’پھر مار کے دیکھ‘
بھارت کے پاکستان اور مسلم قوم کے دشمن وزیر اعظم نے پہلے تو دھمکیوں سے اپنے نیاز مندوں کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا
بھارت کے پاکستان اور مسلم قوم کے دشمن وزیر اعظم نے پہلے تو دھمکیوں سے اپنے نیاز مندوں کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا پھر ان دھمکیوں کو تڑکا لگانے کا موقع مل گیا پاکستان میں سیلاب آ گیا اور بھارت نے پاکستان کے چُرائے ہوئے پانی کا ایک بڑا سا ریلا پاکستان کی طرف 'غلطی' سے چھوڑ دیا جس نے پاکستان میں تباہی کو دوگنا کر دیا۔ پہلے تو اسے ایک غلط فہمی قرار دیا پھر اس کے افسروں کی تسکین نہ ہوئی تو انھوں نے اس حرکت کو دانستہ قرار دے دیا اور اس کو بڑے ہی طنزیہ اور ہتک آمیز لہجے میں بیان کیا جسے پاکستانیوں نے ٹی وی پر دیکھا۔
امریکا وغیرہ کی نئی نئی شہہ پا کر شیر بنے ہوئے بھارت نے مزید یہ کیا کہ پاکستان کے خلاف ذرا ہلکی سی جنگ شروع کر دی جو کسی باقاعدہ بڑی جنگ کی ایک جھلک قرار دی جا سکتی ہے۔ ہمارے کوئی ایک سو کے قریب سرحدی گاؤں خالی ہو گئے اور ان کے مکین اپنے مال مویشی سمیت نقل مکانی کر گئے۔ ادھر بھارت اپنی پاکستان دشمن کارروائیوں میں بدستور مصروف رہا اور اس کی توپوں کے گولے ہماری آبادیوں پر گرتے رہے۔ اس سب کھلی اور ننگی جارحیت کے جواب میں ہم چپ رہے اور اپنے ایٹم بم کی مالش کرتے رہے ساتھ ساتھ اپنی بے بسی بے ہمتی اور ذہنی نقاہت میں اپنے ایک شاعر میاں محمد کا مصرع بھی گنگناتے رہے کہ ''لِسے دا کَم میاں محمد رونا یا نَس پینا'' یعنی کسی کمزور کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ رونا شروع کر دے یا پھر بھاگ جائے۔
ہم نے کیا کیا یہ اپنی قوم سے پوچھیں جو اپنے حکمرانوں کی طرح نہ روئی نہ بھاگی بس اندر ہی اندر جلتی رہی کیونکہ اس نے ہندوؤں کی غلامی کبھی نہیں کی تھی البتہ ان پر حکمرانی جی بھر کر کی اور یہ حکمرانی بادشاہوں کی حکمرانی تھی اور شاہی طرزِ حکمرانی تو آپ جانتے ہی ہیں۔ اس میں اگر جودھا اکبر جیسے قصے تھے تو ان پڑھ اکبر کے نو رتن بھی تھے جنھوں نے ہندوستان کو ایک ملک بنا دیا تھا راجواڑوں کو ختم کر کے ایک متحدہ ملک۔ دنیا نے اس ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا۔ ہندوستان میں اپنے شاہی زوال کے بعد ہندوؤں سمیت غیر ملکی سامراج کی غلامی کی لیکن ہندوستان کی مسلمان قوم کے سر سے خُوئے سُلطانی نہ گئی۔ انگریز بھی ہمیں یاد دلاتے رہے کہ یہاں کے مسلمان ہمارے اس لیے مخالف ہیں کہ ہم نے یہ ملک ان سے چھینا ہے جب کہ ہندو قوم اپنے اس نئے مہاراج کی تابعدار رہی۔ کالے پانی اور پھانسیاں مسلمان علماء اور زعما نے پائیں مگر آزادی کی جدوجہد جاری رکھی۔
عقلمند انگریز حکمرانوں نے جاتے جاتے مسلمان قوم کے خلاف یہ انتقامی کارروائی کی کہ اپنے بنائے ہوئے اور اپنے تابعدار مسلمان رؤساء کو مسلمانوں کا حکمران بنا دیا۔ برطانیہ آج بھی ہمارا دوسرا گھر ہے اور ہمارے حکمرانوں کی آل اولاد اور مال و دولت سب برطانیہ میں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی نئی نسل بڑی مشکل سے اردو سیکھتی ہے کیونکہ اس کی مادری زبان انگریزی یہاں کے عوام میں نہیں چلتی اور ان کو بے وقوف بنانے کے لیے اردو زبان مجبوری ہے۔ چند الفاظ میں عرض ہے کہ جب برطانیہ عظمیٰ نے اپنی قلمرو کو محدود کر دیا اور اپنا عالمی سامراجی کردار ختم کر دیا تو اپنی جگہ نئے ابھرتے ہوئے سامرج امریکا کو دے دی چنانچہ ہم بھی امریکا کی تحویل میں چلے گئے۔ آج ہم سر تا پیر امریکا کے محتاج ہیں اور اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اس سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتے۔
ہمارے خطے میں بھارت امریکا کا مفاداتی ساتھی ہے اس لیے ہم بھارت کے بھی بالواسطہ محکوم ہیں۔ ہمارے حکمران اشرافیہ میں اتنا شعور نہیں تھا اور نہ ہی اتنی ہمت تھی کہ وہ ایک آزاد ملک کی تعمیر کرتی۔ ہم امریکا کی غلامی میں ہی پختہ کار ہوتے گئے۔ آج ہماری پوری اجتماعی زندگی ہماری نہیں امریکا کی ہے۔ آج ہمارے حکمران امریکا کے اشاروں پر رقصاں ہیں اور عوام میں اگر کبھی ان کی غیرت جاگ اٹھتی ہے تو ''پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمراں کی ساحری'' اور یہ کام بہت ہی آسان ہے۔ ملکہ برطانیہ کی رعایا اور آدھے پاکستانی لیڈر طاہر القادری کا ذکر میں آپ کی یاددہانی کے لیے بار بار کرتا ہوں اور عمران خان کے دونوں لخت جگر اور بیٹے برطانوی شہری ہیں جو اپنی والدہ کے پاس رہتے ہیں اور والدہ اب نام کی بھی روادار نہیں بن رہی۔ ویسے بھی کہاں برطانیہ کی دوسری رائل فیملی اور کہاں پاکستان کے ہوائی دھرنے۔ کسی کا دماغ خراب ہے جو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی تباہ کرے۔
بات پاکستان بھارت کی ہو رہی تھی کہ بھارت ان دنوں شیر بن رہا ہے اور اس کی کسی بھی چپت کے جواب میں ہم کہتے ہیں 'پھر مار کے دیکھ' ہمارا قومی اثاثہ اور ہماری غیرت کا مرکز ہمارے عوام ہیں جو ہندوؤں کی غلامی قبول نہیں کر سکتے اور نہ ہی تجارت کے نام پر اپنی قومی عزت کا سودا کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری قوم امت محمدی ﷺ سوداگروں کا رویہ رکھنے والی قوم نہیں ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی قوم ہے اور یہ ہم آج بھی ضرب عضب میں دیکھ رہے ہیں اس لیے عوام کا جواب ہے جوابی ضرب، حکومتوں کا مجھے علم نہیں۔