ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

پاکستان میں ایسی ابتری پہلے کبھی کسی نے دیکھی تھی۔ ابتری سی ابتری۔


Intezar Hussain October 12, 2014
[email protected]

ISLAMABAD: اقبال کے اس مصرعہ کے معنی اب سمجھ میں آئے

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی

کیسے زمانے میں کیسا اعجوبہ سامنے آیا ہے۔ پاکستان میں ایسی ابتری پہلے کبھی کسی نے دیکھی تھی۔ ابتری سی ابتری۔ اخلاقی زوال کی بھی حدیں ہوتی ہیں۔ ہم تو ہر حد کو پار کرتے نظر آ رہے ہیں مگر کتنی عجب بات ہے کہ پاکستان کے بظاہر ترقی یافتہ شہروں سے دور: اسلام آباد سے' لاہور سے کراچی سے دور اس پس ماندہ علاقہ میں جسے سوات کہتے ہیں جہاں لڑکیوں کے اسکول جلائے جا رہے تھے' عقل و آگہی کے دشمن احکامات جاری کر رہے تھے کہ کوئی لڑکی گھر سے نہ نکلے اور اسکول تک نہ جائے۔ وہاں اسکولوں کے اسی جلے ہوئے ملبہ سے کیسی چنگاری برآمد ہوئی۔

مرزا سودا کسی مشاعرے میں شریک تھے۔ ایک نوخیز نے ایسا شعر پڑھا کہ مرزا پھڑک گئے اور بولے کہ میاں صاحبزادے' اس کم سنی میں ایسا شعر۔ صاحبزادے تم جیتے نظر نہیں آتے۔ اور وہ نوجوان برس کے اندر چٹ پٹ ہو گیا۔ لگتا ہے کہ جب سوات میں لڑکیوں کے اسکول جل رہے تھے تو انھیں جلتے ہوئے اسکولوں کے بیچ ملالہ کے تیور دیکھ کر کسی صاحب نظر نے کوئی ایسا ہی فقرہ کہا تھا کہ وہ پیشگوئی بن گیا۔ اور ملک الموت نے تعلیم دشمن ستمگروں کے روپ میں ایسا زبردست حملہ کیا کہ اس کمسن لڑکی کے جان کے لالے پڑ گئے۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ اسے کہتے ہیں غیبی امداد۔ سات سمندر پار سے ڈاکٹر آئے اور اس لب دم لڑکی کو لندن میں اپنے اسپتال میں لے گئے۔

عجب ثم العجب' وہ تو بچ گئی۔ موت کو چھو کر واپس آ گئی اور ایسی واپس آئی کہ دنیا جہان میں اس کی دھوم پڑ گئی۔ اور اقوام متحدہ کے ایوان تک میں اس کی دھمک سنائی دی اور لیجیے اب اسے وہ عالمی انعام مل گیا جس کے لیے دنیا کے علما فضلا تمنا کرتے ہیں اور کتنے تمنا کرتے گزر جاتے ہیں۔ قرعہ فال کس کے نام کا نکلا ہے۔ سوات کے جلے ہوئے اسکول سے نکلی ہوئی ایک آفت زدہ لڑکی کے نام کا عمر پوچھو تو یہی کوئی سولہ سترہ کے سن میں ہے۔ اب یار و اغیار انگشت بدنداں ہیں کہ آگے چل کر یہ لڑکی کیا گل کھلائے گی ع

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے

تیور تو یہی بتا رہے ہیں۔ چلی تھی اس مقام سے کہ

چاہے کچھ ہو جائے میں اسکول جانا نہیں چھوڑوں گی۔ ہر حال تعلیم حاصل کروں گی۔ پھر سوچا کہ اکیلی میں ہی کیوں۔ سوات کی سب لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ اب سوات سے نکل کر ہفت اقلیم کی سیر کی ہے تو اب عزائم ہیں کہ دنیا کے سارے محروم بچے' غریب گھرانوں کی ساری بچیاں تعلیم سے فیض یاب ہوں۔

یہ ہلہلہ اس کمسن لڑکی کے دماغ میں کیسے اٹھا۔ ہماری تاریخ میں' کہئے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ میں ایک ہی مصلح ایسا نمودار ہوا تھا جسے اصرار تھا کہ مسلمان نوجوان نئی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہوئے تو اس قوم کے نوشتہ میں پھر جہالت ہی لکھی جائے گی۔ یہ تھے سرسید احمد خاں۔ لیجیے قیامت اٹھ کھڑی ہوئی۔ کنوئیں کے مینڈکوں نے ٹرانا شروع کر دیا۔ مسلمان لڑکے انگریزی پڑھیں گے۔ استغفر اللہ۔ مگر اس شخص کی ثابت قدمی سے' نئی تعلیم کا سکہ چل گیا۔ اور مسلمانوں نے اس کا پھل پایا۔ جس حد تک نئی تعلیم کے پروگرام پر عمل کر سکے اس حد تک فیض پایا۔

