ملالہ اور کیلاش

وادی سوات کی اس چڑیا کو بازوں سے لڑانے والا اور کوئی نہیں بلکہ اس بچی کا باپ ضیاء الدین یوسف زئی ہے


عمر قاضی October 13, 2014
[email protected]

ملالہ کیا ہے؟

اس سوال کے سیکڑوں جوابات ہو سکتے ہیں۔ ان بہت سارے جوابات میں ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ''ملالہ اپنے ملک کے بدقسمت ہاتھ کی خوش قسمت لکیر ہے''

وہ چھوٹی سی لڑکی جو دہشتگردوں سے اس طرح لڑی جس طرح سکھ مذہب کے مشہور گرو گوبند سنگھ کا یہ مشہور شعر کہ:

چڑیا نال باز لڑاواں

تاں گوبند سنگھ نام دھراواں

وہ گوبند سنگھ کون ہے؟ اس سوال کا جواب ہر کسی کو معلوم ہے۔ ہر کوئی کہے گا کہ وادی سوات کی اس چڑیا کو بازوں سے لڑانے والا اور کوئی نہیں بلکہ اس بچی کا باپ ضیاء الدین یوسف زئی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ضیاء الدین سے زیادہ اس میں اہم کردار ان حالات کا ہے جو پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے پیدا ہوئے اور پاکستان کی یہ بدقسمتی ملالہ کی صورت میں خوش قسمتی بن گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت بہت محنت کش مڈل کلاس کا ملک ہے۔

اس میں جس طرح متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں انگریزی سے لے کر ڈانس، اور کمپیوٹر سے لے کر فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں میں نمایاں کارکردگی دکھا رہی ہیں ان کے مقابلے میں تو ملالہ بہت کمزور ہے کیونکہ وہ انڈیا کی لڑکیوں کی طرح جینز نہیں پہنتی۔ وہ سر پر دوپٹہ اوڑھ کر آتی ہے۔ اس کی انگلش تو اب مغرب میں رہنے کے باعث بہتر ہوگئی ہے مگر جب وہ پاکستان کے پہاڑوں سے ابھرتے ہوئے دنیا پر چھا رہی تھی، اس وقت اس کی انگلش اتنی اچھی نہیں تھی اور نہ وہ کمپیوٹر میں کوئی بڑی مہارت رکھتی تھی۔ اس میں اعتماد تو تھا مگر ایسا نہیں جیسا امیر گھرانوں کی بچیوں میں ہوا کرتا ہے۔

وہ لبرل معاشرے کی علامت بننے کے بجائے پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کی روشن امید بن گئی اور اس امید کو مغرب نے بہت پسند کیا اور صرف تعلیم حاصل کرنے کے جرم میں وہ جس طرح دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنی اور جس طرح کئی دنوں تک موت اور زندگی کے درمیاں ڈولتی رہی، اس کا وہ سارا کردار اتنا بھرپور ہوکر سامنے آیا اور اس کو پوری دنیا میں اس قدر پذیرائی نصیب ہوئی کہ پاکستان کی سیاست کے بڑے بڑے نام جو اپنی بیٹیوں کو عالمی شہرت کی اسٹیج پر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ بھی حسرت کی تصویر بن گئے اور ملالہ نہ صرف اقوام متحدہ کی اسٹیج پر پاکستان کی باشعور اور مظلوم بیٹی کی بولتی تصویر نظر آئی۔

اس وقت بھی کسی نہیں سوچا تھا کہ یہ لڑکی جو سوات کے پابند معاشرے سے ابھری وہ امن کا نوبل انعام بھی حاصل کر پائیگی۔ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اس نے امن کا عالمی انعام اس عمر میں حاصل کیا جس عمر میں کسی عورت نے تو کیا کسی مرد نے بھی اتنی عزت حاصل نہیں کی۔ وہ اس وقت دنیا کی سب سے کم عمر نوبل انعام یافتہ بچی ہے مگر وہ کون ہے؟ وہ پاکستان کی بیٹی ہے۔ اس پاکستان کی جس پر پوری دنیا میں تنقید ہو رہی ہے۔ وہ ملک جو الزامات کی بارش میں بھیگ رہا ہے۔

وہ ملک اب کہہ سکتا ہے کہ ہماری دھرتی پر صرف طالبان پیدا نہیں ہوتے بلکہ یہ سرزمین اس بچی کو بھی جنم دے سکتی ہے جو عالمی ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ وہ بھی امن کے حوالے سے۔ ملالہ یہ انعام اکیلے حاصل نہیں کریگی۔ اس انعام میں اس کے ساتھ ساٹھ برس کا وہ بھارتی شخص بھی ہوگا جس کا نام کیلاش ستیارتھی ہے۔ وہ کیلاش جس نے انجینئر کی ملازمت کو ٹھکرا کر اپنے ملک میں ''بچپن بچاؤ تحریک'' شروع کی۔ آج بھارت کے سیاستدان، وہاں کے امیر انسان، سارے اداکار اور کھلاڑی اس شخص کے سامنے کوتاہ قد ہیں جس کا نام کیلاش ہے۔

