پاکستان کے کمزور ورلڈ کپ پلان کو کینگروز کی ٹھوکر
اصل مسائل کے بجائے مرضی کے فیصلے مسلط کئے جانے کا نتیجہ ہے کہ قومی ٹیم کی ڈکشنری سے فتح کا لفظ ہی غائب ہوتا جارہا ہے
لڑکھڑاتی قومی کرکٹ ٹیم شکستوں کی کھائی میں جاگری ۔ فوٹو : فائل
طویل عدالتی محاذ آرائی کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کو نام نہاد جمہوری بنیادوں پر استوار کرنے کا مشن تو مکمل کرلیا گیا لیکن حکام کی ساری توانائی اختیارات کی رسہ کشی پر صرف ہوتی رہی۔
اصل مسائل کو مسلسل نظر انداز کرکے مرضی کے فیصلے مسلط کئے جانے کا نتیجہ ہے کہ قومی ٹیم کی ڈکشنری سے فتح کا لفظ ہی غائب ہوتا جارہا ہے،ہار بھی لڑ کر ہو تو شاید گوارا ہوجائے ہمارے کھلاڑی تو حریف کے ہر حربے کے سامنے ایسے ناکام ہوتے ہیں کہ شائقین کی آئندہ مقابلوں سے پہلے ہی آس ٹوٹ جائے۔نجم سیٹھی نے چیئرمین کا عہدہ چھوڑنے سے قبل ہی کوچنگ سٹاف کی تقرریوں سمیت کئی اہم فیصلے کردیئے تھے،بعد ازاں خود کو ''واچ ڈاگ'' قرار دیتے ہوئے اپنی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے گورننگ بورڈ میں حکومتی پکی سیٹ پر بھی براجمان ہوگئے تھے۔
مختلف اوقات میں ہیڈ کوچ، چیف سلیکٹر اور منیجر کے عہدوں سے لطف اندوز ہونے والے معین خان کسی نہ کسی طور ٹیم کے ساتھ جڑے رہے،اب ان کو وقار یونس، مشتاق احمد، گرانٹ فلاور، گرانٹ لیوڈن سمیت بھاری بھرکم مینجمنٹ کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ٹیم کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو آوے کا آوا ہی بگڑا نظر آتا ہے، بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ میں نظر آنے والی خامیوں پر ایک دن میں قابو پانے کا کوئی بھی دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن کم از کم ہر گزرتے میچ اور سیریز کے ساتھ اس میں بہتری کے کچھ آثار تو نظر آنا چاہئیں۔
سری لنکا میں گرین شرٹس کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے، کہا گیا کہ غلطیوں سے سبق سیکھیں گے،آسٹریلیا کے خلاف یو اے ای میں سیریز سے قبل تیاری کے لیے وقت بھی میسر تھا، سپانسرز کے ایما پر ڈومیسٹک ٹوئنٹی 20 کا کراچی میں انعقاد کروانے کی وجہ سے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔بھاری معاوضے وصول کرنے والے کوچز کی توجہ اپنی فٹنس بہتر بنانے پر مرکوز رہی،گرانٹ فلاور اور گرانٹ لیوڈن کے ساتھ فزیو بھی قذافی سٹیڈیم میں کھلاڑیوں کو ٹریننگ کرانے کے بجائے خود ورزش کرتے نظر آتے۔ یواے ای میں پاکستان ٹیم نے واحد ٹوئنٹی20 میچ میں انتہائی ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عید کی خوشیوں کا مزاکرکرا کردیا۔
بڑے ارمانوں سے سکواڈ میں جیت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے لائے گئے کپتان شاہد آفریدی بھی کھلاڑیوں کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہ لاسکے، فیورٹ فارمیٹ میں بھی بیٹنگ لائن نے ورلڈکپ کی وہی کارکردگی دہرائی جس کے باعث محمد حفیظ کو قیادت چھوڑنا پڑی تھی،ایک موقع پر تو محسوس ہو رہا تھا کہ بیٹسمین پورے 20 اوورز بھی نہیں کھیل پائیں گے،انٹرنیشنل کیریئر کا پہلا میچ کھیلنے والے سعد نسیم کے 25اور فاضل 20رنز نکال دیئے جائیں تو سنچری مکمل نہ کرنے والی ٹیم ففٹی بھی نہ بنا پاتی،بولرز نے تھوڑی ہمت دکھائی بھی تو فیلڈنگ میں خامیوں نے کینگروز کا راستہ آسان کردیا۔
ون ڈے میچز میں فارمیٹ تبدیل ہونے سے بھی ٹیم کی حالت نہ بدلی،جارج بیلی الیون نے خود کو نئی کنڈیشنز کا عادی بنانے کے لیے زیادہ وقت نہیں لیا، سٹیون سمتھ نے سلو اور ٹرننگ وکٹ کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچھے سکور کی بنیاد رکھی،پاکستان نے آخری اوورز میں ناقص کارکردگی سے کینگروز کو کم ٹوٹل تک محدود کرنے کا موقع گنوایا، ہدف کے تعاقب میں ہمیشہ سے کمزور نظر آنے والے گرین شرٹس نے اپنی وکٹیں اس انداز میں گنوائیں کہ آسٹریلوی بولرز کو زیادہ محنت نہ کرنا پڑے، تجربہ کار کپتان مصباح الحق کو یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ لیگ سلپ میں فیلڈر کھڑا کیا جاچکا ہے، آتے ہی گیند اس کی طرف اچھال دی، اسد شفیق، فواد عالم اور شاہد آفریدی کو بھی اپنی وکٹوں کی ذرا قدر نہ ہوئی،تباہی پھرنے کے بعد عمر اکمل میں اتنی ہمت نہ تھی کہ تن تنہا ٹیم کی نیاّ پار لگادیتے، آسٹریلیا کے تو ٹیل انڈرز نے بھی جان ماری، ہمارے سپوت آتے اور جاتے رہے۔
اس ناکامی کے بعد اعتماد کی بحالی کے لیے کسی جرأت مندانہ کارکردگی کی ضرورت تھی،پاکستان ٹاس بھی جیت گیا، اوپنرز نے 25اوورز میں 126رنز کا عمدہ آغاز بھی فراہم کردیا،شائقین کو توقع تھی کہ اچھا پلیٹ فارم ملنے پر بیٹنگ لائن خوف سے باہر نکل آئے گی، تاہم یہ خوش فہمی جلد ہی دور ہوگئی،احمد شہزاد اور سرفراز احمد کے جاتے ہی افتاد پڑ گئی، کریز پر آنے والے بیٹسمین رنز بنانے میں سست اور وکٹیں گنوانے میں چست نظر آئے،گزشتہ دو مقابلوں کی طرح سیریز بچاؤ مہم میں بھی گرین شرٹس نے خود ہی وکٹوں کی قربانی پیش کرنے کا فریضہ سنبھال لیا،اسد شفیق خود کو ون ڈے کرکٹ کا اہل ثابت کرنے کے لیے جدوجہد کرتے نظر آئے۔
مصباح الحق کو اس بار وقت ضائع کرنے کا موقع ملا بھی تو رن آؤٹ ہوگئے، اچھی خاصی چلتی گاڑی کوہچکولے لگے تو عمر اکمل کے بعد شاہد آفریدی نے بھی چھلانگ لگادی، فواد عالم اعتماد سے عاری 20رنز کی اننگز میں کمزور ٹیل انڈرز کا سہارا بنے رہے تو 200کا ہندسہ پار ہوا، آسٹریلیا کو دباؤ میں لانے کی راہیں وکٹوں کے حصول سے ہی کھل سکتی تھیں لیکن ٹاپ سکوررز میکسویل کا 2اور ڈیوڈ وارنر کا 5پر کیچ ڈراپ کرکے یہ مواقع بھی گنوادیئے گئے، کینگروز نے چند وکٹیں گرنے کے باوجود کسی گھبراہٹ کا شکار ہوئے بغیر منزل حاصل کرلی۔
پاکستان کے کمزور ورلڈ کپ پلان کو کینگروز نے ٹھوکر مار کر تیاریوں کا پول کھول دیا ہے، پی سی بی میں جمہوریت تو آگئی، شہریار خان کی صورت میں نیا چیئرمین بھی مل گیا، پالیسیوں میں تبدیلی نہ آسکی، ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ بار بار تبدیل کئے جانے کے باوجود باصلاحیت کرکٹرز کی نئی کھیپ سامنے لانے کے قابل نہیں ہوسکا، ریجنل سطح پر میرٹ کا خون کرنے والے عہدیدار قابض ہیں، ان سے درست فیصلوں کے بجائے پی سی بی سے وفاداری کی توقع کی جاتی ہے، اس سسٹم سے کوئی کھلاڑی ابھر کر سامنے آبھی جائے تو من پسند فیصلوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے، تازہ ترین مثال سہیل تنویر کی ون ڈے سکواڈ میں اچانک شمولیت ہے، جنید خان کے فٹنس مسائل کے بعد سنٹرل کنٹریکٹ پانے والے عمرگل، بلاول بھٹی، محمد طلحہ،راحت علی اور احسان عادل کو نظر انداز کیا جانا حیران کن فیصلہ ہے۔
ایک کرکٹر کی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اسے معاہدے کرنے والے کرکٹرز کی فہرست میں ہی شامل نہیں کیا جاتا، اپنے طور پر فٹنس ٹیسٹ کے لیے اکیڈمی کے چند چکر لگانے کے بعد ہی اس کی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کس نے کیا؟ سٹروکس کی صلاحیت محدود ہونے کی وجہ سے اسد شفیق کی ون ڈے سکواڈ میں جگہ نہیں بنتی، کینگروز کے خلاف سیریز میں انہیں رنز بنانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، مشکل حالات میں بھی اچھے سٹروکس کھیلنے والے صہیب مقصود کو بنچ پر کیوں بٹھائے رکھا گیا جبکہ ان کی بولنگ بھی کار آمد ہوسکتی تھی، پاکستان کی ورلڈ کپ فتح کے سفر میں عمران خان خود نمبر 3پر بیٹنگ کے لیے آتے رہے،ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ٹیم اننگز کے پورے اوور کھیل کر میدان سے باہر جائے،مصباح الحق اس پوزیشن پر کھیلنا نہیں چاہتے۔
یونس خان کی صورت میں ایک تجربہ کار بیٹسمین میسر تھا جس کو سلیکٹرز کی انا نگل گئی، دل جلے سابق کپتان کے تنازع سے اٹھنے والا طوفان بھی پاکستان کی جگ ہنسائی کا باعث بنا، پہلے ان کو ورلڈ کپ پلان کا حصہ نہ بنانے کا اعلان کیا گیا، ساتھ ہی چیف سلیکٹر معین خان نے اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہہ دیا کہ نوجوان بیٹسمین یواے ای میں توقعات پر پورا نہ اترسکے تو ان کو دوبارہ منتخب کیا جاسکتا ہے، دنیا بھر میں کرکٹ بورڈز سینئرز کے متبادل کھلاڑیوں کو موقع ملنے کا انتظار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، پی سی بی نے یونس خان کو نوجوانوں کی ناکامی کا انتظار کرنے کا حیران کن مشورہ دے دیا۔
نیوزی لینڈ کیخلاف ون ڈے سیریز میں بھی ٹیم کا کمبی نیشن نہ بن سکا تو تجربہ کار بیٹسمین یکدم ورلڈ کپ کا چیلنج قبول کرنے کے لیے کیسے تیار ہوجائیں گے، بہتر یہ تھا کہ ان کو ایک میچ میں کارکردگی کی بنیاد پر ڈراپ کرنے کے بجائے کینگروز کیخلاف تینوں ون ڈے میچز میں آزمایا جاتا، ناکامی کی صورت میں نیا تجربہ کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز اور میگا ایونٹ سے قبل کے دیگرمقابلے میسر ہوتے۔
موجودہ صورتحال تو یہ ہے کہ فلیٹ وکٹوں اور سازگار کنڈیشنز میں ٹیم ٹوئنٹی 20 میچ میں بھی پورے اوورز نہیں کھیل پارہی، پہلے ون ڈے میں تمام بیٹسمین 36.3اوورز میں صرف 162پر ڈھیر ہوگئے، دبئی میں اوپننگ سٹینڈ اچھا ہونے کے باوجود 10وکٹیں 89رنز کے سفر میں گریں،ٹاپ آرڈر میں سے کسی ایک نے ففٹی بھی بنائی ہوتی تو قابل قدر مجموعہ حاصل کیا جاسکتا ہے، ناتجربہ کاری اور غیر ذمہ داری کا باربار مظاہرہ کرنے والی ٹیم کے بیشتر کھلاڑی خود پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ورلڈ کپ کے لیے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی تیز وکٹوں پر پاکستان کی اننگز کو استحکام بخشنے والے بیٹسمین درکار ہوں گے۔
