اجالا دھندلکوں میں گھرا ہے

حامد کرزئی کے جانے کے بعد افغانستان میں صدارتی انتخاب کے ذریعے نیا صدر منتخب کرنے کی کوشش کی گئی۔


Abid Mehmood Azam 1 October 13, 2014

ایک طویل عرصے سے بدامنی، خونریزی اور قتل و غارت گری کی بھٹی میں دہکتے افغانستان میں ابھی امید کی کوئی کرن واضح طور پر نظر نہیں آرہی اور حالات میں جلد بہتری آتی بھی دکھائی نہیں دیتی۔

افغانستان میں ظلم و جبر کی تاریکی چھائی ہوئی ہے اور دھندلکوں میں گھرا ہوا اجالا نمودار ہونے کے لیے تمام تگ و دو کے باوجود بھی ناکام معلوم ہوتا ہے، جب کہ افغانستان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ہر لحاظ سے اہم ہے، کیونکہ افغانستان کے حالات میں اونچ نیچ آنے کی وجہ سے پورے خطے میں حالات کی خرابی و بہتری کا فیصلہ ہوتا ہے۔ سامراج کی سازشوں اور جارحیت کی آگ میں جلتا افغانستان برسوں سے کسی بااختیار و مضبوط حکومت سے محروم ہے اور جنگ و جدل کے اس ماحول میں کسی کامیاب حکومت کا قائم ہونا آسان بھی نہیں ہے۔

حامد کرزئی کے جانے کے بعد افغانستان میں صدارتی انتخاب کے ذریعے نیا صدر منتخب کرنے کی کوشش کی گئی۔ صدارتی انتخابات دو مرحلوں 5 اپریل 2014 اور 14جون 2014 کو ہوئے۔ پہلے مرحلے میں عبداللہ عبداللہ نے سبقت حاصل کی اور دوسرے مرحلے میں اشرف غنی فاتح قرار پائے، لیکن عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کی فتح کو ماننے سے انکارکردیا اور اس انکار کے بطن سے تصادم و خونریزی کے جنم لینے کا خطرہ پیدا ہوا تو امریکا کے وزیرخارجہ جان کیری نے شراکت اقتدار کا ایک نیا فارمولا متعارف کرایا، جس کے تحت صدارت اشرف غنی کے حصے میں آئی اور ''سی ای او'' چیف ایگزیکٹو آفیسر جسے عرف عام میں وزیراعظم کہا جاسکتا ہے، عبداللہ عبداللہ کے لیے تخلیق ہوا۔

افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی ایک معروف شخصیت ہیں، وہ امریکا کی ''ہاپکنز یونیورسٹی'' میں علم البشریات کے پروفیسر رہے۔ ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی انھیں حاصل ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے چین، بھارت اور روس میں کئی اقتصادی منصوبوں کے ذمے دار کی حیثیت سے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ 2002 میں پروفیسر اشرف غنی حامدکرزئی کے مشیراعلیٰ اور پھر افغانستان کے وزیرخزانہ بنے۔ وہ کابل یونیورسٹی کے چانسلر بنے۔ چانسلر کی حیثیت سے انھوں نے یونیورسٹی میں ''اسٹیٹ افیکٹیونیس (STATE EFFECTIVNESS) کے نام سے ایک شعبہ متعارف کروایا، جس میں ایسے دس اصول وضع کیے جن کے بغیر کوئی ریاست کامیاب نہیں ہوسکتی۔

2013 میں ''پراسپیکٹ'' میگزین کے سروے میں دنیا بھر کے دانشوروں میں دوسرے نمبر پر آنے والے ''انٹلیکچول'' قرار دیے گئے۔ پروفیسر اشرف غنی عالمی اور علاقائی سیاست پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں اور وہ پانچ سالہ اقتصادی ایجنڈا بھی رکھتے ہیں، جس میں افغان معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے ترکی ماڈل کو اپنانے کے خواہاں ہیں۔ ان تمام خوبیوں کے با وجود مبصرین کے مطابق اشرف غنی کو اپنے پیش روحامدکرزئی کے مقابلے میں زیادہ چیلنجوں کاسامناہوگا اور ان کے لیے افغانستان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوگا۔

امریکی بندوبست کے زیر سایہ جو ہیئت حاکمہ تشکیل پائی ہے کہنے کو تو وہ بہ ظاہر ایک قومی حکومت ہے، مگر حقیقت میں بھان متی کا وہ کنبہ ہے، جسے کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا جوڑ جوڑ کر ترتیب دیا گیا ہے اور اگر دونوں انتخابی حریفوں کے متصادم خیالات و نظریات کو دیکھا جائے جو اپنے گروہی پس منظر کے ساتھ گزشتہ مہینوں کے دوران کھل کر دنیا کے سامنے آچکے ہیں تو یہ کوئی خوش کن صورت حال نظر نہیں آتی۔

ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں اختیارات کی جنگ شروع ہونے سے کافی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اشرف غنی مضبوط صدر بننے کے لیے کوشاں ہوں گے، فی الحال انھوں نے امریکی دباؤ پر مفاہمتی فارمولے کو قبول تو کرلیا ، لیکن ان کی رٹ چیلنج ہوئی ہے۔ عبداللہ عبداللہ کی کوشش ہوگی کہ وہ حکمرانی کے نظام میں موثر اور طاقت ور چیف ایگزیکٹو کے طو رپر کام کریں اور اگر افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو روزمرہ کے افغان معاملات سے دور رکھا گیا تو یہ انھیں قبو ل نہیں ہوگا، جس سے تصادم کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے۔

اسی طرح نئی افغان حکومت کو طالبان جیسی ''اپوزیشن'' کے چیلنج کا بھی سامنا ہوگا، جو پہلے ہی اس ''مک مکا حکومت'' کو مسترد کرچکی ہے۔اشرف غنی افغانستان کے حالات اسی صورت بہتر کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جب طالبان کے ساتھ تصادم کی کیفیت کو ختم کردیں اور یہ صورت مشکل نظر آرہی ہے، کیونکہ افغان صدر کی حلف برداری کے روز ہی طالبان نے نئی افغان حکومت کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا اور طالبان لیڈر ملا عمر نے اپنے عید پیغام میں بھی قائم ہونے والی نئی افغان حکومت کو دھوکا قرار دیا۔

نئی افغان حکومت نے امریکا سے سیکیورٹی معاہدہ کر کے اپنے لیے مزید مسائل پیدا کیے ہیں، کیونکہ یہ معاہدہ طالبان کو کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔ افغانستان میں اس وقت41 ہزار غیر ملکی فوجی تعینات ہیں اور اس معاہدے کے تحت 2014 کے بعد 12 ہزار غیر ملکی فوجی افغانستان میں تعینات رہ سکیںگے۔ ان میں 9800 امریکی فوجی ہوںگے اور باقی فوجیوں کا تعلق نیٹوکے دوسرے رکن ممالک سے ہوگا۔ امریکا ہر حال میں اس سیکیورٹی معاہدے پر دستخط کروانا چاہتا تھا، اسی لیے امریکا نے آگے بڑھ کر انتقال اقتدار کے لیے مفاہمت کرائی اور اشرف غنی نے صدارتی حلف اٹھاتے ہی اس معاہدے پر دستخط بھی کر دیے ہیں۔

افغان امور میں دلچسپی رکھنے والے غیر ملکی مبصرین کے مطابق امریکا کے ساتھ ہونے والا سیکیورٹی معاہدہ افغانستان کو امن کی بجائے مزید بدامنی اور خونریزی کی طرف لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اشرف غنی کے پیش رو سابق صدر حامد کرزئی نے امریکا کے ساتھ اس دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا۔

اسی لیے حامدکرزئی اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کافی سردمہری آئی تھی، تاہم افغان طالبان کی جانب سے کرزئی حکومت کو درپیش خطرات میں کمی آگئی تھی، جس کے باعث افغانستان کے مقامی اہلکار خودکو قدرے محفوظ سمجھنے لگے تھے اور حالات امن و استحکام کی جانب بڑھنے لگے تھے۔ جب کہ نئی افغان حکومت کے امریکا سے سیکیورٹی معاہدہ کرنے پرافغانستان کے اہم مزاحمتی فریق طالبان نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے اسے امریکا اور مغربی ممالک کی افغانستان پر قبضے اور طاقت کے بل پر عالمی سطح پر اپنی ساکھ بحال کرنے کی چال قرار دیتے ہوئے کہا کہ'' امریکا خود کو ایک اور خطرناک جنگ کے لیے تیار کررہا ہے۔

امریکا اور اس کے غلاموں کے خلاف جہاد اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک افغانستان کو امریکا سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرالیا جاتا۔'' ان حالات میں مزید تلخی عبدالرشید دوستم کو نائب صدر منتخب کرنے کی وجہ سے بھی پیدا ہوسکتی ہے، کیونکہ رشید دوستم پربڑی تعداد میں افغان طالبان کو کنٹینرز میں بند کر کے قتل کرنے کا الزام ہے۔یوں طالبان کا رشید دوستم کے ساتھ مفاہمت پیدا کرنا بھی مشکل نظر آتا ہے اور افغانستان کے حالات بہتری کی بجائے مزید گمبھیر ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا امریکا اور بڑی طاقتوں کی سرپرستی سے میں افغانستان میں انتقال اقتدار کے مفاہمتی فارمولے سے وقتی طور پر تو بہتری آسکتی ہے، لیکن افغانستان میں مستقل بنیادوں پر امن و استحکام کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں اور ابھی اجالا دھندلکوں میں گھرا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