یہ جنگ کون جیتے گا
دو ہزار سال پر محیط یہ دربدری‘ تشدد‘ قتل اور انسانیت سوز سلوک سے عبارت ہے۔
یروشلم پر یہ قیامت خیز دن تھا۔ 28 اگست 70ء' جب یہودی آخری بار رومنوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے لڑے تھے۔ ان کی یہ لڑائی 62ء میں شروع ہوئی' جب شہنشاہ روم نے فلسطین کے علاقے میں نااہل اور رشوت خور گورنر لگانا شروع کیے۔ ایلی بی نس بحری قزاقوں سے بھتہ وصول کرتا۔ اس کے بعد آنے والا کیسئس فلورس بھی اسی روش پر قائم رہا۔ ان کی مال و دولت کی ہوس اسقدر بڑھی کہ انھوں نے یہودیوں کے ہیکل کے خزانے سے بھی رقم طلب کرلی۔
اگلے دن یہودی مسلح ہو کر شہر میں نکل آئے اور رومن سپاہیوں سے گتھم گتھا ہوگئے۔ یوں لگتا تھا یہودیوں نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اب رومن اپنی عیاشی اور بدعنوانی کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں اس لیے مقدس یروشلم پر آزاد حکومت کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن 70ء کے آغاز میں جب ولیسپا سیٹن شہنشاہ بنا تو اس نے بیٹے طیطس کو یہودیوں سے لڑائی کے لیے بھیجا' جس نے فروری میں شہر کا محاصرہ کر لیا۔ وہ بڑی بڑی منجنیقوں سے ہیکل کے صحن میں پتھر پھینکتے۔ آخر کار 28 اگست کو وہ ہیکل کے صحن میں داخل ہوگئے۔
اس وقت وہاں چھ ہزار یہودی موجود تھے۔ ان میں سے ہر ایک بہادری سے جان دینے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ عام یہودی باہر' شرفا اندرونی صحن اور مذہبی رہنما ''ربائی'' مخصوص حصے میں لڑتے لڑتے جان دیتے رہے۔ رومن سپاہیوں نے ہیکل کو آگ لگا دی۔ بچے کھچے یہودی اس آگ کی لپیٹ میں آ گئے یا رومن سپاہیوں کی تلواروں سے کٹ مرے۔ پھر شہر بھر کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد یہودی قوم پوری دنیا میں بکھر گئی۔ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں یہ لوگ جا کر آباد نہ ہوئے ہوں۔ لیکن یورپ میں مسیحی حکومتوں میں ان پر عرصۂ حیات جس طرح تنگ کیا گیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
دو ہزار سال پر محیط یہ دربدری' تشدد' قتل اور انسانیت سوز سلوک سے عبارت ہے۔ لیکن ان دو ہزار سالوں میں ہر یہودی کے دل میں اس آرزو کا چراغ جلتا رہا کہ ایک دن ہم نے اپنی ارض مقدس میں واپس جانا ہے اور قیامت کے آنے سے پہلے وہاں اپنے مسیحا کا انتظار کرنا ہے جو ہماری ویسی ہی حکومت دوبارہ قائم کریگا جیسی حضرت سلیمان ؑ کے دور میں تھی۔ ہمیں دیگر تمام مذاہب کے افراد سے جنگ کرنا ہے اور اپنے دین کو غالب کر کے ایک عالمی ریاست قائم کرنا ہے۔
