؟ کیا حکمراں دولت کی بنیاد پر منتخب ہو کر نہیں آتے۔ اسی طرح کے ایم سی اور ایچ ایم سی کے خاکروبوں اور دیگر عملے کو مہینوں سے تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی تھیں ، وہ مسلسل پریس کانفرنس، ہڑتالیں اور مظاہرے وغیرہ کرتے آرہے تھے ۔ انھوں نے بھی اپنی طویل جدوجہد، قربانیوں، استقامت اور اتحاد کی بنیاد پر اپنے مطالبات منوا لیے ہیں اور عید سے قبل واجبات وصول کرلیے ہیں ۔ اس سے قبل جونیئر ڈاکٹروں نے بے مثال قربانیوں اور طویل جدوجہد کے بعد مطالبات منوائے ۔ جدوجہد کے دوران ظالم حکمران اور بے حس میڈیا ڈاکٹروں کے خلاف مسلسل زہر اگلتے رہے ۔
کچھ عرصہ قبل پہلے صادق آباد کے مزدوروں نے برسوں سے جدوجہد کے نتیجے میں اپنے برطرف دو مزدور رہنماؤں کو تو بحال کروا لیا لیکن گزشتہ 8 ماہ میں نکالے گئے 50 مزدوروں کو ابھی تک انتظامیہ نے بحال نہیں کیا ۔ مزدور مسلسل صادق آباد پریس کلب اور کمپنی کے سامنے مظاہرے اور احتجاج کررہے ہیں۔ گوجرانوالہ کے محنت کشوں کی برسوں سے کی جانے والی تحریک قابل مثال ہے ۔ وہ اپنے کچھ مطالبات منوا بھی چکے ہیں جب کہ انتظامیہ ابھی بھی ان کے بیشتر مطالبات ماننے سے مسلسل گریزاں ہے ، مگر محنت کش سخت نامناسب حالات اور مشکلات کے باوجود جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
چند دنوں قبل کی بات ہے کہ مویشی منڈی کراچی میں پانی اور بجلی کی سپلائی جان بوجھ کر مافیا نے بند کردی ۔ جہاں ہزاروں لاکھوں جانوروں اور انسانوں کی آمدورفت اور عبوری رہائش ہو، وہاں کھلے میدانی صحرا میں بجلی اور پانی کے بغیر وقت گزارنا اور زندہ رہنا کتنا مشکل اور جان جوکھوں کی بات ہے ۔ اس بندش سے پیاس کے مارے جانور اور انسان، پانی اور بجلی مافیا سے انتہائی مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔
آخرکار بلاقیادت اور بلا پارٹی بازی مویشیوں کے چرواہے، مالکان اور خریداروں کا فطری اتحاد ہوگیا اور انھوں نے شاہراہ کو بند کردیا اور مطالبہ کیا کہ جب تک پانی اور بجلی فراہم نہیں کی جائے گی تب تک دھرنا اور روڈ بلاک کا خاتمہ نہیں کیا جائے گا، جس پر پولیس نے مظاہرین پر بے دریغ لاٹھی چارج اور گرفتاریاں شروع کردیں ۔ آخرکار چرواہوں، مویشی مالکان اور خریداروں کے اتحاد نے رنگ دکھایا اور انتظامیہ نوٹس لینے پر مجبور ہوگئی اور انھیں بجلی اور پانی کی ترسیل پھر سے شروع کردی ۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے نے تحقیقی رپورٹ پیش کی ہے کہ پا کستان میں شمسی توانائی حاصل کرکے 3 لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے ۔ اگر ہم دفاعی اخراجات میں 25 فیصد کمی کردیں تو ایسا ممکن ہے ۔ مگر اسلحے کے بیوپاری، خاص کر امریکا اور چین جہاں سے ہم زیادہ تر اسلحہ خریدتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرنے دیں گے ۔ ہم ملٹی نیشنل کمپنیوں کا سرمایہ بحق عوام ضبط کر کے سمندر سے صاف پانی حاصل کرنے کا پلانٹ لگا سکتے ہیں لیکن ملٹی نیشنل کی درجنوں کمپنیاں جو روزانہ اربوں روپے کا پانی پاکستانی عوام کو فروخت کرتی ہیں ان کا منافع مارا جائے گا ۔ اس لیے وہ حکومت پر اپنا اثر و رسوخ قائم کرکے ایسا کرنے سے دور رکھتی ہیں ، جیسا کہ ایران کو دور رکھا جارہا ہے ۔ یہ چھوٹی چھوٹی مقامی، پیشہ ورانہ اور اداروں کی بنیاد پر اپنے حقوق کے لیے لڑتے ہوئے ، اپنے مطالبات منوائیں گے اور اقتدار مافیا کو للکارتے بھی جائیں گے ۔
(تصحیح: گزشتہ مضمون میں پہلی انٹرنیشنل 1864-67 سہواً چھپی ، یہ انٹرنیشنل (1864-76) ہوئی، اسی طرح سوئٹزرلینڈ کے شہر سینٹ ایمائیر میں کانگریس کا انعقاد 1872 میں ہوا ۔)