منگل یان کا کامیاب سفر
مغربی دنیا میں سائنس فکشن پر مبنی جو فلمیں بنتی ہیں ان پر بھارت کے منگل یان سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔
بھارت کا خلائی راکٹ ''منگل یان'' 10 ماہ کے سفر کے بعد کروڑوں میل کا فاصلہ طے کرکے 24 ستمبر بروز بدھ 6 بج کر 45 منٹ پر مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا۔ یہ اعزاز چین جیسا صنعتی ملک حاصل کرسکا، نہ جاپان جیسا ترقی یافتہ ایشیائی ملک یہ اعزاز حاصل کرسکا۔
اس حوالے سے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مہم پر کل لاگت 7 کروڑ 40 لاکھ ڈالر آئی ہے، کمال کی بات یہ ہے کہ مغربی دنیا میں سائنس فکشن پر مبنی جو فلمیں بنتی ہیں ان پر بھارت کے منگل یان سے زیادہ رقم خرچ کی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ناسا کی جانب سے 5 نومبر 2013 کو مریخ پر جو خلائی مشن بھیجا گیا تھا اس پر لگ بھگ 67 کروڑ10 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی تھی، اس تناظر میں اگر ہم بھارتی راکٹ منگل یان کے اخراجات پر نظر ڈالتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ 67 کروڑ10 لاکھ کے ناسائی اخراجات کے مقابلے میں بھارت جیسے انتہائی پسماندہ ملک نے محض 7 کروڑ10 لاکھ ڈالر میں یہ مشن کس طرح پورا کیا۔
ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلور کے خلائی مرکز سے اس حیرت انگیز کامیابی کا مشاہدہ کیا۔ مودی ایک معمولی پڑھا لکھا اور انتہائی نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والا شخص ہے اور ستم یہ ہے کہ اس شخص پر گجرات کے قتل عام کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے اور اس کا تعلق ایک ایسی انتہاپسند ہندو جماعت سے ہے جس کا نظریہ مذہبی انتہا پسندی کا فروغ ہے۔
مذہبی انتہا پسند جماعتیں خواہ ان کا تعلق بھارت سے ہو یا کسی مسلم ملک سے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی سخت مخالف ہوتی ہیں لیکن بھارت میں مریخ تک کامیابی سے رسائی کا یہ کارنامہ نریندر مودی کے دور حکومت میں انجام پایا ہے لیکن مودی یا اس کی جماعت یہ دعویٰ کرتی نظر نہیں آتی کہ یہ کارنامہ اس کی کامیابی ہے اس کے برخلاف بھٹو کے دور میں ایٹم بم بنانے کے جس منصوبے پر کام شروع ہوا تھا وہ اگرچہ نواز شریف کے دور میں مکمل ہوا ہے اور نواز حکومت اس ''کارنامے'' کو اپنے کھاتے میں ڈال کر اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتی نظر آتی ہے۔ جو نہ صرف ایک نظریاتی بددیانتی ہے بلکہ ان لوگوں کی توہین ہے جنھوں نے جان کی قیمت دے کر اس مہم کو جاری رکھا۔
بھارتی راکٹ ''منگل یان'' کی مریخ تک کامیاب رسائی کے پس منظر میں ہمارے اہل خرد پاکستان کی پسماندگی کا رونا تو روتے نظر آتے ہیں لیکن اس زمین اور آسمان کے فرق کی اصلی اور منطقی وجوہات تلاش کرنے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگ جاتے ہیں بلکہ بعض ''بڑے'' دانشور اور قلمکار تو یہ فرما رہے ہیں کہ اس پسماندگی کی بڑی وجہ ''جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانا ہے'' اور بڑے دانشورانہ انداز میں اس منطق کا ورد کرتے ہیں کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت زیادہ بہتر ہوتی ہے۔
2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی اور دعویٰ یہ ہے کہ یہ حکومت بھاری مینڈیٹ کے ساتھ برسر اقتدار آئی ہے اور ملکی ترقی کے لیے اس حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانا جمہوریت دشمنی کے علاوہ کچھ نہیں اس حوالے سے ڈی چوک کے دھرنے کی شدید مذمت بھی کی جاتی ہے لیکن اس تلخ حقیقت کا بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا جاتا کہ 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو تو جلسے جلوس کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی جب کہ دوسری جماعتوں کے لیے یہ شجر ممنوعہ بنا دیے گئے تھے۔