دنیا کے جس شہر میں بھی یہ یہودی قیام پذیر ہوئے' اپنی کاروباری فطرت اور محنت کی وجہ سے وہاں کے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہونے لگے۔ امریکا تو ان کے لیے ایک نعمت کے طور پر ثابت ہوا۔ انھیں نہ کوئی وہاں یورپ کی طرح نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور نہ ہی انھیں سیاست اور معیشت پر چھا جانے میں کوئی رکاوٹ تھی۔ پوری دنیا میں جب رنگ' نسل' زبان اور علاقے کی بنیاد پر قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں تو ہزاروں سال ساتھ رہنے کے باوجود' ویسا رنگ' ویسی زبان اور اسی علاقے میں نسل در نسل رہنے والے یہ یہودی وہاں کے لوگوں کے لیے اجنبی تھے۔
وہاں رہتے رہتے ان کی اکثریت سیکولر ہوگئی تھی۔ لیکن قومیت کے نعرے نے اسقدر زور پکڑا کہ 1882ء میں زار روس کے حکم پر ان کی پہلی نسل کُشی ہوئی۔ اس دوران لیون پینسکر نے اپنی مشہور کتاب autoemencipation لکھی۔ یہ خود بھی ایک سیکولر یہودی تھا لیکن نسل کشی کے بعد اس نے اس نظریے کو فروغ دیا کہ باوقار زندگی گزارنے کے لیے یہودی قومیت کی بنیاد پر وطن حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس نے کہا ''زندہ لوگ ہمیں مردہ سمجھتے ہیں اور مقامی ہمیں پردیسی' امیر ہمیں بھکاری کہتے ہیں اور غریب ہمیں استحصال کرنے والے لکھ پتی سمجھتے ہیں جب کہ محب وطن ہمیں بے وطن کہتے ہیں''۔
یہی نظریات تھے جنہوں نے سیکولر اور آزاد خیال یہودیوں کو بھی ایک لڑی میں پرو دیا۔ ہر کوئی ان بشارتوں کے بارے میں سوچنے لگا کہ جب یروشلم میں ان کے مسیحا کی حکومت قائم ہو گی۔ اسی سال یعنی 1882ء میں یعنی ٹھیک ایک ہزار آٹھ سو بارہ سال بعد بہت سے یہودی اپنا کاروبار سمیٹ کر فلسطین میں جا کر آباد ہوگئے۔
یہ پہلے یہودی تھے جو وہاں اس تصور کے ساتھ گئے کہ ہم نے ایک وطن حاصل کرنا ہے اور وہی وطن جس سے ہم دو ہزار سال پہلے در بدر ہوئے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عقیدہ بھی لے کر گئے تھے کہ ہم نے اس یروشلم میں ایک بہت بڑی جنگ لڑنا ہے اور ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان جیسی عالمی حیثیت رکھتی ہو گی۔ جسے وہ ''Ruling State of the World'' دنیا پر حاکم ریاست کا نام دیتے ہیں۔ یہیں ان کا مسیحا آئے گا اور ان کی الہامی کتابوں کے مطابق ان سے کیا گیا وعدہ سچا ہو گا اور وہ دنیا کی ایک حاکم قوم بن جائیں گے۔
1882ء میں چند ہزار یہودیوں کی یروشلم اور ارض مقدسہ میں آباد کاری کے بعد کی تاریخ پوری دنیا میں آباد یہودیوں کو ایک منزل اور ایک سرزمین پر جمع کرنے کی تاریخ ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی کاروباری دنیا میں مگن تھا۔ انھوں نے وہاں اپنے گھر بسا لیے تھے۔ ان کی پندرہ بیس نسلیں ان ملکوں میں زندگی گزار چکی تھیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تو وہ ان ملکوں میں بہت مستحکم ہو چکے تھے۔ انھوں نے ہولوکوسٹ کی خوفناک کہانیاں سنا کر یورپ میں ایسے سخت قوانین تک بنوا لیے تھے کہ یہودیوں کے خلاف بات کرنا سنگین جرم ہو چکا تھا۔ وہ کاروبار اور میڈیا کے تو بلا شرکت غیرے مالک بن چکے تھے۔