وہ کیلاش جس کا نام اس پربت کے حوالے سے رکھا گیا ہے جو ہندو مذہب میں تقدس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مغرب نے امن کے نوبل انعام دینے کے سلسلے میں کیلاش کا انتخاب کرکے اسے یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت صرف اس بات پر ناز نہ کرے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے بلکہ اسے اپنے بچوں کو چائلڈ لیبر کی زنجیروں سے آزاد بھی کروانا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو یہ بات پسند نہیں آئی ہوگی کہ نوبل پرائز کمیٹی نے ایک انعام کو دونوں ممالک میں کیوں بانٹا ہے؟ مگر انھیں یہ سچائی قبول کرنا ہو گی کہ ان دونوں ممالک کو اپنے وجود سے لپٹی ہوئی دو بڑی بیماریوں کا علاج کرنا ہے۔

جس طرح پاکستان کے لیے دہشتگردی ایک بڑی بیماری ہے ویسے بھارت کے لیے وہ غربت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو اس ملک کے بچوں سے بچپن بھی چھین لیتی ہے۔ مغرب کے اس انعام میں دونوں ممالک کے لیے یہ پیغام ہے کہ اگر پاکستان دہشتگردی اور بھارت غربت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو انھیں امن کو اپنانا ہوگا۔ وہ امن جس کے لیے جدید بھارت کے باپو گاندھی نے لکھا تھا کہ ''امن منزل نہیں راستہ ہے'' وہ راستہ جس پر بھارت نے خاردار تاریں بچھا دی ہیں۔ بھارت اگر اپنے باپو کے اہنسا کو بھول چکا ہے تو کیلاش کو ملنے والا انعام اسے یاد دلاتا رہے گا کہ وہ ایک بھٹکا ہوا راہی ہے۔

اس وقت یہ سوال اہم نہیں کہ بھارت اور پاکستان کے وزرائے اعظم نوبل انعام کی تقریب میں مل بیٹھیں گے یا نہیں؟ معلوم نہیں کہ اس وقت کیا حالات ہوں مگر اس وقت جب لائن آف کنٹرول پر ہتھیار آگ اگل رہے ہیں اور بچوں کے نازک جسم زخمی ہو رہے ہیں، ان حالات میں کم از کم عالمی برادری کو صرف اس حد تک محدود نہیں رہنا چاہیے کہ انھیں امن کے حوالے سے علامتی پیغامات ارسال کرے۔ اقوام متحدہ کو مسئلہ کشمیر میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور عالمی برادری کو ان دونوں ممالک کے درمیاں امن کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا فرض ادا کرنا ہوگا جن کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہیں۔

امن کیا ہے؟

اس سوال کے سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جوابات سامنے آچکے ہیں اور جب تک بدامنی کے بارودی بادل برصغیر کی فضاؤں پر چھائے رہیں گے تب تک اس سوال کے بہت سارے جوابات آتے رہیں گے مگر ملالہ اور کیلاش کو مشترکہ طور پر ملنے والے امن کے عالمی انعام کے حوالے سے مجھے اس دھرتی کے عظیم شاعر شیخ ایاز کا وہ گیت یاد آرہا ہے جس کو اگر بھارت اور پاکستان اپنے دل میں بسائے تو امن ناقابل حصول منزل نہیں رہے گا۔

ہم نے جنگیں لڑی ہیں اب ہمیں اس امن کو بھی ایک موقع دینا ہوگا جس کی خوبصورت منظر کشی کرتے ہوئے ایاز نے لکھا تھا کہ: ''دور کیلاش سے ... چاند ہیمنت کا... میرے من کو ہمیشہ بلاتا رہا... میں کہ رنبیر تھا... لو میں لڑتا رہا... بڑچھیوں کے تلے... جھپکیاں نیند کی... مجھ کو راس آگئیں... ریت تانبہ بنی... میرے تلوے جلے... برچھ کے چھاؤں میں... میں نہ بیٹھا کبھی... گھاؤ جب بھر گئے... میرے ہر انگ پہ... کتنے کالے گلابوں کے ... پودے ملے... بیریوں نے کبھی... یہ شکایت نہ کی... میں نے لڑتے ہوئے... وار اوچھے کیے... مارنے سے ہچکچاہٹ... نہ مرنے کا ڈر... ہاں مگر دور کیلاش سے... چاند ہیمنت کا... میرے من کو... ہمیشہ بلاتا ہے'' ہیمنت ہندی زبان میں موسم سرما کو کہتے ہیں۔ وہ موسم سرما آ رہا ہے۔ دسمبر میں تو اس موسم کا راج ہوگا۔

اس موسم میں جب پاکستان کی ملالہ اور بھارت کے کیلاش کو امن کا نوبل انعام ملے گا، تب دونوں ممالک کی حکومتوں کو یہ گیت اپنے من میں گانا ہوگا اور سرد پہاڑوں پر ابھرتے ہوئے امن کے چاند کو حاصل کرنے کا سفر شروع کرنا ہوگا۔ بھارت کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ امن کے لیے اس کا سفر ایسا ہونا چاہیے جس طرح گاندھی نے کہا تھا۔ اس سفر کی منزل امن نہیں بلکہ یہ سفر ہی پرامن ہونا چاہیے کیونکہ جنگ کا راستہ امن کی طرف نہیں جاتا۔ امن کی طرف صرف امن کا راستہ جاتا ہے۔ وہ راستہ جو عرصہ دراز سے دونوں ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