الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیے سپریم کورٹ میں جواب جمع

نجی پرنٹنگ پریس سے اضافی بیلٹ پیپرنہیں چھپوائے،عملہ امیدواروں کی درخواست پر تبدیل ہوا،الیکشن کمیشن

مقناطیسی سیاہی کی عدم دستیابی پرانتخابی عمل کوغیرشفاف نہیں کہاجا سکتا،الیکشن کمیشن فوٹو: فائل

الیکشن کمیشن نے گزشتہ عام انتخابات کوشفاف بنانے کیلیے کیے گئے اقدامات اور دھاندلی کے الزامات کے بارے میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔

جواب میں اضافی بیلٹ پیپرچھاپنے اور پولنگ سے چندگھنٹے پہلے الیکشن عملے کی تبدیلی کے الزامات مستردکردیے گئے ہیں۔چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز احمد چوہدری پر مشتمل 3 رکنی بینچ کل مقدمے کی سماعت کرے گا۔الیکشن کمیشن نے ورکرز پارٹی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد اورعام انتخابات میں دھاندلی کے الزام کے بارے میں تحریک انصاف کی درخواست کے بارے میں 2 الگ الگ جواب جمع کیے ہیں ۔

جن میں کہاگیا ہے کہ عام انتخابات میں 8 کروڑ 61 لاکھ ووٹروںکیلیے17کروڑ25 لاکھ بیلٹ پیپرز چھا پے گئے تھے ۔ڈبل بیلٹ پیپرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے الگ الگ پرچیاں ہونے کے باعث چھاپے گئے تھے۔بیلٹ پیپر فوج کی نگرانی میں حکومتی پرنٹنگ پریسز میں چھاپے گئے، پرائیویٹ پرنٹنگ پریسز میں بیلٹ پیپرچھاپنے کا الزام غلط اور من گھڑت ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں الیکشن عملے میں صوبائی اور وفاقی ملازمین کے تناسب کا خیال رکھا گیا تھا تاہم وفاقی ملازمین کی تعیناتی ان کی دستیابی سے مشروط تھی۔سب سے زیادہ وفاقی ملازمین پنجاب کے حلقوں میں تعینات کیے گئے تھے۔

جہاں یہ شرح 30 وفاقی اور 70 فیصد صوبائی ملازمین کی تھی جبکہ سب سے کم بلوچستان میں وفاقی ملازمین کی شرح ایک سے 2 فیصد تھی،خیبر پختونخوا میں 6 فیصد اورسندھ میں 7 فیصد وفاقی ملازمین نے الیکشن ڈیوٹی انجام دی۔عام انتخابات کے دوران ووٹ ڈالنے کے لیے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ لازمی شرط تھی جبکہ شفافیت کے لیے مقناطیسی سیاہی کا اضافی انتظام کیا گیا تھا چونکہ مقناطیسی سیاہی الیکشن کے لیے لازمی شرط نہیں تھی اس لیے اگر کہیں پر عدم دستیابی کی شکایت ہے تو اس کی بنیاد پر انتخابی عمل کوغیرشفاف نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی تکنیکی طور پر یہ دھاندلی کے الزام کے لیے قابل قبول ثبوت ہے۔الیکشن عملے کی تبدیلی کے بارے میں تحریک انصاف کے الزام کے جواب میں کہا گیاکہ جن حلقوں میں عملے کی تبدیلی کا الزام عائدکیا گیا ہے وہاں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے خود ریٹرننگ افسران کو درخواست دی تھی۔


جواب میں تحریک انصاف کے اس الزام کو بھی مسترد کر دیا گیاجس میں کہا گیا تھا کہ الیکشن ٹربیونلزکی طرف سے انتخابی عذرداریوں کے فیصلوں میں تاخیر ہورہی ہے،405 مقدمات میں سے 350کا فیصلہ ہوچکا ہے جبکہ باقی ماندہ میں تاخیر درخواست گزاروں کے باعث ہورہی ہے،این اے125لاہور اور این اے154ملتان میں انتخابی عذرداریوں کے فیصلے میں تاخیر اس لیے ہوئی کہ درخواست گزاروں تحریک انصاف کے امیدواروں نے گواہ پیش نہیں کیے۔مزیدکہاگیاکہ انتخابی فہرستیں نادرا نے تیارکی تھیں اور انگوٹھے کے نشان کے ذریعے ووٹ کی تصدیق الیکشن ٹربیونل کا صوابدیدی اختیار ہے۔

وہ نادراکوتصدیق کے لیے کہہ سکتاہے۔سپریم کورٹ کو بتایا گیاکہ آئندہ سے الیکشن ٹربیونلز میں حاضر سروس جج تعینات کیے جائیں گے اور جب تک انتخابی عذر داریوں کا فیصلہ نہ ہو وہ دیگرمقدمات نہیں سن سکیں گے۔الیکشن کمیشن نے انتخابات میں شفافیت کے لیےکیے گئے دیگر اقدامات اور اس ضمن میںوفاقی وصوبائی حکومتوں کے ساتھ خط وکتابت کا ریکارڈ بھی جمع کرادیا،3 رکنی بینچ کل شفاف اور غیرجانبدارانہ الیکشن کے انعقادکے لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمدکے لیے کییگئے اقدامات اور تحریک انصاف کی طرف سے 4حلقوں میں ووٹ آڈٹ کی درخواست کے بارے الیکشن کمیشن کے جواب کا جائزہ لے گا۔

 

 
Load Next Story