حکومتیں اور سیاست ان کی انگلیوں پر ناچتی تھی اور آج بھی وہ اس کا رخ متعین کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود 1882ء کے بعد سے وہ فلسطین کی جانب چلتے رہے جسے وہ ''ایلیاہ'' کہتے ہیں' یعنی اللہ کے راستے کا سفر۔ یہ سب اپنی پر آسائش رہائش گاہیں اور شاندار کاروبار چھوڑ کر ایک ایسے خطے میں جا کر آباد ہونے لگے جو پسماندہ تھا' ریگستان تھا' ان کے لیے مکمل طور پر اجنبی ہو چکا تھا۔ جہاں ہر وقت موت کے سائے سروں پر منڈلاتے تھے۔ جس قوم پرست سیاست کا بیج بو کر انھوں نے امت مسلمہ کو تقسیم کیا تھا ' وہی عرب نیشنلزم انھیں فلسطین کی سرزمین پر برداشت نہیں کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ پیرس' لندن' نیو یارک' واشنگٹن اور ایسے خوبصورت علاقوں سے اس بے آب و گیاہ سرزمین پر جا کر آباد ہونے لگے اور آج بھی ان کی اس مقدس سرزمین کی جانب ہجرت جاری ہے۔
14 مئی 1948ء کو تل ابیب میوزیم میں جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا اسے اس وقت ایک شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ بھی ان کا کوئی خیرخواہ نہ تھا' بلکہ جنگ عظیم دوم کے بعد ایک بار پھر درپردہ یہودی دشمنی ابھر آئی تھی۔ 29 جون 1946ء کو برطانیہ نے یہودی ایجنسی پر چھاپہ مار کر 2718 صہیونیوں کو گرفتار کر لیا تھا تا کہ فلسطین میں یہودی زیادہ طاقتور نہ ہو جائیں۔ ایسے میں یہودیوں نے اپنا دوسرا چہرا' امریکا استعمال کیا جس نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی اور 1948ء کی جنگ میں مدد دی۔ عرب قوم پرستی کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور اسرائیل مستحکم ہو گیا۔
یہ ملک کیوں بنایا گیا۔ یہ لوگ وہاں کیوں اپنی شاندار رہائش گاہیں اور کاروبار چھوڑ کر آباد ہو رہے ہیں۔ کیا وہ وہاں ایک پکنک منانے آئے ہیں۔ کیا اسرائیل ایک صحت افزا مقام ہے۔ وہاں آنے والے بچے بچے کو اس کا علم ہے کہ وہ ایک عالمی صہیونی ریاست کے قیام کی جنگ لڑنے کے لیے یہاں آیا ہے۔ ان کے آبائو اجداد کو بھی اس کا علم تھا۔ لیکن کیا ہمیں اس بات کا تھوڑا سا بھی ادراک ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ مصر' ایران' عراق' سعودی عرب اور پاکستان سے نہیں مسلمانوں سے لڑی جائے گی۔ یہ کسی قوم ملک یا نسل کے ساتھ جنگ نہ ہو گی۔ پوری مسلم امہ کے ساتھ برپا ہونے والی جنگ ہو گی۔ اس کا ادراک اور تیاری دوسری جانب تو موجود ہے۔
باراک اوبامہ جو مصر کے جامعہ الازہر میں آیا تو اس نے کسی ایران' پاکستان یا مصر کا ذکر نہ کیا بلکہ مسلم امہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم اپنے اندر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرو۔ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں وہ ہمیں ایک امت کی طرح اپنا ہدف جانتے ہیں۔ کیا ہمیں احساس ہے' ہمیں اس کا تھوڑا سا بھی ادراک ہے۔ ہم جن کو سید الانبیاء فتح کی بشارت دے چکے ''ایک زمانہ میں تم یہودیوں سے جنگ کرو گے اور تم یہودیوں پر غلبہ پائو گے۔ یہودی جس پتھر کے پیچھے چھپے گا وہ پکارے گا یہ دیکھو اے مسلم' یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے دوڑو اور اسے قتل کر دو'' (متفق علیہ) وہ پتھر مسلم کہہ کر پکارے گا عراق' مصری' شامی' پاکستانی یا لبنانی نہیں۔ یہ جنگ ایک مسلم امہ جیتے گی رنگوں' نسلوں اور زبانوں میں بٹی ہوئی قوم نہیں۔
اگلے دن یہودی مسلح ہو کر شہر میں نکل آئے اور رومن سپاہیوں سے گتھم گتھا ہوگئے۔ یوں لگتا تھا یہودیوں نے خود کشی کا ارادہ کر لیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اب رومن اپنی عیاشی اور بدعنوانی کی وجہ سے کمزور ہو چکے ہیں اس لیے مقدس یروشلم پر آزاد حکومت کا خواب پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن 70ء کے آغاز میں جب ولیسپا سیٹن شہنشاہ بنا تو اس نے بیٹے طیطس کو یہودیوں سے لڑائی کے لیے بھیجا' جس نے فروری میں شہر کا محاصرہ کر لیا۔ وہ بڑی بڑی منجنیقوں سے ہیکل کے صحن میں پتھر پھینکتے۔ آخر کار 28 اگست کو وہ ہیکل کے صحن میں داخل ہوگئے۔
اس وقت وہاں چھ ہزار یہودی موجود تھے۔ ان میں سے ہر ایک بہادری سے جان دینے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا۔ عام یہودی باہر' شرفا اندرونی صحن اور مذہبی رہنما ''ربائی'' مخصوص حصے میں لڑتے لڑتے جان دیتے رہے۔ رومن سپاہیوں نے ہیکل کو آگ لگا دی۔ بچے کھچے یہودی اس آگ کی لپیٹ میں آ گئے یا رومن سپاہیوں کی تلواروں سے کٹ مرے۔ پھر شہر بھر کے یہودیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس کے بعد یہودی قوم پوری دنیا میں بکھر گئی۔ دنیا کا کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں یہ لوگ جا کر آباد نہ ہوئے ہوں۔ لیکن یورپ میں مسیحی حکومتوں میں ان پر عرصۂ حیات جس طرح تنگ کیا گیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔
دو ہزار سال پر محیط یہ دربدری' تشدد' قتل اور انسانیت سوز سلوک سے عبارت ہے۔ لیکن ان دو ہزار سالوں میں ہر یہودی کے دل میں اس آرزو کا چراغ جلتا رہا کہ ایک دن ہم نے اپنی ارض مقدس میں واپس جانا ہے اور قیامت کے آنے سے پہلے وہاں اپنے مسیحا کا انتظار کرنا ہے جو ہماری ویسی ہی حکومت دوبارہ قائم کریگا جیسی حضرت سلیمان ؑ کے دور میں تھی۔ ہمیں دیگر تمام مذاہب کے افراد سے جنگ کرنا ہے اور اپنے دین کو غالب کر کے ایک عالمی ریاست قائم کرنا ہے۔
دنیا کے جس شہر میں بھی یہ یہودی قیام پذیر ہوئے' اپنی کاروباری فطرت اور محنت کی وجہ سے وہاں کے صاحب حیثیت لوگوں میں شمار ہونے لگے۔ امریکا تو ان کے لیے ایک نعمت کے طور پر ثابت ہوا۔ انھیں نہ کوئی وہاں یورپ کی طرح نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور نہ ہی انھیں سیاست اور معیشت پر چھا جانے میں کوئی رکاوٹ تھی۔ پوری دنیا میں جب رنگ' نسل' زبان اور علاقے کی بنیاد پر قومی ریاستیں وجود میں آنے لگیں تو ہزاروں سال ساتھ رہنے کے باوجود' ویسا رنگ' ویسی زبان اور اسی علاقے میں نسل در نسل رہنے والے یہ یہودی وہاں کے لوگوں کے لیے اجنبی تھے۔