وہ کون لوگ تھے جو کسی کو جمہوری آزادی دے رہے تھے کسی سے جمہوری آزادی چھین رہے تھے؟ یہ لوگ چاند اور مریخ پر جانے کی بات تو چھوڑیے، چاند پر جانے والوں کو کافر اور خدائی احکام کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔ اس قسم کا پس منظر رکھنے والی جماعتوں کے بارے میں یہ فرمانا کہ ''ان جمہوری قوتوں'' کا راستہ روکنے کی وجہ سے ہمارے خلائی سفر میں بادہ پڑ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان پاکستان کے صرف ایک دن بعد آزاد ہوا لیکن وہ ہم سے سو سال آگے پہنچ گیا ہے، اس کی معیشت اس قدر مستحکم ہے کہ وہ ایشیائی طاقت بننے جا رہا ہے، اس کی جمہوریت دنیا کی سب سے زیادہ بڑی جمہوریت ہے جہاں ہوٹل میں کام کرنے والا ایک باہر والا ملک کا وزیراعظم بن سکتا ہے اور ہماری جمہوریت 67 سال سے چند خاندانوں کی یرغمال بنی ہوئی ہے، ہر خاندان ڈھیروں ولی عہد تیار کر رہا ہے اور ہم اس جمہوریت پر نثار ہو رہے ہیں، وارے جا رہے ہیں۔ اور جو لوگ اس شاہی جمہوریت کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ان پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان کی رخنہ اندازیوں کی وجہ سے پاکستان پسماندگی کے دلدل میں دھنسا ہوا ہے ورنہ وہ کب کا چاند پر پہنچ چکا ہوتا اور اس کا منگل یان کب کا مریخ کے مدار میں داخل ہوچکا ہوتا۔
بھارتی جنتا پارٹی جس کا ایک رکن آج ملک کا وزیراعظم بنا ہوا ہے وہ اپنی تمام تر مذہبی انتہا پسندی کے باوجود بھارت میں سیکولر طرز حکومت کی حامی ہے۔ بھارت کتنا ہی کٹر مذہبی ملک کیوں نہ ہو وہاں سوچنے اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ بھارت میں اگر 40 فیصد سے زیادہ لوگ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں تو یہ اس سرمایہ دارانہ نظام معیشت کا اعجاز ہے جو کسی مہلک بیماری کی طرح ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے لیکن بھارت میں جو معاشی سائنس و ٹیکنالوجی خلائی ترقی ہو رہی ہے وہ فکرو خیال کی آزادی اور خلا سمیت مختلف شعبوں میں نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی وجہ ہے۔
ایک ہزار سال تک ہندوستان کی 88 فیصد ہندو آبادی 12 فیصد مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والے ملکی اور غیرملکی حکمرانوں کی سیاسی یرغمال بنی رہی لیکن آزادی کے بعد انھوں نے اس ایک ہزار سالہ غلامی کو اپنا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ آگے بڑھنے کے راستے تلاش کرتے رہے جب کہ ایک ہزار سالہ اقتدار کو ہم نشاۃ ثانیہ کا نام دے کر اس کی تلاش میں آج بھی سرگرداں ہیں اور ہماری نظروں میں سائنس خلائی سائنس اور جدید دنیا کے تقاضوں کی کوئی اہمیت نہیں۔
ہم آج بھی عید کا چاند دیکھنے پر اختلافات کا شکار ہیں، ہم آج بھی ملک میں تین تین عیدیں منا رہے ہیں، ہم آج بھی 1949 کی اس قرارداد مقاصد کو سر پر اٹھائے پھر رہے ہیں جس کی وجہ سے ہم زندگی کے کسی شعبے میں آگے بڑھنے سے معذور ہیں، ہم آج بھی پولیو کے قطروں کو جائز یا ناجائز سمجھنے میں الجھے ہوئے پاکستان کو دنیا کا سب سے زیادہ پولیو زدہ ملک بنا رہے ہیں۔
ہماری معاشی ترقی کی راہ میں جمہوریت کا عدم تسلسل حائل نہیں بلکہ ہماری وہ جمہوریت ہے جس نے اشرافیہ کو لوٹ مار کی کھلی اجازت دے رکھی ہے اور ملکی دولت کا 80 فیصد حصہ صرف دو فیصد ایلیٹ کے ہاتھوں میں جمع یا یرغمال ہوگیا ہے۔ ہماری سائنسی ترقی کی راہ میں وہ مائنڈ سیٹ حائل ہے جو ایک ہزار سالہ دور حکومت کو نشاۃ ثانیہ قرار دے کر اس کے حصول میں سرگرداں ہے، ہماری معاشی اور سائنسی پسماندگی کی اصل وجہ اخلاقی فکر و اظہار پر وہ پابندیاں ہیں جو ہر نئے خیال ہر اس نئی فکر کو قابل گردن زدنی قرار دیتی ہیں۔
ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ ہم کرہ ارض ہی کو کل کائنات سمجھتے ہیں اور اس فکر کی وجہ سے کنوئیں کے مینڈک بنے ہوئے ہیں۔ ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ ہم خاندانی بادشاہوں کو جمہوریت قرار دے کر اس کے تحفظ کے لیے قلم بہ گوش ہیں۔
جمہوریت کا یہ عدم تسلسل ہمیں مریخ تک رسائی سے نہیں روک رہا ہے بلکہ جمہوریت پر قابض وہ حکمران خاندان ہمیں مریخ تک جانے نہیں دے رہے ہیں جن کا واحد مقصد دولت کے انبار جمع کرنا ہے، ہماری ترقی کی راہ میں پدرم سلطان بود کا وہ تصور ہے جو ماضی سے ہمیں باہر نہیں آنے دیتا۔ ہماری پسماندگی کی وجہ حکمرانوں کی وہ ذہنی پسماندگی ہے جو مذہبی انتہا پسندوں سے جمہوری انتخابات میں کامیابی کے لیے مدد حاصل کرتی ہے۔