بھارتی آبی جارحیت اور ہماری غفلت

قدرتی آفات کے بھاری نقصانات ملک کی معیشت کو (جو ویسے ہی بحران کا شکار ہے) بھگتنے پڑیں گے۔

اس وقت پنجاب، آزاد کشمیر اور سندھ کے کچھ علاقے بدترین سیلاب کے نقصانات سے دوچار ہیں۔ ہر طرف تباہی اورمایوسی کے آثار نمایاں ہیں۔ اس قدرتی آفات کے بھاری نقصانات ملک کی معیشت کو (جو ویسے ہی بحران کا شکار ہے) بھگتنے پڑیں گے۔ یہ نقصانات مجموعی پیداوار میں کمی، برآمدات میں کٹوتی، بیروزگاری، انفرا اسٹرکچر کی بربادی اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں پورے ملک کا پیچھا کریں گے ۔

اگر صرف زراعت کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو تقریباً 17 لاکھ ایکڑ اراضی جو کپاس کی کاشت کے لیے مشہور تھی زیر آب آگئی ۔ جب کہ چاول کی کاشت کے لیے موزوں 7 لاکھ ایکڑ سے زیادہ اراضی پانی کی نذر ہوگئی جب کہ پاکستان کسان محاذ کے دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 16 لاکھ ایکڑ کے اوپر پھیلی ہوئی کاٹن کی فصل (جو کل پیداواری رقبے کا تقریباً 23 فیصد بنتا ہے) تباہ ہوچکی ۔ جب کہ چاول کی تقریباً 14 لاکھ ایکڑ پر محیط فصل (جو کل پیداواری رقبے کا 2715 فیصد بنتا ہے) ضایع ہوئی ۔

باسمتی چاول کی ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق اگر ایک ایکڑ کی فصل کی مالیت کا تخمینہ 30,000 روپے لگایا جائے تو یہ تقریباً70 ارب روپے کا نقصان بنتا ہے جب کہ حکومت کی طرف سے کسانوں اور کاشتکاروں کو جو معاوضہ دیا جا رہا ہے وہ صرف 4000 روپے فی ایکڑ کے حساب سے ہے اور وہ بھی صرف ان کسانوں کے لیے جن کے پاس 10 ایکڑ یا اس سے کم اراضی ہے ۔ یعنی صرف چھوٹے کاشتکار۔ جب کہ حسب توقع حکومتی اعدادوشمار اور ریکارڈز اس سلسلے میں اپ ڈیٹ نہیں ہیں۔ تو یقینا بہت سے کاشتکار اس معاوضے سے محروم رہ جائیں گے ۔ کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ یہ معاوضہ کم ازکم 10000 روپے فی ایکڑ تو دیا جائے تو ان کے دکھوں کا کچھ تو مداوا ہوسکے ۔

لیکن یقیناً ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناتے جس کی معیشت کوکئی سنگین مسائل درپیش ہیں یہ ضروریات مکمل طور پر پوری کرنا شاید ناممکن ہی نظر آتا ہے ۔ سیلاب سے ہونے والی ان تباہ کاریوں کی مزید تفصیلات آئندہ آنے والے دنوں میں مزید ظاہر ہوں گی پچھلے چند سالوں میں آنے والے متواتر سیلابوں سے ملکی معیشت کو کس قدر نقصان پہنچا اس کا ذکر میں کچھ عرصے پہلے اپنے کالم میں کر چکا ہوں ۔ سیلاب سے پہنچنے والی ان تباہ کاریوں میں بھارت کی ریشہ دوانیاں اور ہماری غفلت دونوں کا برابر کا حصہ ہے ۔


دریائے چناب میں ہونے والی طغیانی کا ذکر پاکستان کا محکمہ موسمیات اپنے محدود وسائل ہونے کے باوجود پہلے ہی کرچکا تھا ۔ لیکن ہم اس پر بروقت کوئی اقدام نہیں کرسکے ۔ اس بروقت اقدام سے انسانی جانوں کے ضیاع، مال مویشی کے نقصانات کو کنٹرول کیا جاسکتا تھا اور کچھ جگہوں پر بند توڑنے کے اقدامات کو بہتر طریقے سے پلان کیا جاسکتا تھا تاکہ کچھ فصلوں کو بچایا جاسکتا تھا ۔ البتہ فصلوں کے ضایع ہونے اور زمین کی زرخیزی ختم ہونے کے عمل کو روکنا ممکن نہیں تھا ۔ جس کے لیے زیادہ طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی جس میں جنگلات کا اگاؤ اور ڈیمز بنانا وغیرہ شامل تھا تاکہ سیلاب کے اثر کو روکا جاسکے اور پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرکے سردیوں کے موسم میں استعمال کرنے کا آپشن موجود رہے ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ کیا جاسکا ۔

ریلیف آپریشن میں جس قدر پھرتی اور چابکدستی کا مظاہرہ کیا گیا جو یقینا قابل تحسین امر ہے لیکن یہ سب شارٹ ٹرم پالیسیاں ہیں اور فی الحال آگے آنے والے دور میں مزید ممکنہ سیلابوں سے بچاؤ کے لیے فی الحال کوئی موثر منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کا روزانہ کا بجٹ وزیر اعظم کے روزانہ کے خرچ سے ابھی بھی کم ہے، حالانکہ اس ادارے کو پورے ملک میں آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنا ہوتا ہے۔ جس پر یقینا حکومتی غوروخوص انتہائی ضروری ہے دوسری طرف بھارتی آبی جارحیت بھی ہمارے مسائل بڑھانے کا ایک بڑا سبب ہے ۔

ایک طرف تو بھارت انڈس واٹر معاہدے کی روح کے برخلاف ڈیم بنا رہا ہے تاکہ اپنے لیے سستی بجلی بناسکے اور دوسری طرف پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھاسکے ۔ تاکہ اس اضافی پانی کو کاشت کاری کے لیے استعمال کرسکے جب کہ دوسری طرف ہر سال بغیر کسی واضح وارننگ کے پانی پاکستانی دریاؤں میں چھوڑ دیتا ہے ۔ جس سے سیلاب کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس سال بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ بھارت میں ہونے والی شدید بارشوں سے دریاؤں میں طغیانی آئی اور پاکستان کو سیلاب کے خطرے سے اس وقت آگاہ کیا گیا جب سیلابی پانی کا ریلا آگھنورکے مقام پر پہنچ گیا ۔ اور اس کو مرالہ پہنچنے میں صرف 3 سے 4 گھنٹے کا وقت تھا۔ یقیناً اتنے مختصر نوٹس پر فلڈ مینجمنٹ کو صحیح طور پر نہیں پلان کیا جاسکا ۔

تفصیلات کے مطابق بھارت کا مرکزی واٹر کمیشن مقبوضہ کشمیر کو کور نہیں کرتا ۔ جس کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں واقع 175 فلڈ اسٹیشنز پر کوئی پیشگی وارننگ جاری نہیں کی گئی اور نتیجتاً مقبوضہ کشمیر میں بھی سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوگئے ۔ ہزاروں لوگ بے گھر اور ہزاروں ایکڑ اراضی زیرآب آگئی۔ اور وادی کشمیر کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا جب کہ یہی صورتحال آزاد کشمیر کو بھی درپیش رہی ۔ آنے والے دور میں بھی یہ صورتحال ہمارا سامنا کرتی رہے گی ۔ اگر ہم نے اپنی ترجیحات نہ بدلیں تو ہم ہر سال یا دو سال میں ان ہی سانحات کو برداشت کرتے رہیں گے۔ ہندوستان کے اس رویے کا حل تو شاید ہمارے پاس موجود نہیں لیکن کم ازکم منظم منصوبہ بندی سے ہم اپنی غفلت پر تو قابو پاسکتے ہیں ۔ اس کے لیے اگر ہمیں بین الاقوامی اداروں کی مدد بھی لینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کاش کہ ہمارے منصوبہ ساز اور حکمران اپنی ترجیحات کو بدل کر طویل المدتی منصوبہ بندی کرسکیں ۔
Load Next Story