وہاں رہتے رہتے ان کی اکثریت سیکولر ہوگئی تھی۔ لیکن قومیت کے نعرے نے اسقدر زور پکڑا کہ 1882ء میں زار روس کے حکم پر ان کی پہلی نسل کُشی ہوئی۔ اس دوران لیون پینسکر نے اپنی مشہور کتاب autoemencipation لکھی۔ یہ خود بھی ایک سیکولر یہودی تھا لیکن نسل کشی کے بعد اس نے اس نظریے کو فروغ دیا کہ باوقار زندگی گزارنے کے لیے یہودی قومیت کی بنیاد پر وطن حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس نے کہا ''زندہ لوگ ہمیں مردہ سمجھتے ہیں اور مقامی ہمیں پردیسی' امیر ہمیں بھکاری کہتے ہیں اور غریب ہمیں استحصال کرنے والے لکھ پتی سمجھتے ہیں جب کہ محب وطن ہمیں بے وطن کہتے ہیں''۔
یہی نظریات تھے جنہوں نے سیکولر اور آزاد خیال یہودیوں کو بھی ایک لڑی میں پرو دیا۔ ہر کوئی ان بشارتوں کے بارے میں سوچنے لگا کہ جب یروشلم میں ان کے مسیحا کی حکومت قائم ہو گی۔ اسی سال یعنی 1882ء میں یعنی ٹھیک ایک ہزار آٹھ سو بارہ سال بعد بہت سے یہودی اپنا کاروبار سمیٹ کر فلسطین میں جا کر آباد ہوگئے۔
یہ پہلے یہودی تھے جو وہاں اس تصور کے ساتھ گئے کہ ہم نے ایک وطن حاصل کرنا ہے اور وہی وطن جس سے ہم دو ہزار سال پہلے در بدر ہوئے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عقیدہ بھی لے کر گئے تھے کہ ہم نے اس یروشلم میں ایک بہت بڑی جنگ لڑنا ہے اور ایک ایسی ریاست قائم کرنا ہے جو حضرت داؤد اور حضرت سلیمان جیسی عالمی حیثیت رکھتی ہو گی۔ جسے وہ ''Ruling State of the World'' دنیا پر حاکم ریاست کا نام دیتے ہیں۔ یہیں ان کا مسیحا آئے گا اور ان کی الہامی کتابوں کے مطابق ان سے کیا گیا وعدہ سچا ہو گا اور وہ دنیا کی ایک حاکم قوم بن جائیں گے۔
1882ء میں چند ہزار یہودیوں کی یروشلم اور ارض مقدسہ میں آباد کاری کے بعد کی تاریخ پوری دنیا میں آباد یہودیوں کو ایک منزل اور ایک سرزمین پر جمع کرنے کی تاریخ ہے۔ ہر کوئی اپنی اپنی کاروباری دنیا میں مگن تھا۔ انھوں نے وہاں اپنے گھر بسا لیے تھے۔ ان کی پندرہ بیس نسلیں ان ملکوں میں زندگی گزار چکی تھیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد تو وہ ان ملکوں میں بہت مستحکم ہو چکے تھے۔ انھوں نے ہولوکوسٹ کی خوفناک کہانیاں سنا کر یورپ میں ایسے سخت قوانین تک بنوا لیے تھے کہ یہودیوں کے خلاف بات کرنا سنگین جرم ہو چکا تھا۔ وہ کاروبار اور میڈیا کے تو بلا شرکت غیرے مالک بن چکے تھے۔
حکومتیں اور سیاست ان کی انگلیوں پر ناچتی تھی اور آج بھی وہ اس کا رخ متعین کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود 1882ء کے بعد سے وہ فلسطین کی جانب چلتے رہے جسے وہ ''ایلیاہ'' کہتے ہیں' یعنی اللہ کے راستے کا سفر۔ یہ سب اپنی پر آسائش رہائش گاہیں اور شاندار کاروبار چھوڑ کر ایک ایسے خطے میں جا کر آباد ہونے لگے جو پسماندہ تھا' ریگستان تھا' ان کے لیے مکمل طور پر اجنبی ہو چکا تھا۔ جہاں ہر وقت موت کے سائے سروں پر منڈلاتے تھے۔ جس قوم پرست سیاست کا بیج بو کر انھوں نے امت مسلمہ کو تقسیم کیا تھا ' وہی عرب نیشنلزم انھیں فلسطین کی سرزمین پر برداشت نہیں کر رہا تھا۔ اس کے باوجود وہ پیرس' لندن' نیو یارک' واشنگٹن اور ایسے خوبصورت علاقوں سے اس بے آب و گیاہ سرزمین پر جا کر آباد ہونے لگے اور آج بھی ان کی اس مقدس سرزمین کی جانب ہجرت جاری ہے۔
14 مئی 1948ء کو تل ابیب میوزیم میں جب ڈیوڈ بن گوریان نے اسرائیلی ریاست کا اعلان کیا اسے اس وقت ایک شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ بھی ان کا کوئی خیرخواہ نہ تھا' بلکہ جنگ عظیم دوم کے بعد ایک بار پھر درپردہ یہودی دشمنی ابھر آئی تھی۔ 29 جون 1946ء کو برطانیہ نے یہودی ایجنسی پر چھاپہ مار کر 2718 صہیونیوں کو گرفتار کر لیا تھا تا کہ فلسطین میں یہودی زیادہ طاقتور نہ ہو جائیں۔ ایسے میں یہودیوں نے اپنا دوسرا چہرا' امریکا استعمال کیا جس نے اسرائیل کی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی اور 1948ء کی جنگ میں مدد دی۔ عرب قوم پرستی کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور اسرائیل مستحکم ہو گیا۔
یہ ملک کیوں بنایا گیا۔ یہ لوگ وہاں کیوں اپنی شاندار رہائش گاہیں اور کاروبار چھوڑ کر آباد ہو رہے ہیں۔ کیا وہ وہاں ایک پکنک منانے آئے ہیں۔ کیا اسرائیل ایک صحت افزا مقام ہے۔ وہاں آنے والے بچے بچے کو اس کا علم ہے کہ وہ ایک عالمی صہیونی ریاست کے قیام کی جنگ لڑنے کے لیے یہاں آیا ہے۔ ان کے آبائو اجداد کو بھی اس کا علم تھا۔ لیکن کیا ہمیں اس بات کا تھوڑا سا بھی ادراک ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ مصر' ایران' عراق' سعودی عرب اور پاکستان سے نہیں مسلمانوں سے لڑی جائے گی۔ یہ کسی قوم ملک یا نسل کے ساتھ جنگ نہ ہو گی۔ پوری مسلم امہ کے ساتھ برپا ہونے والی جنگ ہو گی۔ اس کا ادراک اور تیاری دوسری جانب تو موجود ہے۔
باراک اوبامہ جو مصر کے جامعہ الازہر میں آیا تو اس نے کسی ایران' پاکستان یا مصر کا ذکر نہ کیا بلکہ مسلم امہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ تم اپنے اندر سے دہشت گردی کا خاتمہ کرو۔ ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں وہ ہمیں ایک امت کی طرح اپنا ہدف جانتے ہیں۔ کیا ہمیں احساس ہے' ہمیں اس کا تھوڑا سا بھی ادراک ہے۔ ہم جن کو سید الانبیاء فتح کی بشارت دے چکے ''ایک زمانہ میں تم یہودیوں سے جنگ کرو گے اور تم یہودیوں پر غلبہ پائو گے۔ یہودی جس پتھر کے پیچھے چھپے گا وہ پکارے گا یہ دیکھو اے مسلم' یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے دوڑو اور اسے قتل کر دو'' (متفق علیہ) وہ پتھر مسلم کہہ کر پکارے گا عراق' مصری' شامی' پاکستانی یا لبنانی نہیں۔ یہ جنگ ایک مسلم امہ جیتے گی رنگوں' نسلوں اور زبانوں میں بٹی ہوئی قوم نہیں۔