مگر اس کے بعد سے کتنی تحریکیں چلیں۔ کیسے کیسے رہنما نے اپنی رہنمائی کا سکہ چلایا۔ مگر تعلیم کے مسئلہ نے پھر کسی تحریک' کسی رہنما کو پریشان نہیں کیا۔ کتنے زمانے کے بعد سرسید کے بعد اب سوات سے ایک لڑکی نے سر اٹھایا ہے اور بچوں لڑکیوں کو تعلیم دینے کے مشن پر نکلی ہوئی ہے۔ ارے یہ دوسری سرسید احمد خاں تو پہلے سرسید سے بھی چار قدم آگے جاتی نظر آ رہی ہے۔ سوات کے خاکستر سے نکلی ہوئی چنگاری اب عالمی چنگاری بننے کے جتن کر رہی ہے۔ یعنی دنیا کے سارے غریب بچوں کی تعلیم کا بار اٹھانے کے درپے ہے۔

اور اب ملالہ کو نوبل پرائز مل گیا ہے۔ یہ پروگرام آگے جیسے بھی چلے فی الحال پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی پاکستان کے دامن میں یہ پکا پھل آن پڑا تھا مگر اس وقت اس سے یار و اغیار کو احمدیت کی بو آنے لگی۔ بس پھر کیا تھا۔ چاروں طرف سے تھو تھو ہونے لگی۔ مگر اب کے نوبل پرائز اسے وقت میں ملا ہے جب اس پر خوش ہونے میں اور خوشی کا اعلان کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ جن کے خوف سے اس خوشی میں کھنڈت پڑ سکتی تھی وہ ضرب عضب کی زد میں ہیں۔ انھیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔

بس اس کے ساتھ ان کا خوف بھی جاتا رہا ہے۔ سو عوام و خواص اس انعام پر کتنی خوشی کا اظہار بے روک ٹوک کر رہے ہیں۔ بس اسی کے ساتھ پاکستان والوں کی ایک اور فکر دور ہو گئی۔ انھیں اپنے ملک کے امیج کی بہت فکر رہتی تھی۔ فکر رہتی تھی کہ دنیا کے سامنے ہمارا سوفٹ امیج ہونا چاہیے۔ ارے سو فٹ امیج کیسے پنپتا۔ اب تو ہم طالبان کے حوالے سے پہچانے جانے لگے تھے لیکن کیا خوب ہوا کہ ضرب عضب کے طفیل وہ متشدد چہرہ تو پس منظر میں چلا گیا۔ اور اب ملالہ کا نرم چہرہ پاکستان کا چہرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ پاکستان کے لوگ اس چہرے کی کتنی قدر کرتے ہیں۔

ہاں لیجیے۔ ملالہ کے بیانات میں ایک بیان ہم نے یہ بھی پڑھا کہ میں جو ذرا اونچی آواز میں بولتی ہوں تو اس وجہ سے نہیں کہ اپنی آواز لوگوں کو سنانا چاہتی ہوں بلکہ اس وجہ سے کہ یہ جو بچوں کی خاموش مخلوق ہے ان کی آواز لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔ اور ادھر ہم سوچ رہے ہیں کہ نرم چہرے والی ملالہ کی نرم آواز اونچی بھی ہو گی تو کتنی اونچی ہو گی۔ ارے یہ ہم سے پوچھو کہ اونچی آواز کونسی ہوتی ہے۔ اب جو نیا چلن ہماری سیاست میں آیا ہے کہ معمول کا لہجہ اہل سیاست بھول ہی گئے ہیں۔ اتنی اونچی آواز میں بولتے ہیں کہ وہ چیختے نظر آتے ہیں۔ اپنے تن کی پوری عمارت کو ہلا ڈالتے ہیں اور ساتھ میں مائیک کو جھنجھوڑ ڈالتے ہیں۔ خیر مائیک کا تو کچھ نہیں بگڑتا اپنے ہی ہونٹ کو زخمی کر لیتے ہیں۔

ملالہ کا لہجہ تھوڑا تیز اور تلخ بھی ہو جائے تو کتنا ہو گا' بس اس حد تک کہ ع

نوا را تلخ تر می زن چو ذوق نغمہ کم یابی

اور پھر جو طبیعت کے نرم ہوتے ہیں اور جن کے دل میں درد ہوتا ہے ان کی آواز بلند بھی ہو تو چیخ تو نہیں بن سکتی۔ وہ اپنی طبیعت کی نرمی اور دل کے درد کو کہاں لے جائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں