وبائی امراض کے باعث روزانہ 20 سیلاب متاثرین مرنے لگے
حکومت اوردیگرتنظیمیں امدادفراہم کرنے میں ناکام،متاثرین کھانے اورصاف پانی سے محروم
سندھ اوربلوچستان میں حالیہ بارشوں اورسیلاب سے مختلف علاقوں میں اب بھی پانی جمع ہے جس سے وبائی امراض پھیل رہے ہیں۔
مختلف بیماریوں کے باعث روزانہ 15سے20 افراد ہلاک ہورہے ہیں،متاثرین کھانے اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں،سندھ میں سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ ہونے والے افراد کی تعداد31 لاکھ 26 ہزار 23 ہے، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اتحاد Peoples Accountability commissions on Floods (پی اے سی ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے،رپورٹ کے مطابق حکومت اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ابتدائی امداد فراہم کرنے میں برُی طرح ناکام ہوئیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصان ہورہا ہے۔
ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں اور سندھ اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر 15سے 20 افراد ہلاک ہوئے،رپورٹ کے مطابق حکومت اورسیلاب ودیگرہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے پہلے سے غیرمعمولی بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود بھی سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے پوری طرح ناکام ہوگئے،رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال برائے 2012-13 میں حکومت کی طرف سے دیے گئے ایک کروڑ میں سے آدھی رقم پی ڈی ایم اے اورریلیف ڈپارٹمنٹ کو دیے گے مگر یہ رقم ان اداروںکے اکاؤنٹس میں اب تک منتقل نہیں ہو سکی ہے، کشمور ، نصیر آباد،جعفرآباد اور سندھ و بلوچستان کے دیگر اضلاع میں حکومت بارش کے ابتدائی چار سے پانچ روز تک کسی قسم کی کوئی امداد اور ریلیف کا کام نہیں کرسکی۔
مختلف ذرائع سے غیر معمولی بارش کی اطلاع کے باوجود سندھ حکومت نے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا کیونکہ بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام کے متعلق واضع احکامات اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر اور دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے سندھ حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فنڈز فراہم توکیے مگر اس وقت تک بارش اورسیلاب اپنا کام کر پورا کر چکا تھا متاثرین بھوک اور پیاس سے نڈھال نظر آرہے ہیں، ریلیف ڈپارٹمنٹ کے مطابق حکومت سندھ نے فنڈز ستمبر کے پہلے ہفتے میں جاری کیے تھے وہ بھی اعلان کی گئی رقم سے آدھی تھے جب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں ہی سیلاب سے 28لاکھ 845 افراد متاثر ہوئے ہیں، جبکہ دو لاکھ پیتیس ہزار مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے متاثرین سیلاب اب تک کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ سندھ کے اضلاع کشمور،جیکب آباد اور بلوچستان کے اضلاع نصیر آباد ، جعفرآباد کے متاثرین اب تک کھانے اور پینے کے صاف پانی سے اب تک محروم ہیں، دوسری طرف سیلاب کے جمع شدہ پانی سے مختلف اقسام کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس سے خیمہ میں رہنے والے متاثرین تیزی سے بیمار ہو رہے ہیں رپورٹ کے مطابق اب تک صرف 17% متاثرین کو امدادی سامان فراہم کیا گیا ہے باقی افراد اب تک کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے کے پانی نکالنے کے لیے پمپ اور پینے کے لیے صاف پانی،خیمہ ، مچھر سے بچانے والی دوائیں فراہم کی جائیں۔
مختلف بیماریوں کے باعث روزانہ 15سے20 افراد ہلاک ہورہے ہیں،متاثرین کھانے اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں،سندھ میں سیلاب اور بارشوں سے متاثرہ ہونے والے افراد کی تعداد31 لاکھ 26 ہزار 23 ہے، سول سوسائٹی کی تنظیموں کے اتحاد Peoples Accountability commissions on Floods (پی اے سی ایف) نے اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے،رپورٹ کے مطابق حکومت اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ابتدائی امداد فراہم کرنے میں برُی طرح ناکام ہوئیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پرجانی ومالی نقصان ہورہا ہے۔
ہزاروں افراد بے گھر ہوئے ہیں اور سندھ اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر 15سے 20 افراد ہلاک ہوئے،رپورٹ کے مطابق حکومت اورسیلاب ودیگرہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ادارے پہلے سے غیرمعمولی بارشوں کی پیشگوئی کے باوجود بھی سیلاب کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے پوری طرح ناکام ہوگئے،رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ مالی سال برائے 2012-13 میں حکومت کی طرف سے دیے گئے ایک کروڑ میں سے آدھی رقم پی ڈی ایم اے اورریلیف ڈپارٹمنٹ کو دیے گے مگر یہ رقم ان اداروںکے اکاؤنٹس میں اب تک منتقل نہیں ہو سکی ہے، کشمور ، نصیر آباد،جعفرآباد اور سندھ و بلوچستان کے دیگر اضلاع میں حکومت بارش کے ابتدائی چار سے پانچ روز تک کسی قسم کی کوئی امداد اور ریلیف کا کام نہیں کرسکی۔
مختلف ذرائع سے غیر معمولی بارش کی اطلاع کے باوجود سندھ حکومت نے کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا کیونکہ بلدیاتی نظام اور کمشنری نظام کے متعلق واضع احکامات اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ہزاروں افراد بے گھر اور دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے سندھ حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے فنڈز فراہم توکیے مگر اس وقت تک بارش اورسیلاب اپنا کام کر پورا کر چکا تھا متاثرین بھوک اور پیاس سے نڈھال نظر آرہے ہیں، ریلیف ڈپارٹمنٹ کے مطابق حکومت سندھ نے فنڈز ستمبر کے پہلے ہفتے میں جاری کیے تھے وہ بھی اعلان کی گئی رقم سے آدھی تھے جب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔
رپورٹ کے مطابق صرف سندھ میں ہی سیلاب سے 28لاکھ 845 افراد متاثر ہوئے ہیں، جبکہ دو لاکھ پیتیس ہزار مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے متاثرین سیلاب اب تک کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ سندھ کے اضلاع کشمور،جیکب آباد اور بلوچستان کے اضلاع نصیر آباد ، جعفرآباد کے متاثرین اب تک کھانے اور پینے کے صاف پانی سے اب تک محروم ہیں، دوسری طرف سیلاب کے جمع شدہ پانی سے مختلف اقسام کی بیماریاں جنم لے رہی ہیں جس سے خیمہ میں رہنے والے متاثرین تیزی سے بیمار ہو رہے ہیں رپورٹ کے مطابق اب تک صرف 17% متاثرین کو امدادی سامان فراہم کیا گیا ہے باقی افراد اب تک کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں حالات کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے کے پانی نکالنے کے لیے پمپ اور پینے کے لیے صاف پانی،خیمہ ، مچھر سے بچانے والی دوائیں فراہم کی جائیں۔