یونس خان کی شمولیت کے ساتھ مصباح الحق کی فارم میں واپسی امید کی کرن ثابت ہوسکتی ہے، اسد شفیق کو ٹیسٹ کرکٹ تک محدود کرکے صہیب مقصود کو مسلسل میچز کھلائے جائیں،نامی گرامی سٹروک میکر بیٹسمینوں کو سرفراز احمد سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے،انہوں نے سری لنکا میں عمدہ کارکردگی کے بعد یواے ای میں ون ڈے کرکٹ میں موقع ملتے ہی اپنی جرأت مندی سے مبصرین کو متاثر کیا ہے، پاکستان کو نخرے باز ہیروز سے زیادہ جان لڑانے والے کرکٹرز کی ضرورت ہے، وکٹ کیپر سٹائلش نظر نہیں آتے، سٹار بننے کی کوشش بھی نہیں کرتے لیکن موقع ملنے پر ٹیم کے لیے کچھ کردکھانے اور چیلنج قبول کرنے کا جذبہ ضرور نظر آتا ہے، محمد حفیظ کی انجری کے بعد اوپنر کے طور پر آزمائش ان کے لیے ایک نیا تجربہ تھی لیکن دوسرے ہی میچ میں احمد شہزاد کے ساتھ سنچری شراکت نے ثابت کیا ہے کہ مشکل حالات میں بھی ان پر کوئی گھبراہٹ طاری نہیں ہوتی،سرفراز احمد کی عمدہ پرفارمنس نے اکمل برادران کے لیے راستے بند کردیئے ہیں۔
ٹیل انڈرز کو بھی میدان میں اترنے کی رسمی کاروائی پوری کرنے کے بجائے بہتر ٹوٹل میں حصہ ڈالنے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کی ضرورت ہے،سعید اجمل کی ورلڈ کپ سے قبل واپسی یقینی نہیں،اگر ان کا ایکشن درست ہو بھی جاتا ہے تو فارم کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا،محمد عرفان نے فلیٹ وکٹوں پر اپنی رفتار اور باؤنس سے کینگروز کو پریشان کیا ہے،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں پاکستان کا سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوسکتے ہیں لیکن میگا ایونٹ سے قبل ان کو بڑی احتیاط سے استعمال کرنا ہوگا،تیز وکٹوں پر بلاول بھٹی بھی ان کا بخوبی ساتھ نبھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،ان کی بیٹنگ صلاحیت بھی ٹیم کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے،تاہم پیسر کو مسلسل میچز کھلاکر آخری اوور میں رنز روکنے کے لیے مؤثر ہتھیاروں سے لیس کرنا ضروری ہوگا،انجریز کے باوجود کینگروز ایک مربوط پلان کے ساتھ میدان میں اترے اور گوری ٹیموں کے لیے ہمیشہ مشکل ثابت ہونے والی کنڈیشنز میں بھی عمدہ کارکردگی دکھائی جبکہ ہمارے کھلاڑی غلطیوں سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
کوچز کی بھاری بھرکم فوج کی بھی کوئی افادیت نظر نہیں آتی اور تو اور فیلڈنگ میں مسائل بھی ختم ہوتے نظر نہیں آرہے، معاملات اسی انداز میں چلتے رہے تو ورلڈ کپ میں ٹائٹل کا حصول تو بڑی دور کی بات ہے فیصلہ کن مراحل تک رسائی بھی ممکن نہیں ہوگی،دسمبر اور جنوری میں ڈومیسٹک پینٹنگولر ٹورنامنٹ کے دوران کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس جانچنے کا پروگرام تو بنالیا گیا ہے لیکن پلیئرز کی ایک عرصہ سے چلی آرہی تکنیکی خامیوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کب کیا جائے گا، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